میں ہوں اک مظلوم ’لائوڈ سپیکر‘

مکرمی! لفظ ’’سپیکر‘‘ میرے نام کا بس ایک حصہ ہے مگر میں کسی اسمبلی کا وہ والا سپیکر نہیں ہو جو عیش و آرام میں ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے آرام میری قسمت میں کہاں۔ لوگ ’’اللہ معافی‘‘ نہایت ہی بے دردی اور غیر مہذب طریقے سے مجھے استعمال کرکے جہاں میرا انجر پنجر ہلا دیتے ہیں‘ وہاں لوگوں کا آرام و سکون بھی برباد کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس سلسلہ میں یہ دن دیکھتے ہیں نہ رات ۔ اکثر آدھی رات کو مجھے گاڑھ کے بیٹھ جاتے ہیں حالانکہ وہ قت میرے اور دیگر تھکے ماندے لوگوں کے آرام کا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بیمار ہی ہوتا ہے۔ کوئی طالبعلم پڑھ رہا ہوتا ہے۔ انہیں کسی کی پروا نہیں ہوتی۔ کئی بار لوگوں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ اللہ جب علیم و خبیر ہے‘ خاموش عبادت بھی اس تک پہنچ جاتی ہے تو پھر اتنا شور مچانے کی ضرورت آخر کیا ہے۔ لوگوں کے کانوں کے پردے پھاڑنا عبادت کی کونسی قسم ہے مگر انہیں اثر ہی نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی تو مجھے ان پر غصہ بہت آتا ہے تو اللہ میاںسے چپکے چپکے دعا کرتا ہوں کہ اگر انہوں نے پیدا ہونا تھا تو میں ہی ایجاد نہ ہوتا۔ اگر میں ہی ایجاد ہو گیا تھا تو یہ ہی اہل زمیں کا سکون برباد کرنے کیلئے پیدا نہ ہوتے۔ ہے کوئی ادارہ جو مجھ غریب مسکین یرغمالی کی ان لوگوں سے گلوخاصی کروائے۔ میں اور تمام ’’ہمسایہ خدا عوام‘‘ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اس ادارے کو دعائیں دیں گے۔(محسن امین تارڑ ایڈووکیٹ‘ گکھڑ منڈی)

ای پیپر دی نیشن