آج میرے قلم سے لکھی ہوئی تحریر اس عظیم شخصیت کے لئے ہے جو لوح قلم کا محافظ، پاکستان میں نظام مصطفےٰ ﷺ کے عملی نفاذ کا علمبردار،ممتازپارلیمنٹرین،بے باک صحافی، محب وطن، عوام کے دلوں کی دھڑکن، غریبوں کا ہمدرد،حق گوئی اور بے باکی کا پیکر، ایک دردمندمسلمان، سچاعاشق رسول جسے قوم شہید وطن ظہورالحسن بھوپالی کے نام سے جانتی ہے اوران کی خدمات سے واقف احباب انہیں بھرپورخراج تحسین پیش کرتے ہیں۔آج سے 40سال قبل 13ستمبر1982ءکراچی بلکہ ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھاجب دشمنوں نے عظیم رہنماومحب وطن پاکستانی ،بانیءاستحکام پاکستان کونسل ظہورالحسن بھوپالیؒ پر اسٹین گنوں کی اندھادھند فائرنگ کرکے گولیوں کی بوچھاڑ کردی اور راہ حق کا ایک چراغ گل کردیا۔گولیوں کی بوچھاڑ سے شہید ظہورالحسن بھوپالیؒ کا جسم چھلنی ہوگیالیکن اس مردحق کی زباں پر کلمہءطیبہ کا ورد جاری تھا اور اللہ پاکستان کو سلامت رکھے جیسے الفاظ تھے جو ان کی حب الوطنی اور عشق رسول ﷺ کی گواہی دے رہے تھے۔شہید ظہورالحسن بھوپالیؒ نے اس وقت داغ مفارقت دیا جب ان کی اشد ضرورت تھی، انہوں نے دکھی انسانیت کی خدمت کو اپناشعار بنالیاتھا، ان کا دروازہ ہمیشہ ضرورت مندوں اور مستحق افراد کے لئے کھلارہتا،وہ بلا تفریق رنگ ونسل ہر شخص کی خدمت کے لئے تےاررہتے،انہوں نے استحکام پاکستان کی بنیادڈالی اور نظام مصطفےٰ ﷺ کے نفاذ میں عملی جدوجہد جاری رکھی،ان کی خدمات کو عوام بھول نہیں سکتے،شہید وطن ظہورالحسن نے آخری سانس تک ملک وقوم کی خدمت کا فریضہ انجام دیا۔
شہید وطن حضرت ظہورالحسن بھوپالیؒ اپنے دادامولوی نورالحسن چشتی اور والد گرامی مولاناوہاج الدین چشتی کے ہمراہ 22مئی 1950ءکو پانی کے جہاز کے ذریعے پاکستان تشریف لائے اس وقت ان کی عمر صرف چارسال تھی،شہید کے دادااور والد نے جٹ لائن (لائنزایریا) کراچی میں ایک سرکاری خیمے کو اپنی رہائش گاہ بنایا۔
بھوپالی شہید کی تعلیم کاآغاز 1950کے آخر میں ہوا،انہوں نے فاﺅلرلائن اور جٹ ؛لائن کے اسکولوں سے تعلیم حاصل کی اور اسلامیہ سائنس کالج کراچی سے 1965ءمیں بی ایس سی کرکے کراچی یونیورسٹی میں شعبہءجرنلزم لے لیا،1967ءمیں جرنلزم کی ماسٹرڈگری اور 1969میں قانون کی ڈگری حاصل کی ،اسکول کے زمانے سے ہی ان کا نام مباحثوں میں کامیابیوں کی وجہ سے شہرت پانے لگاتھا، کالج کی تعلیم کے دوران توبھوپالیؒ شہید پورے ملک میں اپنی خطابت سے شہرت حاصل کرچکے تھے،ٹرافیوں اور دیگر انعامات سے اپناگھر بھرلیا،تعلیم کے دوران ہی اخبارات میں کالم نویسی نے بھی بڑی عزت وشہرت سے نوازا، پاکستان کے سب سے بڑے اخبار جنگ میں 1966ءمیں بغیر کسی درخواست کے سب ایڈیٹرلگ گئے،اسی طرح بغیر کسی خواہش کے جمعیت علمائے پاکستان کی جانب سے 1970ءکے عام انتخابات میں سندھ اسمبلی کا ٹکٹ مل گیااور عوام نے انہیں بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا۔
ظہورالحسن بھوپالیؒ پورے میں ایک بہترین پارلیمنٹرین ،حق گوئی اور بے باکی ،قواعد وضوابط پر بھرپورعبوررکھنے والے مشہور ہوگئے،سندھ اسمبلی کا ایوان شہید کی اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کو منظرعام پر لانے میں بڑامفید ثابت ہوا۔
1977ءکے مارشل لاءکے دوران تمام سیاسی جماعتیں جب عضومعطل ہوگئیں اور ان کے قائدین وکارکنان منجمد ہوکر رہ گئے تو جیسے بہتے دریاکو روکناممکن نہیں البتہ اس کا رخ بدلاجاسکتاہے،ٹھیک اسی طرح ظہورالحسن بھوپالیؒنے مارشل لاءکے دورمیں اپنی صلاحیتوں کو منجمد نہ ہونے دیابلکہ اپنارخ تبدیل کرلیا،مخلوق خداکے دکھ درد کو سمیٹنے اور اپنے پیارے ملک پاکستان کے استحکام اور اس میں نظام مصطفےٰﷺ کے نفاذ کی رفتارکو تیز کرنے کے لئے استحکام پاکستان کونسل کا ایک نیاپلیٹ فارم منظم کیااور پہلے سے زیادہ فعال ہوگئے۔
وہ عصبیت ولسانیت اور فرقہ واریت کے اٹھتے ہوئے طوفان کو بھانپ کر محب وطن قوتوں کو یکجاکرنے کے مشن پر گامزن ہوگئے، جس میں انہیں بڑی حدتک کامیابی حاصل ہوئی مگر ملک دشمن قوتوں نے اس آوازکو خاموش کرکے ہی دم لیا۔
چالیس سال کے حالات وواقعات سے آج کی نوجوان نسل ناواقف ہے، اس لئے بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والوں کی چالوں میں ااکر اپنی صلاحیتوں اور قوتوں کو ضائع کرنے پر تلی ہے۔اللہ خیر کرے
ظہورالحسن بھوپالیؒ کی شہادت پر تمام مذہبی،سیاسی ،سماجی ،سرکاری اور کاروباری قیادت کی آنکھوں میں آنسوتھے اور یہ محب وطن قوتیں برملااس بات کا اظہارکررہی تھیں کہ اب کراچی کے امن وسکون ،راحت، تعلیم ،روزگاراور بنیادی حقوق کے حصول باالخصوص پاکستان کے استحکام ،ترقی ،خوشحالی اور بھائی چارے کی فضاءکو دھچکالگے گا۔اس وقت کے تما بڑے اخبارات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ آج کے حالات پیداہونے میں سب سے بڑی آہنی دیوار شہید وطن ظہورالحسن بھوپالیؒ تھے۔
اللہ تعالیٰ شہید کے درجات بلند فرمائے اور بھوپالیؒ شہید کی دم نکلتے وقت کی خواہش پاکستان کی حفاظت کو پورافرمائے۔بھوپالیؒ شہید کی خدمات پر اخبارات کے صفحات تو کیادرجنوں کتابیں بھی لکھ دی جائیں تو کم ہیں ،آخر میں صرف ایک بات آج کی نسل کو منتقل کئے دیتاہوں کہ بھوپالیؒ شہید انتہائی غریب انسان تھا،مگر وہ جتناغریب تھااس سے کہیں زیادہ سخی اور انتہائی دردمندتھا،کسی کو کانٹاچبھے تو وہ تڑپ جاتاتھا،آندھی طوفان بارش اور سیلاب میں اس کا مسکن لائنزایریاکی گلیاں ہی ہوتی تھیںوہ کبھی چین سے گھر میںنہیں بیٹھتاتھا۔
نوجوانوں سوچو! اور اپنے اردگرد جائزہ لو کہ کیاکوئی ایساقائد لیڈریارہنماتمہیں نظرآتاہے؟