سیرت النبی ایک ایسا مبارک موضوع ہے جس پر دنیا بھر کی زبانوں میں بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان میں ضخیم تصانیف بھی ہیں، اوسط ضخامت کی بھی اور مختصر بھی۔ عربی زبان اس سلسلے میں سب سے زیادہ خوش نصیب زبان ہے اور اس کے بعد اردو زبان۔ عربی سے اردو میں ترجمہ ہونے والی کتب سیرت رسول کا بھی ایک ناختم ہونے والا سلسلہ ہے اور رائے خدا بخش کلیار کی ”سیرت کا ایک معطر جھونکا “اس سنہری سلسلے کی ایک تازہ کڑی ہے۔کتاب کے مصنف جناب ڈاکٹر یحییٰ بن ابراہیم 1376ھ میں سعودی عرب کے شہر بریدہ میں پیدا ہوئے۔ انھیں سیرت النبویہ ﷺ اور تاریخ میں تخصص عام اور سیرت النبویہ ﷺ میں تخصص خاص حاصل ہے۔ انھوں نے مختلف موضوعات پر متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں۔اس کتاب میں مصنف نے رسول اللہ ﷺ کی سیرت مطہرہ کے حوالے سے انسانی زندگی کے مختلف پہلو¶ں پر جامع روشنی ڈالی ہے۔ کتاب میں فاضل مصنف نے جس چیز کو نمایاں کیا ہے وہ آنحضور ﷺ کی اتباع ہے۔ آپﷺ کی اتباع ،آپ ﷺ کی محبت کے لوازم میں سے ہے۔
اس کتاب کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ دل سے لکھی گئی ہے اور سیدھی قاری کے دل میں اترتی ہے۔ بعض کتابیں خالص علمی اور تحقیقی انداز میں لکھی جاتی ہیں،بعض میں تاریخی واقعات کو زمانی ترتیب کے ساتھ قلم بند کیا جاتا ہے۔ بعض فن سوانح نگاری کے اصولوں کی روشنی میں تحریر کی جاتی ہیں، اور ان میں بہت کچھ خیال آرائی اور زیب داستان سے کام لیا جاتا ہے۔ بعض میں سیرت میں باقاعدہ کہانی بنا کر دل کشی پیدا کی جاتی ہے۔ بعض کو ناول اور ڈرامہ کا روپ عطا کیا جاتا ہے، بعض میں تبلیغی، واعظانہ، ناصحانہ یا خطیبانہ انداز اختیار کیا جاتا ہے۔ گویا سیرة النبی ﷺایک ایسا گلستان ہے جس میں ہزاروں، لاکھوں رنگا رنگ پھول کھلے ہیں اور ہر پھول کا چہرہ، رنگ، روپ اور خوشبو جدا جدا ہے۔
ڈاکٹر یحییٰ بن ابراہیم کی زیر نظر کتاب کا محرک مصنف کا یہ احساس ہے کہ بعض مسلمانوں نے مجلسوں میں سیرت کے پڑھنے پر اکتفا کر لیا، بعض نے حصول برکت کے لیے حیات طیبہ کا مطالعہ کیا اور بعض نے احداث و واقعات پر، آپ کے غزوات و سراپا اور وفود سے متعلقہ معلومات پر بس کر لی۔ جب کہ مصنف کے خیال میں یہ صورت یا تو آنحضور ﷺ کی ہدایت و اتباع کے بنیادی سر چشمے سے بے خبری اور اس کی حقیقت کے عدم ادراک کے باعث ہے کہ آنحضور ﷺ کی اتباع آپ کی محبت کے لوازم میں سے ہے یا یہ کہ یہ صورت آپ ﷺکی سیرت کے اتباع کے مواقع سے عدم واقفیت، استنباط کی صلاحیت کی کمی اور کم علمی کے باعث ہے۔ اس لیے مصنف نے ارادہ کیا کہ وہ آنحضور ﷺکی سیرت اس وضاحت کے ساتھ لکھے گا جو آپ ﷺکی سیرت کے ایک نئے انداز کا نمونہ ہوگا، تا کہ وہ آپ ﷺ کی ہدایت کے منہج پر قائم ہونے والی عمارت کی ایک اینٹ بنے۔
بلا شبہ رسول اللہ ﷺ ِ اس دین کی عملی اور تطبیقی صورت ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور جنت کی طرف جانے والی ساری کی ساری راہیں مسدود ہیں ماسوائے محمد ﷺ کی راہ کے۔ ممکن نہیں کہ آنحضور ﷺکی معرفت کے بغیر تم دین اسلام کو سمجھ پا¶، نیز یہ کہ آپ ﷺکی ہدایت کیا تھی؟ آپ ﷺکا عمل کیا تھا؟ اور آپ ﷺنے کس چیز کا حکم دیا اور کس چیز سے روکا؟ آپ ﷺکا منہج کیا تھا اور آپ ﷺکی سنت کیا تھی؟ ان چیزوں کو جانے بغیر، اے میرے بھائی! تیرا دین صحیح نہیں ہو سکتا۔
آپ ﷺنے جنگ بھی کی اور صلح بھی، سفر بھی کیا اور قیام بھی فرمایا۔ آپ ﷺنے خریدا بھی اور بیچا بھی، آپ ﷺنے لیا بھی اور دیا بھی۔ آپ ﷺکبھی تنہار ہے نہ لوگوں سے دور اور نہ ہی آپ ﷺنے تنہا سفر کیے۔ آپ ﷺ کو قسما قسم کی ایذا ئیں اور نوع بہ نوع مظالم برداشت کرنے پڑے لیکن انجام کا رنصرت آپ ﷺہی کا حصہ تھی۔ آپ ﷺرسولوں کے وقفے پر مبعوث ہوئے۔ آپ کو ہمہ گیر بگاڑ، اخلاقی انحطاط، اور انحراف کی ہولناک صورت حال کا سامنا اور اللہ تعالیٰ سے دور اور شرک میں غرق انسانوں سے واسطہ تھا۔ آپ ﷺ نے اللہ کی تائید سے لوگوں کو اندھیرے سے روشنی کی طرف، گمراہی سے ہدایت کی طرف اور شقاوت سے سعادت کی طرف نکالا۔ انھوں نے آپ ﷺسے محبت کی، اپنی جانوں، مالوں اور اولادوں کے ساتھ آپ ﷺپر فدا ہوئے۔ انھوں نے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں آپ ﷺکی پیروی کی، آپ ﷺکو منارہ نور بنا لیا جس سے وہ منور ہوتے اور آپ ﷺکی راہنمائی سے راہ لیتے۔ اس طرح وہ ہدایت کے امام اور بشریت کے قائد بن گئے۔
مسلمانوں پر جو افتاد آئی وہ آپ ﷺکی سنت کی اتباع سے گریز اور آپ ﷺکی ہدایت سے اعراض کے سبب آئی۔ حالانکہ ہدایت ربانی تو یہ تھی:
﴾لَقَد± کَانَ لَکُم± فِی رَسُولِ اللَّہِ اس±وَةµ حَسَنَةµ﴿
(33: الاحزاب: 21)
در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے۔
رائے خدا بخش کلیار نے ڈاکٹر یحییٰ بن ابراہیم کی مذکورہ بالا کتاب کا بڑا عمدہ ترجمہ کیا ہے۔ وہ کہنہ مشق مترجم ہیں اور اس کتاب سے پہلے چھ سات عربی کتابوں کو اردو میں کامیابی سے منتقل کر چکے ہیں۔ انھوں نے موجودہ ترجمہ کرتے وقت بھی کتاب کے اصل عربی متن سے وفادار رہتے ہوئے اس کا بڑا رواں دواں، عام فہم، آسان اور با محارہ اردو ترجمہ کیا ہے۔ اس لیے سیرت کی یہ نئی کتاب قاری کو اپنے موضوع کی ندرت اور اسلوب و بیان کی شفافیت کی وجہ سے متاثر کرتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مصنف نے تصنیف کا اور مترجم نے ترجمہ کا حق ادا کیا ہے اور مصنف نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جو پر خلوص اور دردمندانہ استدعا کی ہے، ہم بھی اس میں برابر کے شریک ہو کر یہ کہتے ہیں کہ وہ اس کے لکھنے والے، پڑھنے والے، اور سننے والے کو نفع دے۔ بلا شبہ و ہی قادر مطلق اور وہی کارساز ہے۔
عربی زبان کے ممتاز مترجم جناب رائے خدا بخش کلیار دامت برکاتہ اس دور قحط الرجال میں اپنی مثال آپ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس نحیف و نزار انسان کو لغت القرآن (عربی) اور پاکستان کی قومی زبان اردو میں کمال کا رسوخ عطا فرمایا ہے۔ آپ نے عربی زبان میں لکھی گئی وقیع کتابوں کا شستہ، شگفتہ، رواں اور آسان ترجمہ اس عمدگی سے کیا ہے کہ قاری کو ایک لمحہ کے لیے بھی ترجمے کا احساس نہیں ہوتا۔ اللہ ان کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ مےں قبول و منظور فرمائے۔