پاکستان میں ہر سال 40 ہزار خواتین بریسٹ کینسر کے باعث موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں
خواتین اس مرض کو چھپاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کا مرض بڑھ کر ناقابل علاج ہوجاتا ہے
ملک میں ہر سال بریسٹ کینسر کے 90 ہزار سے 1 لاکھ تک کیسز رپورٹ ہوتے ہیں جن میں 45 فیصد ناقابل علاج ہوتے ہیں
دنیا کی خواتین کی کل آبادی میں 16 فی صد سے زیادہ عورتوں کو بریسٹ کینسر کا عارضہ لاحق ہے
۔۔۔۔۔۔
عنبرین فاطمہ
دنیا بھر کی طرح ’’چھاتی کا کینسر ‘‘ پاکستان میں بھی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ترقی یافتہ ہو یا پسماندہ ممالک ان میں خواتین میںچھاتی کا کینسرکا عام ہونا قابل تشویش ہے ۔ دنیا کی خواتین کی کل آبادی میں 16 فی صد سے زیادہ عورتوں کو بریسٹ کینسر کا عارضہ لاحق ہے۔بریسٹ کینسر سے پوری دنیا میں ہر سال لاکھوں خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیںجبکہ پاکستان میں ہر سال بریسٹ کینسر کے 90 ہزار سے 1 لاکھ تک کیسز رپورٹ ہوتے ہیں جن میں 45 فیصد ناقابل علاج ہوتے ہیںاور40 ہزار خواتین بریسٹ کینسر کے باعث موت کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔پہلے یہ مرض زیادہ تر پچاس سے ساٹھ سال کی عمر کے درمیان کی عورتوں میں پایا جاتا تھا، لیکن اب کم عمر خواتین بھی اس بیماری میں بہت تیزی سے مبتلا ہو رہی ہیں۔برطانیہ میں ہرنو میں سے ایک خاتون کینسر کے مرض میں مبتلا ہوتی ہے ، امریکہ اور دیگر یورپین ممالک میں بھی ہر پانچ میں سے ایک خاتون بریسٹ کینسر کا شکار ہے۔ا یشیائی ممالک میں چونکہ بریسٹ کینسر سے ہلاک ہونے والی خواتین کی تعداد سب سے زیادہ ہے ا س لیے یہاںبریسٹ کینسر سے آگاہی کی مہم کو زور شور سے چلانے کی ضرورت ہے۔صرف پینتالیس یا پچاس سال کی خواتین نہیں بلکہ کم عمر لڑکیاں بھی مکمل طور پر سالانہ سکریننگ کروانے کے لئے خود کو پابند کریں۔ خواتین اگر اپنی چھاتی میں کسی قسم کی گلٹی محسوس کریں تو فوراً کسی مستند ریڈیالوجسٹ سے رابطہ کریں تاکہ بروقت تشخیص سے بیماری اور اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے بچا جا سکے۔بریسٹ کینسر کے چار مختلف مراحل ہیں، پہلے دونوں بڑی حد تک قابلِ علاج ہیں تاہم تیسرے اور چوتھے
مرحلے پر یہ بیماری خاصی پیچیدہ شکل اختیار کر لیتی ہے۔ان سٹیجز کی تفصیلات کچھ یوں ہیں جیسے کہ پہلی سٹیج میں چھاتی میں ایک چھوٹی سی گلٹی بنتی ہے اور درد بھی محسوس ہوتا ہے۔ پہلی اسٹیج پر یہ بیماری چھاتیوں کو نقصان پہنچانا شروع کرتی ہے۔دوسری اسٹیج میں چھاتی یا بغلوں میں نمودار ہونے والی گلٹی کا سائز بڑا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور اس گلٹی کی جڑیں بھی پھیلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ گلٹی کا سائز اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ ایک اخروٹ یا لیموں کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔تیسری اسٹیج میں یہ جسم کے دوسرے حصوں کو متاثر کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس مرحلے کے دوران اس کے اثرات لمف نوڈز تک آ جاتے ہیں۔ لمف نوڈ گردن کی ہڈی اور بغل تک کے حصے کو کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ تیسرے مرحلے میں بریسٹ کینسر کے اثرات بیرونی جِلد پر ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔چوتھی اسٹیج کو سب سے زیادہ خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔ چوتھی اسٹیج کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ چھاتی کا سرطان ان چھاتی کے علاوہ جسم کے دوسرے حصوں جیسا کہ ہڈیوں، پھیپھڑوں، جگر، اور دماغ کو متاثر کرنا شروع کر چکا ہے۔ اگر اس اسٹیج میں بریسٹ کینسر کی تشخیص ہو تو مریض کی جان بچانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔یاد رکھیں کہ پاکستان میں متعدد طبی مراکز میں اس مرض کی مفت تشخیص کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ان مراکز میں بائیوپسی کی سہولت بھی موجود ہوتی ہے۔بریسٹ کینسر کی وجوہات میں چند عوامل ہیں اگر یہ ظاہر ہوں تو بالکل بھی غیر محتاط نہ ہوں کیونکہ یہ اس مرض کی وجہ ہو سکتی ہیںمثلا چھاتی سے جِلد اترنا شروع ہو جانا ،چھاتیوں کی جِلد سرخ ہو جانا ،چھاتی میں درد ہونا ،چھاتی پر یا بغلوں میں گلٹی نمودار ہو جانا ،چھاتیوں کی جِلد تبدیل ہو جانا ،چھاتیوں کے سائز یا ساخت میں تبدیلی ،چھاتیوں رطوبت بہنا، کچھ کیسز میں خون بھی بہہ سکتا ہے ،چھاتیوں میں بے چینی رہنا ،ان سب علامات کے بعد ڈاکٹر کے پاس جانے میں تاخیر نہ کریں۔ کینسر کی درج ذیل وجوہات بھی ہو سکتی ہیں مثلا خواتین میں ہارمونز کا غیر متوازن ہونا ، جسم میں ایسٹروجن ہارمون کی زیادتی، لڑکیوں کی تاخیر سے شادی یا زائد عمر میں بچے کی پیدائش ہونا، خواتین کا غیرصحت مندانہ طرزِ زندگی اور غیر متوازن خوراک لینا۔ایک اچھی بات یہ ہے کہ جو مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں، ان میں بریسٹ کینسر کا امکان 4فیصد کم ہو جاتا ہے۔10فیصد بریسٹ کینسر جینیاتی نقائص کی وجہ سے ہوتاہے، ان نقائص کی حامل خواتین میں اس مرض کے 80فیصد امکانات ہوتے ہیں ۔خواتین کو چاہیے کہ وہ سیلف بریسٹ ایگزامینیشن کریں۔ سیلف بریسٹ ایگزامینیشن کی ایک خاص ٹیکنیک ہوتی ہے جو اپنے ڈاکٹر سے سیکھیں اور اسی طریقے سے گھر میں خود اپنا معائنہ کرنا شروع کریں،اور چھاتی میں اگرکسی بھی قسم کی غیرمعمولی تبدیلی محسوس ہو تو فوراً ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔ ڈاکٹر وں کا کہنا ہے کہ اگر بریسٹ کینسر کا جلد پتہ چل جائے اور مناسب تشخیص اور علاج دستیاب ہوجائے تو اس بیماری سے جان چھٹ سکتی ہے۔اگر بریسٹ کینسر کا بہت زیادہ تاخیر سے پتہ چلے تو ایسے میںعلاج سے ٹھیک ہونے کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں ، بلکہ ایسی سٹیج بھی آجاتی ہے جس میں علاج معالجے کی آپشن بھی باقی نہیں رہتی ، یہ وہ سٹیج ہوتی ہے کہ جب مریض کو ٹھیک تو کیا نہیں جا سکتا لیکن مریض جو تکلیف برداشت کررہا ہوتا ہے اس کی شدت میں کمی لانے کے لئے تدارک کیاجاتا ہے۔
چھاتی کے کینسر کی تشخیص میں مدد کرنے والے ٹیسٹوں میں میمو گرام ، الٹراسائونڈ ، بائیوپسی قابل زکر ہیں۔ ’’میموگرام‘‘ چھاتی کی سطح کے نیچے
دیکھنے کا سب سے عام طریقہ امیجنگ ٹیسٹ ہے جسے میموگرام کہا جاتا ہے۔ 40 سال یا اس سے زیادہ عمر کی کئی خواتین چھاتی کے کینسر کی جانچ کے لیے سالانہ میموگرام کرواتی ہیں۔ اگر آپ کے ڈاکٹر کو شک ہے کہ آپ کو ٹیومر یا مشکوک جگہ ہو سکتی ہے تو وہ میموگرام کے لئے بھی کہیں گے۔ اگر آپ کے میموگرام پر کوئی غیر معمولی جگہ نظر آتی ہے تو آپ کا ڈاکٹر اضافی ٹیسٹ کی درخواست کر سکتا ہے۔’’الٹراساؤنڈ‘‘
چھاتی کا الٹراساؤنڈ آواز کی لہروں کا استعمال کرتا ہے تاکہ آپ کے چھاتی میں گہرے ٹشوز کی تصویر بن سکے۔ الٹراساؤنڈ آپ کے ڈاکٹر کو ٹھوس بڑے پیمانے پر فرق کرنے میں مدد دے سکتا ہے ، جیسے ٹیومر اور سومی سسٹ۔آپ کا ڈاکٹر ایم آر آئی یا بریسٹ بایپسی جیسے ٹیسٹ بھی تجویز کرسکتا ہے۔’’چھاتی کی بائیوپسی‘‘اگر آپ کے ڈاکٹر کو چھاتی کے کینسر کا شبہ ہے تو وہ میموگرام اور الٹراساؤنڈ دونوں کی تجویز کر سکتے ہیں۔ اگر یہ دونوں ٹیسٹ آپ کے ڈاکٹر کو نہیں بتا سکتے کہ آپ کو کینسر ہے یا نہیں، آپ کا ڈاکٹر بریسٹ بایپسی نامی ٹیسٹ کروا سکتا ہے۔اس ٹیسٹ کے دوران ، آپ کا ڈاکٹر مشکوک جگہ سے ٹشو کا نمونہ نکالے گا تاکہ اس کی جانچ کی جائے۔
ہمارے معاشرے میں مائیں اپنی بچیوں کو اس طرح کے معاملات کے بارے میں آگاہی دینے کو لیکر شرم محسوس کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی تعداد میں لڑکیاں اس وقت ایسی علامات کے بارے میں والدین کو بتاتی ہیں جب ان کی بیماری کافی حد تک بڑھ چکی ہوتی ہے۔ سوسائٹی میں اس حوالے آگاہی مہم چلائے جانے کی ضرورت ہے تاکہ خواتین اس مرض کی نہ صرف سیلف ایگزامینیشن کریں بلکہ سالانہ بنیادوں پر اس حوالے ضروری ٹیسٹ کروائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فائنل