برصغیر اس لحاظ سے بڑا دلچسب ملک ہے کہ یہاں مختلف مذاہب کے لوگوں کو حکمرانی کا موقعہ ملااور سب نے اپنے اپنے انداز میں حکمرانی کے نشے لیے۔یہاں ہندوحکمران رہے۔بدھ حکمران رہے۔مسلمانوں نے حکمرانی کی۔انگریز وں نے حکمرانی کی۔سکھوں نے حکمرانی کی۔ اور اب پتہ نہیں مزیدکون کون حکمران بنے گا۔حکمرانی کا جام اِسی کا ہو جاتا ہے جو بڑھ کر اِسے تھام لے۔ویسے تو ہر حکمران اپنے اپنے انداز میں حکمرانی سے لطف اندوز ہوا لیکن سب سے دلچسپ بلکہ رنگین حکمرانی برصغیر میں سکھوں کی تھی۔ ایک یورپی مو¿رخ نے لکھا تھا"ہندوستان میں تین قومیں آباد ہیں۔ ایک بہت شاطر ،تیز طرار اور مطلب پرست قوم ہے جو آنے والے حالات کے متعلق کئی سال پہلے سوچتی ہے ا ور وقت آنے پر ا±ن حالات سے فائدہ ا±ٹھانے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کرتی ہے اور فائدہ ا±ٹھاتی ہے۔ دوسرا گروپ وہ قوم ہے جو حالات سے فائدہ نقصان کی پرواہ نہیں کرتی بلکہ ا±س وقت سوچنا شروع کرتی ہے جب مشکل حالات میں پھنس جاتی ہے۔ایک تیسری قوم اتنی آزاد منش اور لاپرواہ ہے کہ واقعات کے گزرنے کے دس سال بعد سوچنا شروع کرتی ہے۔"اب آپ نے سمجھ لیا ہوگاکہ سکھوں کا تعلق کس گروپ سے ہے۔کیونکہ یہ لوگ اب اپنے علیحدہ وطن خالصتان کا شور مچارہے ہیں۔
تاریخ کے فیصلے ہمیشہ اٹل اور غیر متوقع ہوتے ہیں۔ سکھوں کی پہلی حکمرانی کے خاتمے کے تقریباً اڑھائی سو سال بعد حالات نے ہند کی حکمرانی ایک دفعہ پھر سکھوں کی جھولی میں ڈال دی اور من موہن سنگھ ہندوستان کے وزیر اعظم بن گئے۔ فرق صرف یہ تھا کہ پہلے سکھوں نے دریائے ستلج سے دریائے کابل تک حکومت کی اور اب کی دفعہ بقیہ ہندوستان کی حکمرانی ملی۔ گواب جمہوریت کا دَور ہے۔ آج کے حالات اور پہلی سکھ حکومت کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن سکھ بہر حال زندہ دل لوگ ہوتے ہیں اور ان کا انداز حکمرانی بھی باقی حکمرانوں سے نرالاہوتا ہے۔ آئیں ذرا پہلی سکھ حکمرانی کا جائزہ لیں۔
پہلی سکھ حکومت کا بانی صرف اور صرف مہاراجہ رنجیت سنگھ تھا جس نے اپنی ذہانت اور جراءت سے اپنے لئے ایک وسیع سلطنت قائم کر لی۔ رنجیت سنگھ ایک چھوٹے سے جاگیردار مہان سنگھ کے گھر پنجاب کے علاقہ سکر چو کیا نزد گجرانوالہ میں 1780 ءمیں پیدا ہوا۔ ا±س وقت سکول وغیرہ کا رواج تو تھا نہیں لہٰذا اسکی ابتدائی زندگی گھوڑے کی پیٹھ پر گذری۔ ا±س دَور میں ڈاکے ڈالنا سکھوں کا محبوب پیشہ تھا اور اس مقصد کے لئے نوجوان سکھ اپنے اپنے جتھے قائم کرتے جسے آجکل گینگ کہتے ہیں۔ لہٰذا رنجیت سنگھ نے بھی اپنے ڈا کو جتھے قائم کئے۔ لیکن رنجیت سنگھ کی دلیری نے علاقے میں اس کی دھوم مچا دی اور حالات نے اسے ڈاکو سے لیڈر بنا دیا۔ ہوشیار اور عقلمند انسان تھا لہٰذا ا±س وقت کے پنجاب کے حکمرانوں ، کابل کے افغان حکمرانوں اور انگریزوں کے ساتھ دوستی اور تعلقات قائم کئے۔ پھر حالات سے فائدہ اٹھا کر پنجاب پر قبضہ کر لیا۔ فقط قوت بازو سے پشاور سے آگے جمرودتک کا علاقہ اپنی سلطنت میں شامل کرلیا۔
یہ وہ وقت تھا جب دہلی کے مغل حکمران اپنی اصل طاقت کھو بیٹھے تھے۔ چوری، ڈاکہ زنی زندگی کا معمول بن گیا۔ کابل، غزنی اور ایران کے افغان حکمران ہر تیسرے چوتھے سال حملہ آور ہوتے اور علاقے کے لوگوں میں لوٹ مار کر کے چلے جاتے۔ باقی رہی سہی کسر سکھ جتھے نکالتے۔ جنوب سے مرہٹے بھی اس علاقے میں آکر لوٹ مار مچاتے۔ قانون نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ عوام بہت تنگ اور مجبور تھے۔ انہیں اس سے کوئی سروکار نہ تھا کہ حاکم کون ہے۔ انہیں تو امن چاہیے تھا جو ا±س دَور میں ممکن نہ تھا۔ لہٰذار نجیت سنگھ نے ان حالات سے فائدہ اٹھایا اور بزور شمشیر امن قائم کیا جس سے مغل حکمران بھی مطمئن ہوئے۔ کابل کے افغان سردار سے دوستی کے نام پر معاہدہ کیا اور انگریز اس لئے خوش ہو گئے کہ ان کے شمال مغرب میں جو لا قانونیت کی سردردی تھی اس سے نجات ملی۔ لہٰذا ان تمام طاقتوں نے رنجیت سنگھ کی مدد کی اور اسکی حکومت روز بروز بڑھتی چلی گئی۔
رنجیت سنگھ نے ایک عظیم الشان سکھ فوج تیار کی جس میں پچاس ہزار کیولری اور پیادہ فوج تھی۔ پچاس ہزار تر بیت یافتہ کسان ملیشیا، 300 تو پیں، انگریز فوجی آفیسر ز تربیت کے لئے مقرر کئے گئے اور ا±س دَور کے حساب سے یہ ایک بہت اچھی فوج تھی۔
رنجیت سنگھ ایک سخت گیر منتظم تھا لیکن بیویوں اور داشتاو¿ں کی ایک وسیع تعداد تھی۔ دوسرا شراب نوشی کا بہت عادی تھا۔ کچھ مورخین کا خیال ہے کہ اسکی کچھ چہیتی بیویاں آپس کے حسد کی وجہ سے ا±سے خوب پلاتی تھیں اور رنجیت سنگھ جوش میں آکر پیتا رہتا تھا۔ نتیجتاً وقت سے پہلے بوڑھا ہو گیا اور 59 سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جاملا۔ کچھ تاریخی حوالوں کے مطابق رانی جنداں نامی ایک خاتون اسکی محبوبہ تھی۔ اس کا دلیپ سنگھ کے نام سے ایک نا جائز بیٹا بھی تھا۔ عورت کافی ذہین اور ہوشیار تھی ایک دن جب رنجیت سنگھ پی کر رانی جنداں کے ساتھ رنگ رلیاں منارہا تھا تو رانی جنداں نے موقعہ غنیمت جان کر مہاراجہ سے اپنے ناجائزبیٹے کو مہاراجہ کی جائز اولاد ہونے کا اعلان کرادیا۔
مہاراجہ کی موت پر جب اسکی چتا تیار کی گئی تو سکھ فوج اسکی بیویوں اور داشتاو¿ں کو گھیر کر لے آئی اور زبردستی"رسم ستی " کے نام پر آگ میں پھینک دیا۔ چیختی اور بھاگتی خواتین کو پکڑ پکڑ کر چتا میں جلایا۔ سکھ تاریخ میں جہاں اور بہت سے ظلم کے قصے مشہور ہیں وہاں ظلم کی یہ داستان بھی ایک روح فرسا واقعہ ہے جو مہذب دنیا کے لئے ناقابل قبول ہے لیکن سکھ بادشاہ لوگ ہیں اور ان کے فیصلے اکثر و بیشتر مہذب دنیا کے لئے حیران کن ہوتے ہیں۔ افراتفری کے اس موقع پر کچھ ہوشیار قسم کی عورتیں چھپ گئیںیا موقعہ سے اِدھر ا±دھر ہو گئیں اور یوں زندہ جلنے سے بچ گئیں جن میں رانی جنداں بھی تھی جوبعد کی تاریخ کا اہم کردار بنی۔
٭....٭....٭
سکھ حکمرانی جو عیاشی میں ڈوب گئی
Jan 30, 2023