مو لا نا ظفر علی خاں ؒ اور اُن کی نعتیہ شاعری 


مولا نا ظفر علی ایک سچے اور کھرے مسلمان ، حکومت برطانیہ کے کٹر با غی، ایک سخت مزاج سیا سی لیڈر شعلہ بیان خطیب ، انقلاب پسند ادیب، آزاد خیال و سخت گیر صحافی اور ایک ہمہ گیر شاعر تھے۔ تقریر ہو یا تحریر نثر ہو یا نظم ان کے ہاں مذہبی جوش و خروش کی فراوانی ملتی تھی،تحریک آزادی کے صف اول کے رہنما ﺅں میں شمار ہو تے تھے ۔ مذہبی موضوعات میں خاص طور پر نعتیہ شاعری میںان کے جو ہر جس خلوص ، شدت اور محبت سے کھلے ہیں وہ انہیں دوسرے شعراءسے الگ کر تے ہیں۔ مولا نا ظفر علی خان کی نعت میں حالی و اقبال کی ملی و قومی لہر ایک منفرد شان کے ساتھ جلوہ گر ہوئی ہے۔ ان کی نعتیہ شاعری کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کی نعتیہ شاعری کا مرکزی نقطہ جذبہ عشق رسول ﷺ ہے مگر جو خصوصیت ان کی نعتیہ شاعر ی کو معاصر نعت نگاروں سے منفر ٹھہر اتی ہے وہ ان کا قومی و سیا سی شعور ہے، مولا نا کے نعتیہ کلام میں ہند ی مسلمانوں کی کسمپر ی، عالم اسلام کی زبوں حالی ، طر ابلس پر اٹلی کا حملہ ، تحریک خلا فت، تحریک عدم تعاون، تحریک ہجر ت ، شد ھی اور سنگھٹن تحریکوں کے سلسلے میں رنما ہو نے والے مسلم کش فسادات اور متعد د ایسی معاصر سیا سی قومی تحریکوں کے اثرات ملتے ہیں جن سے اس وقت کے مسلمان بالعموم اور ہندی مسلمان بالخصوص کسی نہ کسی طور پر منسلک رہے ہیں۔مولا نا ظفر علی خان کی نعتیہ شاعری کی ایک خصوصیت تعلیمات نبوی ﷺ کا بیان ہے۔ انہوں نے میلاد نا مو ں کی فضا ءکے برعکس نعت کو اصلاح اور تبلیغ کا ذریعہ بنایا۔ ان کی نعت گوئی عشق رسول ﷺ کا اظہار تو ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ حضور ﷺ کی تعلیمات اور ارشا دات کی بھی آئینہ دار ہے۔ انہوں نے پژ مر دہ اور مغلوب مسلمانوں کے اندر ایمان کی حرارت اور سعی و عمل کا صور پھونکنے کے لئے اپنی نعت گوئی سے ایک تحریک کا کام لیا۔لیکن انہوں نے مرو جہ نعتیہ اسلو ب سے دامن بچا تے ہوئے اپنا الگ انداز اپنا یا ہے ، ان کے ہاں جذبے کی شدت اور عصری شعور ایک خاص امتزاج کے ساتھ نمایاں ہو تے ہیں، کہیں کہیں تغز ل کے محاسن بھی سامنے آتے ہیں اور بعض اشعار خالصتاً غزلیہ انداز سا دگی اور برجستگی لئے ہوئے ہیں مثلا : 
دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہی تو ہو 
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہی تو ہو
جلتے ہیں جرائیلؑ کے پر جس مقام پر 
اس کی حقیقتوں کے شناسا تمہی تو ہو
پھوٹا جو سینئہ شب تار الست سے
اس نور اولیں کا اجالا تمہی تو ہو 
مولا نا ظفر علی خان کی نعتیہ شاعری میں وار فتگی اور کیف و اثر آفرینی کا وصف بھی نمایا ں ہے، اگر چہ ان کے کلام سے ان کی عملیت بھی اجاگر ہو تی ہے مگر بعض نعتیں شدت خلوص میں ڈوبی نظر آتی ہیں۔ 
و ہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں
 اک روز جھلکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں ۔
مولا نا ظفرعلی خان اپنی نعت گوئی پر نازاں بھی تھے اور وہ نعت کہتے ہوئے فرحت و مسرت محسو س کر تے تھے۔ انہیں احساس تھا کہ حضو رﷺ سے محبت و عقیدت ہی ان کے قلم کی عظمت کا باعث ہے۔ 
جب نبی ﷺ کی نعت میں مصروف ہو تا ہے قلم کیسے کیسے خوش نما مو تی پر وتا ہے قلم، مولا نا ظفر علی خان کا نعتیہ کلام شہر ت و مقبولیت کی حد یں چھورہا ہے تو یہ بھی ان کی محبت اور عقیدت کا انعام ہے۔ جوا نہیں نبی کریم ﷺ سے تھی۔ مولانا ظفر علی خان کی نعتیہ شاعری میں جذبہ و مستی اور کیف آفرینی نمایاں محسوس کی جا سکتی ہے۔ مولا نا صلاح الدین احمد تحریر کر تے ہیں۔ ”ظفر علی خان نعت کے مجد د ہیں اور انہوں نے اپنی تخلیقات میں جذبا ت عقیدت کے ساتھ ساتھ آگاہی حقیقت کو قا ئم رکھا ہے“۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ اور ان کے اسلا ف کے واقعات و کا ر نا مے مولا نا ظفر علی خان کی نعتوں میں جا بجا دکھا ئی دیتے ہیں اور اس کا مقصد محض اسلامی اقدار کو اجاگر اور اصلاح معا شرہ کر نا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کیجئے : 
قدموں پہ ڈھیر اشرفیوں کا لگا ہوا
اور تین دن سے پیٹ پہ پتھر بندھا ہوا 
کسریٰ کا تاج روندنے کو پاﺅں کے تلے
اور بوریا کھجور کا گھر میں بچھا ہوا 
مولانا ظفر علی کی نعت میں ایک سچے مسلمان کی زند گی اس کے جذبا ت و احسا سات کے علا وہ اسوئہ حسنہ کی جھلکیاں نمایاں ہیں۔ ان کی نعت گوئی کے حوالے سے ڈاکٹر ریاض مجید رقم طراز ہیں”بحیثیت مجموعی مولا نا ظفر علی خان نے حالی واقبال کی ملی و قومی روایت کو نعت میں آگے بڑھایا ۔ ان کی نعتیہ شاعری معا صر مذہبی اور سیاسی واقعات اور تحریکوں کا عکس لئے ہوئے ہے۔ امت مسلمہ خصوصاً ہندو ستانی مسلمانوں کے لئے در بار رسالت مآب ﷺ میں ان کے استغا ثے، وسیع اور موثر ہیں۔ تغزل کی بجائے انہوں نے اپنی نعت کے لئے عملی پیرا یہ اظہار اختیار کیا۔ جس میں صنف نعت کی حدود شرعیہ کا پورا پورا خیال رکھا۔ انہوں نے قرآن و حدیث کے حوالوں سے اپنی نعت کی تزئین کی۔ مولا نا ظفر علی خان کی نعتیہ شاعری میں سادگی سلا ست اور روانی بھی ہے اور بعض جگہوں پر انہوں نے سنگلا خ زمینوں میں پھول بھی کھلائے ہیں۔ گویا ان کی نعتیہ شاعری ان کی قادر الگلا می کا عمدہ نمو نہ قرار دی جاسکتی ہے۔ ان کے اشعار قلب و اذما ن کو منو ر کر نے کی استعداد رکھتے ہیں اور ہر دور کا قاری ان سے قوت و تا زگی اور ایمانی حرارت حاصل کر تا رہے گا۔ 

ای پیپر دی نیشن