٭ہر شے کے ثواب کا ایک اندازہ ہے مگر صبر کے ثواب کا کوئی اندازہ نہیں۔
٭سائل کاحق ہے کہ اسے جواب دیا جائے اوراچھا جواب دینا اچھے اخلاق کا تقاضا کرتا ہے۔
٭جو شخص حرف شکایت زبان پر نہیں لاتا وہ خوشگوار زندگی سے ہم کنا ر ہوتا ہے ۔
٭آنکھ دل کا دروازہ ہے اورتمام آفات اسی راہ سے داخل ہوتی ہیںجو لذتوں کی طرف رغبت دلاتی ہیں۔آنکھ بند کرلوتو ان آفات سے محفوظ رہو گے۔
٭اس دن پر رو جو تیر ی عمر کا گزر گیا اوراس میں نیکی نہیں کی۔
٭تو دنیا میں رہنے کے سامانوں میں لگا ہے اوردنیا تجھے اپنے سے نکالنے میں سرگرم ہے۔
٭صبح خیزی میں مرغان چمن کا سبقت لے جانا تیرے لئے باعث ندامت ہے۔
٭عورتوں کو سونے کی سرخی اورزعفران کی زردی نے ہلاک کررکھا ہے۔٭جسے رونے کی طاقت نہ ہو وہ رونے والوں پر رحم کیا کرے۔٭زبان کو شکوہ سے روک ‘خوشی کی زندگی عطا ہوگی۔
٭خلقت سے تکلیف دور کر کے خود اٹھا لینا حقیقی سخاوت ہے۔٭انسان ضعیف ہے۔تعجب ہے کہ وہ کیونکر خدائے قوی کی نافرمانی کرتا ہے۔٭علم کے سبب کسی نے خدائی کا دعویٰ نہیں کیا‘مگر مال کے سبب بہت سے لوگوں نے خدائی کا دعویٰ کیا۔٭ہر گز کوئی شخص موت کی تمنا نہیں کرے گا،سوائے اس کے جس کو اپنے عمل پر وثوق ہو۔
٭پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندوں کے لئے اپنی معرفت کی طرف سوائے اعتراف عجز کے اورکوئی راستہ نہیں رکھا۔٭خدایا! تو میرا حال میری نسبت بہتر جانتا ہے اورمیں اپنا حال ان (لوگوں) کی نسبت بہتر جانتا ہوں۔خدایا! تو مجھے بہتر بنادے اس سے جو وہ گمان کرتے ہیںاورمیرے وہ گناہ بخش دے جو ان کو معلوم نہیں اور جو وہ کہتے ہیں اس پر مجھے گرفت نہ کر۔٭ادراک کے حاصل کرنے سے عاجز آنا ادراک ہے۔٭جب تجھ سے کوئی نیکی فوت ہوجائے توا س کاتدارک کر اور اگر کوئی بدی تجھے آگھیرے تو اس سے بچ جا۔
٭شہوت کے سبب بادشاہ غلام بن جاتے ہیں۔٭اس زبان نے ہمیں ہلاکت کے مقامات میں ڈالا ہے۔ ٭شریف آدمی علم کی دولت حاصل کرکے متواضع ہوجاتا ہے اورشریر متکبر۔
٭اخلاص یہ ہے کہ اعمال کا عوض نہ چاہا جائے۔
٭اشخاص کو حق سے پہچانو‘حق کو اشخاص سے نہ پہچانو!(تاریخ سازوافکار واقوال:رائے محمد کمال)