پاکستان کی سیاست میں الزامات کا کلچر آج بھی پوری طرح عروج پر ہے۔ ایسے اکثر الزامات بے بنیاد ہوتے ہیں اور ان کا حقیقت سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن محض سیاسی مخالفت کی بنا پر فریق مخالف کو ہدف بنایا جاتا ہے اور جب عدالت میں ایسے الزامات کو چیلنج کیا جاتا ہے تو الزامات ثابت نہ ہونے پر جس سبکی اور شرمندگی کا سامنا ہونا چاہیے اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ ایسے واقعات ہماری تاریخ میں بھرے پڑے ہیں۔ حال ہی میں سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف عمران خان نے سابق صدر آصف علی زرداری پر قتل کی سازش کا گھناﺅنا الزام لگایا جس میں ان کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری نے میرے قتل کے لیے سپاری بھیج دی ہے، لہٰذا مجھے کچھ ہو گیا تو اس کے ذمہ دار آصف زرداری ہوں گے۔ اسی قسم کا ایک الزام انھوں نے اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف ، وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ اور آئی ایس آئی کے ایک سینئر افسر کے خلاف بھی لگایا تھا۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے آصف زرداری پر لگائے گئے الزام کو مسترد کر دیا ہے ۔ اس حوالے سے وزیر اعظم نے کہا کہ سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف عمران خان کے بے بنیاد اور خطرناک الزامات غیر ذمہ دارانہ ہیں۔ ایسی بے ہودہ بیان بازی سیاسی طور پر زندہ رہنے کی کوشش ہے۔ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی اور سابق صدر کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ردعمل میں کہا کہ اگر والد، پارٹی یا مجھ پر حملہ ہوا تو اس کا حساب لیا جائے گا۔ سماجی رابطے کے ذریعے ٹوئٹر پر بلاول بھٹو نے لکھا کہ عمران خان کے بیانات نے میرے والد، میری فیملی اور میرے متعلقین کے لیے خطرات بڑھا دیے ہیں۔ قانونی چارہ جوئی کے لیے ہم نے عدالت میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ بلاشبہ جان سے مار دینے یا قتل کرنے کا الزام سنجیدہ نوعیت کا ہے جس کی تحقیقات کی جانی چاہئیں۔ الزام ثابت ہونے پر قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اور الزام ثابت نہ ہونے کی صورت میں الزام لگانے والے کے خلاف سخت تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ ملک میں بلیم گیم کی سیاست کا خاتمہ ہو سکے اور ا س کے نتیجے میں سیاست میں نفرت اور ذاتی دشمنی کا جو خطرناک رحجان پیدا ہو چکا ہے اس کا بھی خاتمہ ہو سکے۔الزامات کی سیاست نے پہلے ہی ملک کو بہت نقصان پہنچایاہے۔
بلیم گیم کی سیاست ختم کی جائے
Jan 30, 2023