سعادت حسن منٹو دنیائے اردو ادب میں اب تک اپنی نوعیت کے واحد و تنہا افسانہ نگار ہیں بلکہ ان سے قبل اور ان کے بعد آج تک کسی میں وہ جرات اظہار پیدا نہیں ہوسکی جو منٹو میں تھی ۔وہ زندگی کا بے باک ترجمان تھا وہ ایسا قلمکار تھا جس نے سب سے پہلے روایتی راہ سے ہٹ کر اپنا راستہ خود بنایا ، اس نے معاشرے میں ہر طرح کی منافقت کو اجاگر کیا۔اس کا قلم سفاکیت کی حد تک بے باک تھا منٹو نے نہ صرف زندگی کی بھرپور عکاسی کی ہے بلکہ اس نے زندگی کے حسن و قبیح کے متعلق ایک واضح نقطہ نظر اپنے افسانوں میں پیش کیا ۔منٹو کے افسانے دراصل معاشرے میں پھیلی ناانصافی اور بربریت کے خلاف بانگ درا کی حیثیت رکھتے ہیں ۔اس عظیم قلمکار پر مقدمے چلے ،اسے مصائب و مسائل کے گرداب میں ڈالا گیا مگر وہ بھی دھن کا پکا تھا ، لگن سچی تھی اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی محرومی اور ان کے ساتھ روا رکھی جانے والی زیادتیوں کو منظر عام پر لانے کے کا ہر صورت عزم کرچکا تھا جس پر وہ چٹان کی طرح زندگی بھر ڈٹا رہا۔”نقوش ادب“ کی مصنفہ فرزانہ سید کے مطابق ”سعادت حسن منٹو کا کسی ادبی فرقے سے تعلق نہیں تھا وہ اپنی طرز کا خود ہی ایک فرقہ تھا۔منٹو نے سچ کی کہا نیاں لکھیں ، سچ چونکہ کڑوا ہوتا ہے۔اس لیے ان کے افسانوں میں بھی تلخی ، ترشی اور کڑواہٹ موجود ہے۔“
اردو کا یہ عظیم افسانہ نگار ۱۱ مئی ۱۹۱۲ءکو سمبرالہ ضلع لدھیانہ میں پیدا ۔اس حوالے سے ممتاز نقاد و محقق ڈاکٹر سلیم اختر نے لکھا ہے کہ ”منٹو نے بہت ہنگامہ خیز زندگی بسر کی ، وہ ذہین تخلیق کاروں کے شہر امر تسر کا تھا ویسے اس کی پیدائش سمبرالہ ضع لدھیانہ میں ہوئی مگر عمر کا ابتدائی حصہ امر تسر میں بسر کیا اس لیے اس کے مزاج کی نرمی اور سختی کی وہی متضاد خصوصیات ملتی ہیں جو امر تسر والوں کا شیوہ ہیں اور جن کی بناءپر وہ بے حد مخلص دوست اور بہت خطرناک دشمن بھی ثابت ہوتے ہیں چنانچہ منٹو میں بھی یہی انتہا پسندی ہے وہ دوست بنتا تو کھل کر اور دشمنی کرتا تو واضح انداز میں ، پھر دلیر مرد تھا ، اپنی لڑائی خود لڑتا اور اس کے لیے پالتو قسم کے لوگوں کا سہارا نہ لیتا۔“
سعادت حسن منٹو کے خاندان کا تعلق کشمیری پنڈتوں کی سار سوات برہمن شاخ سے تھا ۔ان کے آباءو اجداد نے منٹو سے تین چار نسلیں قبل اسلام قبول کرلیا تھا اور بیگم صفیہ منٹو کے بقول منٹو کے آباءو اجداد اٹھارویں صدی کے آخر میں کشمیر سے ہجرت کرکے پنجاب میں آبا د وہوگئے تھے ۔منٹو کے والد مولوی غلام حسن سب جج کے عہدے پر فائز تھے جبکہ منٹو کی والدہ سردار بیگم ان کی دوسری منکوحہ تھیں ، منٹو کے بعض سوانح نگاروں کا کہنا ہے کہ منٹو پدرانہ شفقت سے ہمیشہ محروم رہا۔اس کمی کو اس کی والدہ نے پورا کیا ۔ابو سعید قریشی نے والد کی سخت گیری کو منٹو کی شخصیت کے مطالعہ میں ایک اہم نفسیاتی نکتہ کے طور پر پیش کیاہے ۔گویا منٹو کی شخصیت میں بغاوت اور آوارگی کا جو عنصر تھا وہ اسی پدرانہ بے رخی کا نتیجہ تھا لیکن منٹو کی کسی تحریر سے اس بات کا ثبوت نہیں ملتا۔ڈاکٹر علی ثناءبخاری کی تحقیق کے مطابق منٹو میٹرک میں تین مرتبہ فیل ہوئے اور آخر کار ۱۹۳۱ءمیں انہوں نے یہ امتحان درجہ سوم میں پاس کیا مگر اردو کے پرچے میں پھر بھی فیل ہوگئے ۔پہلے ہندو سبھا کالج امر تسر میں داخلہ لیا ، پھر ایم ۔اے ۔ اوکالج امر تسر میں انٹر کے طالب علم کی حیثیت سے ہی پہنچے جہاں صاحبزادہ محمود الظفر، فیض احمد فیض، ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر اور اختر حسین رائے پوری اپنے فرائض انجام دے رہے تھے یہ تمام اساتذہ قلمکار بھی تھے اور انہوں نے آگے چل کر انجمن ترقی پسند مصنفین کی بھی بنیاد ڈالی۔ منٹو کی ذہنی ہم آہنگی کے باعث کچھ عرصہ اطمینان سے منٹو نے وہاں گزارا ۔اسی دوران ۱۹۳۲ءمیں منٹو کے والد کا انتقال ہوگیا۔مگر منٹو نے کالج نہیں چھوڑا لیکن امتحانات میں پاس ہو کر بھی نہیں دیا۔البتہ اس کے اندر کا منٹو باہر آنا شروع ہوگیا اس نے اپنے قلم کا جادو جگانا شروع کردیا تھا۔دو دفعہ ایف اے میں فیل ہونے کے باعث منٹو کی طبیعت روایتی پڑھائی سے بالکل اچاٹ ہو چکی تھی البتہ ان دنوں میں وہ باری علیگ سے نیاز مندی حاصل کرچکے تھے۔۱۹۳۵ءمیں وہ انٹر کیے بغیر علی گڑھ یونیورسٹی جا پہنچے مگر چند ماہ بعد ہی یونیورسٹی سے نکال دیے گئے ۔عام تاثر یہ ہے کہ انہیں بیماری (تپ دق) کے باعث یونیورسٹی سے خارج کیا گیا لیکن بقول پروفیسر سجاد شیخ منٹو کو اس کے انقلابی اور نظام دشمن رویے کی وجہ سے نکالا گیا تھا کیو نکہ کچھ عرصہ بعد علی سردار جعفری کو بھی اسی جرم میں یونیورسٹی سے نکالا گیا ۔چنانچہ علی گڑھ چھوڑ کر واپس لاہور آگئے جہاں باری علیگ نے انہیں صحافت کی طرف لگا دیا ۔پہلے انہیں اخبار ”پارس“ میں ملازمت ملی اور بعد ازاں مساوات سے رابطہ ہوا۔ منٹو کی زندگی میں باری علیگ نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔جس کا اعتراف خود منٹو نے بھی کیا ہے کہ ”آج میں جو کچھ ہوں باری صاحب کے دم سے ہوں اگر امر تسر میں ان سے ملاقات نہ ہوتی اور متواتر تین مہینے میں نے ان کی صحبت میں نہ گزارے ہوتے تو یقینا میں کسی اور راستے پر گامزن ہوتا۔“ منٹو جو کبھی تیرتھ رام فیروز پوری کے ناول پڑھا کرتا تھا باری صاحب کی صحبت کی وجہ سے آسکر وائلڈ (Oscar Wild)اور وکٹر ہیوگو (Victor Hugo)اس کے زیر مطالعہ رہنے لگے اور اس کا وقت ”مساوات“ کے دفتر میں گزرنے لگا اور مساوات کے فلمی صفحے کے انچارج بن گئے ۔مذکورہ مصنفین کے ساتھ ساتھ منٹو نے لارڈ لٹن ، میکسم گورکی، چیخوف، پوشکن، گوگول، دوستو وسکی ، والٹیر اور موپساں کو بھی پڑھ ڈالا بلکہ ان میں سے بعض کی کتابوں کا ترجمہ بھی کرکے باری صاحب کے حوالے کردیا۔ بعد ازاں منٹو نے ”ہمایوں “ کے مدیر حامد خان کے تعاون سے روسی ادب سمبر مرتب کیا اور اس کے بعد ” روسی افسانے“ کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کرکے شائع کی۔۱۹۳۶ءمیں منٹو کا پہلا افسانوی مجموعہ ”آتش پارے“ کے نام سے شائع ہوا۔اسی سال انہوں نے ”عالمگیر“ کا روسی ادب نمبر مرتب کیا۔جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا کہ منٹو علیگڑھ سے لاہور منتقل ہوگئے تھے۔لیکن لاہور میں وہ ذیادہ عرصہ نہ رہ سکے اور بمبئی چلے گئے جہاں انہوں نے ہفت روزہ ”کاروان“ کی ادارت سنبھال لی اس کے ساتھ ہی دیگر سلسلے بھی جاری رہے جن کا تذکرہ اوپر گزر چکا ہے ۔بمبئی میں منٹو کا قیام ۳۶۔۱۹۳۵ءسے ۱۹۴۸ءتک رہا ۔اس دوران تقریبا ڈیڑھ سال تک وہ انڈین ریڈیو سے وابستگی کے باعث دہلی میں رہے ۔بمبئی چونکہ اس زمانے میں فلم سازی کا سب سے بڑا مرکز تھا چنانچہ منٹو نے وہاں مختلف فلم ساز کمپنیوں میں کہانی اور مکالمے لکھنے کا کام بھی کیا ان میں سروج ، مووی نون، امپیریل کمپنی فلمستان اور بمبئی ٹاکیز کے نام اہم ہیں۔بمبئی ہی میں منٹو کی اپریل ۱۹۳۹ءمیں صفیہ بیگم سے شادی ہوئی جن سے تین بیٹیاں نگہت، نزہت اور نصرت پیدا ہوئیں جبکہ ایک بیٹا عارف بچپن ہی میں وفات پاگیا۔۷۔۸ جنوری ۱۹۴۸ءکو منٹو پاکستان آگئے اور لاہور ہی کو اپنا مسکن بنایا ۔یہاں انہوں نے اپنے قریب ترین دوست ممتاز نقاد ، دانشور و ادیب صحافی محمد حسن عسکری کے ساتھ مل کر ” اردو ادب“ نامی پرچہ جاری کیا۔مگر صرف دو شمارے نکل سکے ۔منٹو کے چھ افسانوں دھواں، کالی شلوار، ٹھنڈا گوشت، کھول دو، اوپر نیچے، درمیان اور بُو پر کورٹ میں حکومت کی جانب سے مقدمے دائر کیے گئے احمد ندیم قاسمی کے ”نقوش “سمیت کئی دیگر پرچے ضبط اور ان کی اشاعت کو معطل کیا گیا۔منٹو نے ۱۹۴۸ءتا وفات ۱۸ جنوری ۱۹۵۵ءاپنے قلم کی مزدوری کو جاری رکھا۔
سعادت حسن منٹو جدید اردو افسانے میں ایک بڑا اور معتبر نام ہے جس نے نہ صرف یہ کہ اس صنف کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا بلکہ ایسے مقام پر لا کھڑ اکیا کہ جہاں پر اس کا مقابلہ عالمی افسانوی ادب سے بڑے فخر اور اعتما د کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔صرف بیس اکیس سال کی مدت میں دو سو سے زائد انتہائی اعلیٰ اور معیاری افسانے تخلیق کرنے کے علاوہ بے شمار مضامین ، خاکے اور ڈیڑھ سو سے زائد ڈرامے تحریر کیے۔
منٹو کے افسانوی مجموعے
۱۔آتش پارے ۔مطبوعہ جنوری ۱۹۳۶ء(اس میں آٹھ افسانے شامل تھے)۲۔منٹو کے افسانے ۔ مطبوعہ اگست ۱۹۴۰ء(چھبیس افسانوں پر مشتمل)
۳۔دھواں۔ شائع شدہ ۱۹۴۱ء(بائیس افسانوں پر مشتمل)۴۔افسانے اور ڈرامے ۔شائع شدہ ۱۹۴۲ء(مختلف ڈرامے اور افسانے شامل تھے)
۵۔لذت سنگ ۔ ۱۹۴۷ءمیں شائع ہوا (اس میں تین افسانے شامل کیے گئے)۶۔چغد ۔ جون ۱۹۴۸ءمیں شائع ہوا (یہ نو افسانوں پر مشتمل تھا)
۷۔ٹھنڈا گوشت۔ اشاعت ۱۹۵۰ء(آٹھ افسانوں پر مشتمل)۸۔خالی بوتلیں خالی ڈبے ۔ ستمبر ۱۹۵۰ءمیں شائع ہوا۔ (تیرہ افسانے شامل کیے گئے)
۹۔نمرود کی خدائی۔ اشاعت ۱۹۵۰ء(بارہ افسانوں کا مجموعہ)۱۰۔بادشاہیت کا خاتمہ۔ اشاعت ۱۹۵۱ء(گیارہ افسانوں پر مشتمل )
۱۱۔یزید ۔نومبر ۱۹۵۱ءمیں شائع ہوا۔ (نو افسانے شامل تھے)۱۲۔سڑک کے کنارے۔ یہ گیارہ افسانوں پر مشتمل تھا ۱۹۵۳ءمیں شائع ہوا۔
۱۳۔سرکنڈوں کے پیچھے ۔اشاعت ۱۹۵۴ء(۱۳ افسانوں پر مشتمل )۱۴۔ پُھندنے۔ جنوری ۱۹۵۵ءمیں شائع ہوا ۔(گیارہ افسانے ایک ڈرامہ بھی شامل تھا)
جبکہ ”گنجے فرشتے “ اور لاﺅڈ اسپیکر خاکوں کے مجموعے ہیں۔
ٹھنڈا گوشت، برقعے، کالی شلوار، تین عورتیں، بدتمیزی، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ہتک، بغیر اجازت، ملاوٹ، نیا قانون، موذیل ، سڑک کے کنارے، انقلاب پسند، آخری سلوٹ، ممی اوربابو گوپی ناتھ کا شمار منٹو کے شاہکار افسانوں میں ہوتا ہے۔
سعادت حسن منٹو کے فن و فکر کو میاں کمال الدین کے الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ”منٹو کے افسانوں میں طنز و مزاح بھی ہے اور جدت پسندی بھی ، ان کے یہاں حقیقت طرازی بھی ہے اور جذبات نگاری بھی ان کے افسانوں میں صداقت پسندی بھی ہے اور حق گوئی بھی ،ان میں فطرت نگاری بھی ہے اور واقعیت نگاری بھی ،ان میں سیاسی و سماجی حالت کی عکاسی بھی ہے اور ایجازو اختصار بھی، ان میں بغاوت بھی ہے اور انقلاب بھی ،ان میں سادگی بھی ہے اور روانی بھی ، گویا منٹو ایک عظیم فنکار تھے، ان کے افسانے ، ان کے ذہن کی وسعت فن کی ندرت اور خیالات کی گہرائی کے آئینہ دار ہیں ،ان کے انتقال سے اردو افسانے میں جو خلا پیدا ہوا اسے آج تک پر نہیں کیا جاسکا۔“ ایک اور جگہ وہ لکھتے ہیں کہ ”منٹو ایک تخلیق کار تھا اور تخلیق کار اپنے عصرکا آئینہ ہی نہیں بنتا بلکہ اسے آئینہ دکھاتا بھی ہے ۔سعادت حسن منٹو اور اس کے افسانے بلاشبہ اردو ادب میں ایسے ہی آئینے قرار دیے جاسکتے ہیں۔دراصل منٹو ایک ایسا عظیم افسانہ نگار تھاجس نے ایک زاویہ سے اپنے گردو پیش پھیلی ہوئی زندگی کے پرتعیش گھناﺅنے پن کو دیکھنے کی جرات پیدا کی، زندگی کے تضادات کو اجاگر کیا۔خود منٹو نے اپنے لیے کہا تھا کہ ”میں اپنے افسانوں میں وہ باتیں پیش کرتا ہوں جو کچھ انسان کرتے ہیں نہ کہ وہ جو انہیں کرنا چاہیے۔مجھ میں ایک اخلاقی حس بھی ہے جو ان کے اعمال کے تانے بانے میں نیکی کے دھاگے ڈھونڈ نکالتی ہے یہی میرے آرٹ کا اخلاقی پہلو ہے۔“
منٹو نے خاکہ نگاری بھی کی ہے انہوں نے اپنے افسانوں کے کرداروں کی مانند خاکوں میں بھی افراد کا تجزیہ کرتے ہوئے شخصی خوبیوں اور خامیوں کو اجاگر کیا ہے ۔اس ضمن میں ”میراں جی“ کا خاکہ نہایت عمدہ اور قابل مطالعہ ہے ۔خاکہ نگاری پر ان کی کتاب ”گنجے فرشتے“ اپنی مثال آپ ہے۔
سعادت حسن منٹو کے بارے میں نقادوں کی آرائ
گزشتہ نصف صدی میں منٹو پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے بہت سے قلمکاروں نے انہیں اپنی تحقیق کاموضوع بنایا ہے ان میں سے چند ایک کی آراءیہاں درج کی جارہی ہیں۔
ممتاز حسین ۔۔۔۔۔”منٹو بنیادی اعتبار سے ایک طنزنگار تھے انہوں نے بانیان ظلم کی قبائیں براہ راست نہیں بلکہ بالواسطہ اتاردی ہیں ، ان انسانوں کی زندگی کو پیش کرتے ہوئے جو سر سے پیر تک ننگے رہنے کے باوجود بھی انسان رہتے ہیں اور اگر منٹو اس حسن بصیرت کے باوجود دنیا کے بڑے طنز نگاروں کے درجے پر نہیں پہنچ سکے تو اس کا سبب یہ ہے کہ ان کا انتخا ب کردار بہ اعتبار انفرادیت نہیں بلکہ بہ اعتبار طبقاتیت ذیادہ متنوع نہیں تھا۔“
ڈاکٹر عبادت بریلوی۔۔۔۔” منٹو کے افسانوں کا بنیادی محور عام انسانی زندگی ہے اس کے تمام موضوعات اسی محور کے گرد گھومتے ہیں اس کے تمام خیالات کی بنیاد ، اسی انسانیت اور انسانی زندگی پر استوار ہے۔“
پروفیسر وقار عظیم ۔۔۔۔”تقسیم ہند کے بعد اردو کے کسی افسانہ نگار نے اتنے افسانے نہیں لکھے جتنے منٹو نے لیکن جس انداز سے لکھے ہیں وہ ان کے مزاج اور فن زندگی سے پوری طرح مطابقت اور ہم آہنگی رکھتا ہے۔تقسیم کے دوران ہونے والے تنازعات اور بے چینی کو منٹو نے بہت محسوس کیا ۔ان کی اکثر تحریریں اس پر شاہد ہیں۔”نیا قانون“ منٹو کے جذبات و احساسات کا سب سے بڑا مظہر ہے۔اسی طرح انہوں نے ”ایک اشک آلود اپیل ، رام ،دن اور سیارے “جیسے افسانے لکھے غرضیکہ منٹو نے افسانہ نگار کی حیثیت سے اپنے منصب کو پوری طرح پہچانا اور اپنے ترکش کے ہر تیر کی اہمیت کا صحیح اندازہ لگایا ہے۔“
پروفیسر درخشاں کاشف۔۔۔۔” منٹو کے افسانوں کا مرکزی نقطہ نظر انسان کے جذبات و احساسات ، اس کے رشتے اس کی کمزوریوں اور خامیوں کو اس کی بے راہ روی اور بدعنوانی کو، اس کی بے بسی اور مجبوری کو انہوں نے اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے یوں تو ان کے ہر افسانے میں نفسیاتی شعور کا احساس اجاگر ہوتا ہے لیکن جو افسانے جنسیت سے متعلق ہیں اس میں انسانی نفسیات کی بہت سی گرہیں کھولی ہیں۔وہ انسانی نفسیات کے ماہر تھے۔“
ڈاکٹر سلیم اختر۔۔۔۔”منٹو کے اسلوب کا بڑا چرچا رہا ہے ان کی زندگی میں بھی اور ان کے انتقال کے بعد بھی ۔منٹو کی اپنی ایک مخصوص لفظیات تھی۔اس کے کردار جس زبان میں گفتگو کرتے تھے وہ صرف منٹو ہی قلم بند کرسکتا تھا۔کم از کم الفاظ میں بڑی سے بڑی بات کو دونوں انداز میں بیان کردینا منٹو کا امتیازی وصف تھا ۔چند کاٹ دار جملوں کی مدد سے وہ اپنے کردار کے باطن میں حشر کی تصویر برپا کردیتا تھا۔منٹو کی زبان کا یہ عالم تھا کہ الفاظ تیزاب میں ڈوبے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔“
ڈاکٹر محمد حسن عسکری۔۔۔۔”بعض لوگوں کا خیال ہے کہ منٹو اردو ادب کا سب سے بڑا افسانہ نگار ہے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ منٹو چاہے موپساں وغیرہ کی صف میں نہ آسکے لیکن یورپ کے اچھے خاصے افسانہ نگاروں سے اس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔میں ان دونوں باتوں سے متفق ہوں بلکہ میں تو یہ بھی کہتا ہوں کہ اگر منٹو موپساں کے برابر نہیں پہنچ سکا تو اس میں اتنا قصور خود منٹو کا نہ تھا جتنا اس کی ادبی روایت کا تھا۔جس میں وہ پیدا ہوا۔“
ڈاکٹر اے بی اشرف۔۔۔۔”سعادت حسن منٹو اردو کی افسانوی تاریخ کا سب سے ذیادہ ہنگامہ خیز ، سب سے ذیادہ اہم اور سب سے بڑا افسانہ نگار ہے ۔وہ ہماری معاشرتی اور عمرانی صورت حال کا بے باک نقاد اور نکتہ چیں ہے۔جس کا قلم ایک ماہر اور باضمیر ڈاکٹر کے نشتر کی طرح سماج کی گلی سڑی لاش پر اس طرح چلتا ہے کہ اس پر کیے گئے مظالم اور ذیادتیوں کا کھوج ظلم ڈھانے والے طبقوں اور افراد کے گناہ اور جرائم بے نقاب ہوجاتے ہیں۔اس ادبی ڈاکٹر کی غیر جانبدارانہ رپورٹ حقائق کا ایکس رے پیش کردیتی ہے ۔اس کی باریک بین نگاہ کے سامنے کوئی عیب اور عارضہ چھپ نہیں سکتا ۔وہ ایک بے باک حقیقت نگار ہے جس کا قلم بغیر کسی رُو رعایت معاشرے کے تضادات کو پیش کرتا ہے۔“