”برکاتِ خواجہ غریب نواز ؒسے خانہ¿ کعبہ تک !“ (2) 


”خواجہ جی ؒبنے مورے میت رے!“
معزز قارئین !۔ مَیں نے خواجہ غریب نوازؒ کی شان میں اُردو اور پنجابی میں کئی مناقبت لکھیں لیکن، پھر مَیں نے پڑھا کہ ” کئی ہندو شاعروں نے بھگوان رام اور بھگوان کشن کو اپنا محبوب بناتے ہُوئے بھجن لکھے ہیں اور حضرت محبوب الٰہی ، حضرت نظام اُلدّین اولیائؒ کے مُرید شاعر حضرت امیر خسروؒ اور دوسرے مسلمان شاعروں نے بھی حضور پُر نُور صلی اللہ علی و آلہ وَسلم ،مولا علی مرتضیٰؓ ، آئمہ اطہارؓ اور اولیائے کرام ؒ کو اپنا محبوب بناکر ایسے ہی مخاطب کِیا ہے ۔مَیں نے بھی .... 
”خواجہ جی ؒبنے ، مورے مِیت رے!“
....O....
کے عنوان سے منقبت لکھی ،ملاحظہ فرمائیں ....
”اَن مُولت سگرے ،بِھیت رے
گیا کارا ،کارا ، اتِیت رے
مَیں تو گاﺅں پریم کے گِیت رے
خواجہ جی ؒبنے ، مورے مِیت رے
خواجہ نے مو پر، نجر کرلی
مَیں پَل میں ہوگئی بھاگ بھری
میرے گیت بنے ،سنگیت رے
خواجہ جی ؒبنے ، مورے مِیت رے
خواجہ نے بٹھایا ،چرنوں میں
مَیں تو بِھیگو ں ،پریم کے جَھرنوں میں
یونہی جائے ، جِیون بِیت رے
خواجہ جی ؒبنے ، مورے مِیت رے
گھر بار نہ تھا ، بن باسی تھی
مَیں جنم جنم کی پیاسی تھی
پڑ گئی پردے میں شیت رے 
خواجہ جی ؒبنے ، مورے مِیت رے
جگ کو اُجیارا ، دیں خواجہ
اُپدیش نیارا، دیں خواجہ
سندیش ہے ،اُن کا، پرِیت رے
خواجہ جی ؒبنے ، مورے مِیت رے
مَیں آگیا کاری خواجہ کی
کِرپا آبھاری خواجہ کی
اُن پر ہے اثر پرتِیت رے
خواجہ جیؒ بنے ، مورے مِیت رے
” جیہدا نبی مولا اوہدا علی ؓمولا!“
 18 ذوالحجہ 10 ھجری کو ” غدیر خُم“ کے مقام پر ” مدینة اُلعلم “ پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ” باب اُلعلم“ حضرت علی مرتضیٰؓ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے خطبے میں فرمایا کہ ” مَیں جس کا مولا ہُوں ، علیؓ بھی اُس کا مولا ہے “۔ آپ نے پھر فرمایا” یا اللہ ! آپ اُس شخص کو دوست رکھیں جو علیؓ کو دوست رکھے اور جو علی ؓسے عداوت رکھے، آپ بھی اُس سے عداوت رکھیں!“۔عربی زبان میں مولا کے معنی ہیں۔ ”آقا ، سردار ، رفیق“ ۔ مولا علیؓ کے پیروکار ” مولائی“ کہلانے والے ، علاّمہ اقبالؒ نے فرمایا کہ ....
بغضِ اصحابِ ثلاثہ ، نہیں اقبالؒ کو!
دِق مگر اِک خارجی سے ،آ کے مولائی ہُوا!
معزز قارئین !۔ مَیں نے بھی کئی سال پہلے ، حضرت علی مرتضیٰؓ کی منقبت لکھی تھی ، ملاحظہ فرمائیں ....
نبی آکھیا سی ، ”وَلیاں دا وَلیؓ مولا
جیِہدا نبی مولا ، اوہدا علی ؓ مولا
جدوں چاہوندا ، اللہ نال گَل کردا
سارے جگّ دِیاں ، مُشکلاں حلّ کردا
شہر شہر مولاؑ ، گلی گلی مولاؓ!
جیِہدا نبی مولا ، اوہدا علیؓ مولا
لوکھی آکھدے نیں ، شیر تَینوں یزداں دا
سارے نعریاں توں وڈّا ، نعرہ تیرے ناں دا
تیرے جیہا نئیں کوئی ، مہابلی مولاؓ
جیِہدا نبی مولا ، اوہدا علیؓ مولا
واہ! نہج اُلبلاغہ ، دِیاں لوآں
سارے باغاں وِچّ ، اوس دِیاں خوشبواں
پُھلّ پُھلّ مولاؑ ، کلی کلی مولاؓ
جیِہدا نبی مولا ، اوہدا علیؓ مولا
سارے وَلیِاں دے ، بُلھاں اُتّے سَجدی اے
مَن موہ لَیندی ، جدوں وَجّدی اے
تیری حِکمتاں دی ، وَنجھلی مولاؓ
جیِہدا نبی مولا ، اوہدا علیؓ مولا
پاﺅ اپنے اثر وَلّ ، وِی پھیری
دِن رات تڑفدی اے ، رُوح میری
راہ تکدی کدوں دی ، کھلّی مولاؓ
جیِہدا نبی مولا ، اوہدا علیؓ مولا
مولا علیؓ کے نام سے نسبت !“
معزز قارئین !۔ میرے پانچ بیٹوں کے نام ( ذوالفقار علی چوہان ، افتخار علی چوہان، انتصار علی چوہان، انتظار علی چوہان اور شہباز علی چوہان ) مولا علی ؓکی مناسبت سے ہیں اور پانچوں پوتوں ( شاف علی چوہان، حیدر علی چوہان، عزم علی چوہان، ذاکر علی چوہان اور احمد علی چوہان) کو بھی مولا علیؓ کی نسبت ہے ۔ میری سب سے پیاری بیٹی عاصمہ معظم ریاض چودھری کے بیٹے (میرے نواسے ) کا نام بھی علی امام ہے ۔ 
”....مدنی سرکار دِیاں گلیاں !“
معزز قارئین !۔ ستمبر 1991ءمیں مجھے صدرِ پاکستان غلام اسحاق خان کے ساتھ دورہ¿ سعودی عرب میں خانہ¿ کعبہ کے اندر جانے کی سعادت ہُوئی اور مجھے دو صحافی دوستوں کے ساتھ ، پاکستانی سفارتخانہ کی گاڑی میں مدینہ منورہ میں گاڑی سے اُتر کر ، پیدل چل کر اور زمین پر بیٹھ کر ” سارے جگ توں نِرالیاں ، ”مدنی سرکار دِیاں گلیاں “ دیکھنے کا شرف حاصل ہُوا۔ فی الحال آپ میری نعت ملاحظہ فرمائیں ....
” یوں ضَو فِشاں ہے ، ہر طرف ، کردار آپ کا
ارض و سماء، ہے حلقہ¿ اَنوار ، آپ کا
شمس و قمر میں رَوشنی ، ہے آپ کے طُفیل
خُلدِ برِیں ہے آپ کا ، سَنسار آپ کا
ہر رِند و پارسا کے لئے ، اِذنِ عام ہے
رحمت کا سائبان ہے ، دربار آپ کا
مخلُوقِ کائنات ہو یا خالقِ عظِیم
مِدحت سَرا ہے ، ہر کوئی سرکار آپ کا
حقّ کی عطا سے ، صاحبِ لَوح و قلم ہیں آپ 
قُرآنِ پاک بھی ہُوا، شَہہ کار آپ کا
مولا علیؑ و زَہراؓ، حسنؓ اور حُسینؓ سے
عرشِ برِیںسے کم نہیں ، گھر بار آپ کا
عاصی! اثر چوہان کی جُرا¿ت تو دیکھئے؟
یہ کم نظر ہے ، طالبِ دِیدار آپ کا
” ہر وقت میرے دِل میں ! “
معزز قارئین !۔ ہر وقت میرے دل میں رہتا ہے کہ ” میرے والد صاحب ،رانا فضل محمد چوہان ، میری والدہ صاحبہ بشیراں بی بی اور میری دونوں بیگمات اختر بانو اور نجمہ کوثر، خانہ کعبہ میں میرے داخلے کی سعادت تک حیات تھیں ۔کاش وہ سب اُس وقت بھی حیات ہوتے کہ ” جب20 فروری 2014ءکو ” مفسرِ نظریہ¿ پاکستان “ جنابِ مجید نظامیؒ نے مجھے ملّی ترانہ لکھنے پر ،شاعرِ نظریہ¿ پاکستان “ کا خطاب دیا ۔یکم اکتوبر 2017ءکو روزنامہ ”92 نیوز“ میں ’ ’ جے کربل وِچ مَیں وِی ہوندا!“ کے عنوان سے امام حسین ؓاور شہدائے کربلاؓ کی منقبت شائع ہُوئی تھی تو، راولپنڈی کے حقیقی درویش ”تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ “ کے سربراہ ، آغا سیّد حامد علی شاہ صاحب موسوی ؒ(اب مرحوم) نے مجھے ”حسینی راجپوت “ کا خطاب دِیا تھا ۔
(ختم شد )

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...