جامعہ پنجاب میں ایک عمدہ نشست 


فیض عالم……قاضی عبدالرئوف معینی
چند روز قبل ملک عزیز کی سب سے بڑے تعلیمی ادارہ جامعہ پنجاب لاہور میں شعبہ پنجابی زبان و ادب کے زیر اہتمام منعقدہ ایک ادبی سیمینار میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی۔یہ سیمینار معروف دانشور، ممتاز پنجابی شاعر عارف کھڑی شریف حضرت میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ کی یاد میں منعقد ہوا۔ تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔صدر شعبہ پروفیسر ڈاکٹر نبیلہ رحمان صاحبہ نے سیمینار کے اغراض و مقاصد بیان کیے ، مہمانان گرامی کا تعارف کروایا اور میاں صاحب کی ادبی اور علمی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ صاحبزادی خانوادہ میاں محمد بخش  محترمہ تنویر افضل صاحبہ نے  اپنی گفتگو میں میاں صاحب کے حالات زندگی بڑی تفصیل سے بیان کیے اور آپ کے شہرہ آفاق کلام کے اہم نکات بیان فرمائے۔محترمہ تنویر افضل صاحبہ کی کاوشوں سے میاں صاحب کی پنجابی زبان کی ایک نہایت اہم اور مقبول مثنوی ’’سیف الملوک‘‘  ایک معیاری کتاب کی صورت میں طباعت کے مراحل میں ہے ۔امید ہے بہت جلد یہ قارئین کے ہاتھ میں ہوگی۔محقق اور لکھاری جناب پروفیسر سعید احمد صاحب اس پروگرام میں شرکت کے لیے شدید سردی اور دھند کے باوجود اسلام آباد سے تشریف لائے ۔پرجوش اور پر مغز خطاب میں میاں صاحب کے حوالے سے حاضرین سیمینار کی معلومات میں اضافہ فرمایا۔پروفیسر صاحب کوبہت سے  صوفی شعرا کے منتخب کلام کو انگریزی میں ترجمہ کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ بلا شبہ پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے لیے یہ ایک عمدہ کاوش ہے ۔گزرے وقت کے ساتھ ساتھ بہت سا ایسا کلام بھی میاں محمد بخش صاحب کے ساتھ منسوب کر دیا گیاجو آپ کا کلام نہیں۔پروفیسر سعید احمد کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ آپ نے تحقیق کے بعدایسے اشعار کی ایک طویل فہرست مرتب کی جو میاں صاحب کے ساتھ غلط منسوب کیے گئے۔ مہمان خصوصی جسٹس (ر) نذیر احمد غازی نے میاں صاحب کے کلام کے روحانی اور تربیتی پہلو بیان کیے۔ پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی پرنسپل و ڈین والدہ ماجدہ کی بیماری کی وجہ سے شرکت نہ فرما سکے ورنہ آپ کی تحقیقی و علمی گفتگو سے محفل کی رونق دو بالا کر دیتی۔ڈاکٹر سعادت علی ثاقب اور تیمور ڈھڈی نے  میاں صاحب کا کلام ترنم سے پڑھا  اور سریلی آوازسے سماں باندھ دیا۔نقابت کے فرائض ڈاکٹر کرامت مغل صاحب نے ادا کیے ۔ ڈاکٹر محمد اعجاز صاحب نے انتظامی معاملات احسن طریقے سے سر انجام دیے اور پروگرام کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔موضوع کے ساتھ طلبا اور طالبات کی دلچسپی کا تذکر ہ نہ کرنا زیادتی ہوگی۔تمام طلبا اور طالبات نے بڑی توجہ اور دلچسپی سے خطابات سنے۔اس عظیم الشان سیمینار کے انعقاد پر انتظامیہ مبارک باد کی مستحق ہے۔ صدر شعبہ پروفیسر ڈاکٹر نبیلہ رحمان صاحبہ نے پنجاب کی روایتی مہمان نوازی کا بھرپور مظاہرہ کیا اور پروگرام کے اختتام پر بہترین ــــ ــ’’ لنگر ‘‘ کا اہتمام کیا۔
میاں محمد بخش کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ایک عارف اور ولی اللہ ہونے کے علاوہ آپ پنجابی زبان کے عظیم شاعر تھے۔آپ کا شعرہ آفاق کلام  مثنوی ’’ سفر العشق‘‘ جو  ’’سیف الملوک کے نام سے مشہور ہے میں محفوظ ہو گیا۔بظاہر یہ ایک داستان ہے لیکن یہ صرف عشقیہ داستان ہی نہیںبلکہ گنجینہ معرفت اور مخزن اخلاق بھی ہے۔ اس کا ایک ایک شعر حکمت و دانش کا خزانہ ہے۔ میاں صاحب کے کلام کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے یہ ہر محفل اور مجلس میں پڑھا جاتا ہے۔ بڑے بڑے مقررین اور واعظین خطابات میں تاثیر پیدا کرنے کے لیے ان اشعار کا سہارا لیتے ہیں۔میاں صاحب کا کلام اتنا پر تاثیر ہے کہ ہر طبقہ فکر سے تعلق رکنے والے افراد  ذوق اور شوق سے سنتے ہیں ۔ آپ کا کلام سماعتوں سے ٹکرا کر روح میں اترتا محسوس ہوتا ہے۔اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے خود ہی  فرماتے ہیں
درد منداں دے سخن محمد  دین گواہی حالوں
جس پلے پھل بدھے ہوون باس آوے رومالوں
درد مندوںکی گفتگو اس حقیقت کو بیان کر رہی ہوتی ہے کہ جس کپڑے میں پھول بندھے ہوں اس میں سے خوشبو ضرور آتی ہے۔پھر فرمایا
جو شاعر بے پیڑا ہووے سخن اودے وی رکھے
بن پیڑاں تاثیراں ناہیں، اگ بن دھواں نہ دھکھے
جوشاعر بے درد ہو اس کے شعر بھی پھیکے ہوتے ہیں۔بے درد شاعر کا شعر بھی ایسے ہوتا ہے جیسے آگ بن دھواں
جس وچ گجھی رمز نہ ہووے درد منداں دے حالوں
بہتر چپ  محمد  بخشا  سخن   اجہیے  نالوں
دور حاضر میں تعلیم پر تو بڑا زور دیا جاتا ہے لیکن تربیت کا فقدان ہے۔ سیانے کہتے ہیں ہیں کہ تعلیم سے بھی ضروری  تربیت ہے ۔اب تربیت کیسے ممکن ہوجب ہم نے تربیتی مواد کو نصاب سے نکال باہر کر دیا۔سکولوں اور کالجوں میں شعبہ پنجابی کو ختم کیا جا رہا ہے۔احساس کمتری کا شکار نا م نہاد دانشور مادری زبان سے نفرت کر رہے ہیں۔ پنجابی زبان بولنے والوں سے نفرت کی جاتی ہے۔نہ کوئی پنجابی ٹی وی چینل نہ کسی چینل پر پنجابی زبان میں کوئی پروگرام۔علم و حکمت،دانش کے وہ خزانے جو پنجابی زبان و ادب میں پوشیدہ ہیں ان تک رسائی کیسے ممکن ہو۔کردار سازی اور شخصیت سازی کے لیے رومی پنجاب حضرت میاں محمد بخش صاحب کے کلام کو عام کرنا ضروری ہے تاکہ عوام کی تربیت ممکن ہو۔ 
 

قاضی عبدالرئوف معینی 

ای پیپر دی نیشن