کراچی(کامرس رپورٹر)رکن قومی اسمبلی اور چیئرمین فنانس اینڈ ریونیو کمیٹی فیض اللہ کموکا نے کہا ہے کہ وزیراعظم نے ٹاسک فورس بنانے پر اتفاق کیا ہے جس کو تمام محکموں اور کراچی کی تاجر برادری کے درمیان ثالث کی ذمہ داری سونپی جائے گی تاکہ درپیش مسائل کو جلد از جلد حل کیا جا سکے۔ مجوزہ ٹاسک فورس کے لیے ٹی او آرز جمع کرادیے گئے ہیں جس کے چیئرمین اور ممبران کراچی چیمبر، ایسوسی ایشنز اور تجارتی اداروں کے ساتھ باقاعدگی سے میٹنگز کریں گے تاکہ ایف بی آر، ایس ایس جی سی، کے الیکٹرک اور دیگر اداروں سے متعلق ان کے تمام مسائل جلد حل ہو سکیں۔ یہ ٹاسک فورس ملک بھر کے دیگر چیمبرز اور تجارتی اداروں کے ساتھ بھی ملاقاتیں کرے گی تاکہ کاروبار دوست ماحول پیدا کیا جاسکے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے فنانس اینڈ ریونیو کمیٹی کے ارکان پر مشتمل وفد کی قیادت کرتے ہوئے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری( کے سی سی آئی) کے دورے کے موقع پر کیا۔فنانس کمیٹی کے وفد میں ایم این اے قیصر احمد شیخ، آفتاب صدیق، فہیم خان، قاضی جنید وڑائچ اور چوہدری خالد جاوید شامل تھے۔اجلاس میں چیئرمین بزنس مین گروپ زبیر موتی والا، وائس چیئرمین بی ایم جی انجم نثار اور جاوید بلوانی، جنرل سیکریٹری بی ایم جی اے کیو خلیل، صدر کے سی سی آئی محمد ادریس، سینئر نائب صدر عبدالرحمان نقی، نائب صدر قاضی زاہد حسین اور کے سی سی آئی کی منیجنگ کمیٹی کے اراکین بھی موجود تھے۔فیض اللہ کموکا نے خستہ حال انفرااسٹرکچر اور کراچی کی تاجر برادری کو درپیش دیگر مسائل پر اظہار تشویش کے جواب میں کہا کہ کراچی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے آؤٹ آف دی باکس حل درکار ہیں تاکہ اس شہر اور ملک کو مزید بحرانوں میں ڈوبنے سے بچایا جا سکے۔انہوں نے وزیراعظم اور وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر سے جلد از جلد ملاقات کرانے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا وزیراعظم ہمیشہ گہری دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کراچی، یہاںکی تاجر برادری کو درپیش مسائل کے حل کو اولین ترجیح دیتے ہیں تاکہ کراچی کے صنعتکاروں کو درپیش گیس کے بحران پر بات چیت اور حل کیا جاسکے۔انہوں نے کراچی چیمبر کو مشورہ دیا کہ وہ وفاقی بجٹ کے لیے اپنی سفارشات جلد از جلد فنانس کمیٹی کو بھیجے جیسا کہ جنوری، فروری اور مارچ وہ مہینے ہیں جب فنانس کمیٹی کی طرف سے بجٹ کی سفارشات کا جائزہ لیا جا رہا ہوتا ہے اور فنانس بل میں شامل کرنے کے لیے بھیجا جاتاہے ۔ ہم وزیر خزانہ، کے سی سی آئی اور ایف بی آر کے درمیان ایک خصوصی ملاقات کا بھی اہتمام کر سکتے ہیں تاکہ آپ کو اگلے بجٹ کے لیے اپنی تمام تجاویز کو اجاگر کرنے کا موقع مل سکے۔ایم این اے آفتاب صدیق نے کہا کہ ہماری کوشش ہوگی کہ بجٹ سے قبل ورکشاپ کا انعقاد کیا جائے جس میں تمام محکموں، فنانس کمیٹی کے اراکین اور کے سی سی آئی کے نمائندوں کو مدعو کیا جائے گا تاکہ وفاقی بجٹ میں شامل کرنے کے لیے چیمبر کی تجاویز پر وسیع بحث اور غور کیا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کراچی کو درپیش مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ ہے۔کراچی کے انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے معمول کی مختص رقم کے علاوہ اضافی گرانٹس بھی دی جارہی ہیں۔ کے فور منصوبے پر کام زور و شور سے جاری ہے جو اکتوبر 2023 تک مکمل ہو جائے گا جبکہ کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کے لیے فنڈنگ کا بھی انتظام کیا گیا ہے جس سے ٹریفک جام کا مسئلہ سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔کے سی سی آئی کے صدرمحمد ادریس نے کراچی کے بے مثال تعاون کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت سے کراچی کو باضابطہ طور پر پاکستان کا صنعتی دارالحکومت قرار دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کراچی شہر کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک تشویش کاباعث ہے،کراچی جو میونسپلٹی سروسز کے لیے 26 ارب روپے کی معمولی رقم وصول کرتا ہے جس میں سے زیادہ تر حصہ تنخواہوں کی ادائیگی پر استعمال ہو رہا ہے،ہمارے پڑوسی ممالک کے شہروں بشمول ڈھاکہ، بنگلور، ممبئی، کولکتہ اور نئی دہلی کو بھاری میونسپل فنڈز کراچی کے مقابلے میں کم از کم تین سے چار گنا یا اس سے بھی زیادہ ملتے ہیں جبکہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر جو قومی خزانے میں 68 فیصد سے زیادہ ریونیو کا حصہ ڈالتا ہے اسے معمولی سی رقم دی جاتی ہے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی عدم توجہ کے باعث کراچی کا معیار زندگی تیزی سے گر رہا ہے جس سے نہ صرف تاجر برادری بلکہ غریب عوام کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔چیئرمین بی ایم جی زبیر موتی والا نے نشاندہی کی کہ کراچی کے تمام صنعتی زونز کی صنعتیں گزشتہ 68 دنوں سے مسلسل کم پریشر یا گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے بری طرح متاثر ہو رہی ہیں اور وہ اس سنگین مسئلے کو تمام دستیاب پلیٹ فارمز پر مسلسل اٹھا رہے ہیں اور میڈیا میں بھی اپیلیں کی جارہی ہیں لیکن بدقسمتی سے ابھی تک کوئی سنوائی نہیں ہوئی۔ انہوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا جو اب برآمد کنندگان سے 180 دن کی بجائے 120 دن کے اندر اپنی آمدنی واپس لانے کا مطالبہ کررہا ہے جو کہ مکمل طور پر ناقابل عمل ہے۔
کراچی چیمبر
چیمبر، ایسوسی ایشنز اور تجارتی اداروں کے ساتھ باقاعدگی سے میٹنگز کریں گے‘چیئرمین قومی اسمبلی فنانس اینڈ ریونیو کمیٹی
Jan 30, 2022