الحاج شیخ عبد الخلیل مرحوم۔۔۔۔۔۔۔۔ ایدھی آف لالہ موسی'

 علی رضا 
 معاشی آسودگی اور معاملات زندگی میں خوشحالی کی فضاؤں میں سانس لینے والے لوگ اگر اپنے سے کمزور اور نامساعد حالات کی الجھنوں میں گھرے،مالی اور سماجی طور پر ناآسودہ ، چہروں پر حالات کے تھپیڑوں کے نشان سجائے اور مایوسی کی جھریوں کے نقش لیے ، ضرورتوں اور ذمہ داریوں کے تفکرات کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے انسانوں کی طرف نظر دوڑائیں تو انہیں اندازہ ہو کہ زندگی کی حقیقت کیا ہے اس کے اندر چھپی ہوئی تلخیاں اور کرب کے مختلف رنگ دنیا کی کتنی وسعتوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ہر شخص اللہ پاک کی طرف سے کسی نہ کسی آزمائش اور امتحان کے دہانے پر کھڑا ہے ہمیں یہ بات سوچنے کی ضرورت ہے کیا مخلوق خدا ہمارے شر سے محفوظ ہے یا مال و دولت کی طاقت اور گھمنڈ کے سبب کوئی کمزور اور ضرورتوں کے پہاڑ کو اپنے نحیف جسم پر اٹھانے والا ہماری وجہ سے کسی اذیت کا شکار تو نہیں۔
 مولانا الطاف حسین حالی نے کہاتھا
 یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
 کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
 جن لوگوں کو اللہ پاک نے انسانوں میں آسانیاں بانٹنے کا شرف بخشا ہے وہ اپنے مقدر پر فخر کریں کیونکہ یہ وہ احسن عمل ہے جس کا اللہ رب العزت کی بارگاہ میں بے بہا اجر ہے وہ لوگ بہت مقدر والے ہیں جن کے اختیارات اور مال و دولت ضرورت مندوں اور ناداروں کی بہتری کے لیے خیرات ہوں انسانیت کی فلاح اور خدمت خلق کے جذبے سے سر شار شیخ عبد الخلیل مرحوم و مغفور کا شمار بھی ایسی ہی شخصیات میں ہوتا تھا جن کی فلاحی سماجی اور لالہ موسی' کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے کی گئی بے لوث خدمات کو کبھی نہیں بھلایا جا سکتا ایدھی آف لالہ موسی' کی شناخت پانے والے شیخ عبد الخلیل مرحوم عمر بھر انسانوں کے لئے جئے زندگی کی مشکل گھڑیوں میں ان کا حوصلہ بنے اور ان کے ساتھ کھڑے ہوئے۔
 چند برس قبل میں پی ٹی وی (نیوز ) لاہور کے ایک پروگرام کی ریکارڈنگ کے لئے لالہ موسی' گیا تو ان کے صاحبزادے شیخ خالد محمود کی وساطت سے ان کے در دولت پر بھی حاضری کا شرف حاصل ہوا جہاں مجھے اس درویش صفت شخصیت سے ملاقات کا اعزاز حاصل ہوا اس موقع پر میں نے ان کا انٹرویو بھی ریکارڈ کیا مجھے اس انسان دوست اور خدمت خلق کے جذبے سے سرشار شخصیت نے بے حد متاثر کیا۔مخلوق خدا کے لئے ان کی بے لوث خدمات ان کا قابل قدر اور ناقابل فراموش حوالہ ہیں۔وہ جب تک زندہ رہے ضرورت مند اور نادار لوگوں کے دل کی دھڑکن بنے رہے وہ ان کی اس انداز اور خاموشی سے مدد کرتے کہ کسی کو خبر تک نہ ہوتی اور ضرورت مند کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہوتی۔ غریب اور یتیم بچے بچیوں کے خاموشی سے تعلیمی اور دیگر اخراجات کی ذمہ داریاں بھی نبھاتے رہے یہ سب کچھ انہوں نے کسی دکھاوے کے لئے نہیں کیا نہ ہی اس حوالے سے ان کے پیش نظر کوئی دنیاوی مقاصد تھے ان کی یہ کاوشیں ایک جذبے کے زیراثر عمل کی صورت میں ظہور پذیر ہوتی رہیں اور وہ جذبہ تھا خوشنودی خدا اور خلق خدا کی دعاوں کے حصول کی خواہش کا جذبہ۔ان کے صاحبزادگان شیخ ساجد محمود، شیخ ناصر محمود، شیخ طارق محمود ،شیخ خالد محمود اور شیخ آصف محمود بھی اپنے والد مرحوم کے نظریۂ حیات اور سوچ کی روشنی کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں دعا ہے کہ پروردگار عالم انھیں حسن عمل کی برکتوں سے مالامال رکھے اور وہ اپنے والد بزرگوار کے نقش قدم پر گامزن رہیں۔شیخ عبد الخلیل مرحوم ایک کامیاب دنیوی زندگی گزار کر 28 جنوری 2019ء کو اپنے خالق حقیقی کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے جہاں یقینناً وہ حصار رحمت و عافیت میں ہوں گے۔ وہ شیخاں والا قبرستان حاجی پورہ لالہ موسی' میں ابدی نیند سو رہے ہیں اللہ تعالی' انھیں روح کی آسودگی عطا فرمائے۔
   موت اس کی ھے کرے جس کا زمانہ افسوس
   یوں تو آئے ہیں سبھی دنیا میں مرنے کے لئے

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...