موسمیاتی تبدیلی۔۔پاکستان انصاف چاہتا ہے

سردار شاہد احمد لغاری
 رواں برس پاکستان کے موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہونے سے ایک برس قبل اقوام متحدہ کی ماحولیاتی تبدیلی کانفرنس 2021 (سی او پی 26)سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسکو میں ہوئی تھی جہاں 200 ممالک کے نمائندے اور سربراہان نے یہ برملا اعلان کیا کہ 2030 تک مرحلہ وار اقدامات لیے جائیں گے جن کی بدولت کرہ ارض کو موسمیاتی تبدیلی کی اثرات سے بچایا جا سکے۔ اقوام متحدہ 1992 سے ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ا کوشاں ہے۔اس منصوبہ کو’’یو این فریم ورک کنونشن آن کلائمٹ چینج‘‘کا نام دیا گیا۔اس کے تحت ہر سال رکن ممالک کا اجلاس ہوتا ہے۔ جس میں سفارشات اور عمل درآمد رپورٹ پر غور کیا جاتا ہے ۔اس سلسلے کا پہلا اجلاس برلن میں 1995 میں ہوا تھا ۔’’کوپ ‘‘کا اہم ترین ہدف عالمی تپش میں اضافے کو روکنے کے لیے فضا میں کاربن کی مقدار کو کم رکھنا ہے، جس کے لیے متعدد اقدمات تجویز کیے جاتے ہیں۔ فی الحال دنیا کو اس ہدف کو پورا کرنے میں مشکل کا سامنا ہے۔’’کانفرنس آف دا پارٹیز‘‘ کوپ کا 27 واں اجلاس مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں بھی ہو چکاہے۔جس میں پاکستان کی بھر پور نمائندگی رہی۔ کوپ 27شرکاء کے مابین کئی معاملات اختلافات کا شکار ہو ئے تو کانفرنس کے صدر اور میزبان ملک مصر نے اس کے دورانیے میں ایک دن کی توسیع کر دی تھی۔خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان کی انصاف کے لئے صدا کو سنا گیا جس کا کریڈٹ نوجوان وزیر خارجہ بلاول بھٹوکے سر جاتا ہے۔ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثرہ ممالک کے لیے’’مالی تلافی فنڈ‘‘قائم کرنے کے فیصلہ کی گونج سنائی دی، اور پھر یہ فنڈ قائم کر بھی دیا گیا ہے ۔
ماحولیاتی کانفرنس میں عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کم کرنے کے لیے زہریلی کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی اہم مسئلہ رہا ہے جس کے تدارک پراتفاق کیا گیاہے۔ کانفرنس کے اختتامی مرحلے میں شرکاء نے جن دو مرکزی دستاویزات کی منظوری دی، ان میں سے ایک تو اختتامی اعلامیہ تھا اور دوسری ایک ایسے تاریخی معاہدے کی دستاویز، جس کا اہم ترین پہلو ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ہونے والے نقصانات تھے۔نئے تلافی فنڈ کے لیے بر وقت فیصلوں اور مناسب مالی وسائل کی فراہمی سب سے اہم معاملہ ہے۔ جو انتہائی نوعیت کے موسمیاتی حالات اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کو جاری کئے جاتے ہیں۔یہ بات سب جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلی کے باعث درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور سائنسدانوں نے متنبہ کیا ہے کہ زمین کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والی تباہی سے بچانے کے لیے فوری اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔انسانی ضروریات نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں اضافہ کیا ہے، جو درجہ حرارت کو بڑھاتا ہے۔موسم میں شدت اور پھر برف کا پگھلنا اس کے ممکنہ اثرات میں شامل ہیں۔
 ہماری زمین اب بہت تیزی سے ماحولیاتی تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے اور عالمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ آب و ہوا کی تبدیلی ہمارے طرز زندگی کو بدل دے گی، جس سے پانی کی قلت پیدا ہو گی اور خوراک پیدا کرنا مشکل ہو جائے گا۔ کچھ خطے خطرناک حد تک گرم ہو سکتے ہیں اور دیگر سمندر کی سطح میں اضافے کی وجہ سے رہنے کے قابل نہیں رہیں گے۔موسم میں شدت کی وجہ سے پیش آنے والے واقعات جیسے گرمی کی لہر، بارشیں اور طوفان بار بار آئیں گے اور ان کی شدت میں اضافہ ہو جائے گا، یہ لوگوں کی زندگیوں اور ذریعہ معاش کے لیے خطرہ ہو گی۔ایک برس قبل کہا گیا تھا کہ غریب ممالک کے شہریوں کے پاس حالات کے مطابق ڈھلنے کا امکان کم ہوتا ہے اس لیے وہ سب سے زیادہ نقصان اٹھا رہے ہیں۔ 
مغربی ممالک کی تیز رفتار صنعتی ترقی نے ماحول میں کاربن کے اخراج کو کئی گنا بڑھا دیا ہے جس سے عالمی درجہ حرارت میں واضح اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ لیکن اس کا خمیازہ پاکستان جیسے ممالک نے بھگتا جس کا حصہ کاربن کے اخراج میں آدھ فیصد سے بھی کم ہے۔ اب پاکستان کا شمار ان دس ممالک میں ہوتا ہے جو موسمی تبدیلی سے متاثر ہیں۔ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے شدید اثرات کا سامنا ہے۔ پورتو ریکو، میانمار، ہیٹی، فلپائن کے بعد پاکستان کا نام ہے۔ موسمی تبدیلی کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھانے کے باوجود سمندری سطح میں اضافے، پانی کی قلت، زرعی پیداوار میں کمی اور خشک سالی کے باعث 2030 ئ￿ تک پاکستان میں لاکھوں افراد کے بے گھر ہو جانے اور نقل مکانی کرنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ تاہم اگر موسمیاتی تبدیلی کو روکنے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو متاثر ہونے والے افراد کی تعداد دگنی بھی ہو سکتی ہے۔ جیکب آباد سمیت ملک بھرمیں اتنی زیادہ گرمی اب ہماری توقعات سے کہیں پہلے ہو جاتی ہے۔ دریائے سندھ کے ساتھ پاکستان کے علاقے موسمی تبدیلی سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور مستقبل قریب میں درجہ حرارت میں مزید اضافہ ہونے کے اشارے بھی مل رہے ہیں۔
 پاکستان میں سیلاب سے تین کروڑ 30 لاکھ افراد براہ راست متاثر ہوئے۔ 40 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی اور تعمیر نوکے بے شمارمسائل کا سامنا ہے۔ہلال احمر پاکستان شعبہ کلائمیٹ چینج ایند ایڈاپٹیشن نے ’’کوپ 27‘‘کے بعد اجلاس بعنوان ’’پیرس سے شرم الشیخ تک کا سفر‘‘ کا بھی اہتمام کیا جس میںمتعلقہ شخصیات کے علاوہ وزارت موسمیاتی تبدیلی کے نمائندگان شریک تھے۔یہاں پینل ڈسکشن کے سیشن میں آگے بڑھنے اور عالمی فنڈز کے حصول سے متعلق سیر حاصل گفتگو میں روڈ میپ تشکیل دیا گیا۔
پاکستان کیلئے مشکل گھڑی میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل ک انتونیو گوترس کا تعاون ہمیشہ یاد رہے گا۔ انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس نے بھی اپنا دامن کھولا، پاکستان میں آئی ایف آر سی کے ہیڈاور ہمارے دوست پیٹر پی ہوف نے ہر موقع پر بھرپور تعاون کر کے نئی مثال قائم کی۔اب ہمیں بھی ماحول دوست توانائی کے ذرائع اختیار کرنا ہوں گے۔ہمیں دنیا سے اپنے لٹے پٹے سیلاب متاثرہ بھائیوں کے لیے انصاف چاہیے،امید واثق ہے کہ عالمی برادری اس جانب بھرپور توجہ دے گی۔

ای پیپر دی نیشن