سکرنڈ کے قریب موہن جودڑو سے بھی قدیم ورثہ دریافت 


سکرنڈ کے قریب تاریخی ورثہ "چاہئین جو دڑو" کی ساتویں بار کھدائی کے لیے فرانسیسی ماہروں کی ٹیم آرکیالوجسٹ ماہر ڈاکٹر اروڑا دیدر کی سربراہی میں سکرنڈ پہنچ گئی۔ چاہئین جو دڑو کی پہلی بار کھدائی آمریکی آرکیالوجسٹ ماہر میکی آرتھر کی جانب سے کی گئی اب جبکہ چاہئین جو دڑو کے ریسرچ سینٹر اور میوزیم کا کام مکمل ہو چکا ہے جس کا افتتاح جلد وزیر ثقافت کریں گے، اس بار ریسرچ کا کام فرانسیسی ڈاکٹر اروڑا دیدر ساتویں بار شروع کریں گی جنہوں نے 2015 میں پہلی بار کھدائی شروع کی تھی فرانسیسی ٹیم کی حفاظت کے لیے سخت سیکورٹی کے انتظامات کیے گئے ہیں جن میں کمانڈو اور اسپیشل پولیس اہلکار شامل ہیں1928 میں ہندوستان کے قدیمی آثار کے ماہر مسٹر ہارگریوس آثار قدیمہ کا ڈائریکٹر ہوا جنہوں نے بنگال کے نامور این جے مجمدار(نونی گوپال) کو سندھ کے آثار قدیمہ کی تلاش اور کھدائی کا کام سونپا مسٹر این جے مجمدار نے ہمیں 1928ءکو چاہئین جو دڑو تلاش کر کے دیا جس کے بارے میں" Explorations In "Sindh انگریزی کتاب لکھی گئی جس کو انڈس پبلیکیشن نے شایع کیا جس کا سندھی میں ترجمعہ مشہور سندھیکار عطا محمد بھنبھرو نے سندھ میں قدیم علاقوں کی کھدائی کے نام سے کیا جو آجکل سندھی ادبی بورڈ جام شورو نے 
1997 میں شایع کروایا، 1935-36 کے درمیان میں شروع ہونے والی کھدائی سے اب تک پتا چلا ہے کہ چاہئین جو دڑو ایک شہر آباد تھا جو موہن جو دڑو سے بھی پرانا تھا یہ بھی پتا چلا کہ ان کی تہذیب ھڑپائی اور آریہ قوم کی تہذیب سے ملتی جلتی تھی زیادہ بتایا جا رہا کہ یہ شہر دریائے سندھ کے سیلاب کی وجہ سے ختم ہوا ہو گا یہ شہر اب ٹکڑوں کی صورت میں نظر آ رہا ہے کیونکہ اس سے مختلف اقسام کے ٹھیکر،قیمتی پتھر،سیٹیاں,پتھر کی گاڑیاں، مختلف کھیلوں اور جوا کھیلنے کی اشیاء وغیرہ ایسی چیزیں بھی ملیں ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ منظم زندگی بھی گزارتے تھے ان کے علاوہ عورتوں کے مجسمے جو پاو¿ں تک زیور سے آراستہ تھے ملے ہیں,واش روم اور گندے پانی کو نکالنے والے مضبوط نالیاں بھی دریافت ہوئی ہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ چاہئین جو دڑو کی عورتیں انتہائی خوبصورت اور روپ سینگار کرنے کی شوقین تھیں۔

ای پیپر دی نیشن