بنگلہ دیش میں انڈیا آئوٹ مہم زور پکڑ گئی۔
جب آپ اپنے پڑوسی ممالک کو باجگزار ریاست سمجھتے ہوئے ان کی معیشت کا بیڑہ غرق اورسیاست میں مداخلت کریں گے۔ وہاں جاسوسی کا جال پھیلا کر وہاں کے حالات خراب کریں گے۔ وہاں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کے لیے ناجائز ہتھکنڈے استعمال کریں گے تو پھر یہی کچھ ہو گا۔ ہر جگہ گو انڈیا گو۔ مک گیا تیرا شو کے نعرے ہی لگیں گے۔ پہلے مالدیب والوں نے ہمت دکھائی اب بنگلہ دیش والے بھی ہمت دکھا رہے ہیں۔ جسے بھارت اپنی لونڈی سمجھتا ہے۔ بھارتی سیاستدانوں کا خیال ہے کہ وہ حسینہ واجد جیسے رہنمائوں اور اپنے پالتو سیاستدانوں کے بل بوتے پر بنگلہ دیش کو قابو کئے رکھے گا۔ مگر وہاں کے عوام کی اکثریت اب بھارت کے اس مکروہ کھیل سے تنگ آ کر ’’انڈیا آئوٹ‘‘ مہم چلا رہی ہے کہ انڈیا کو ہماری معیشت میں مداخلت کا، اس کو تباہ کرنے کوئی حق حاصل نہیں۔ اس کے مال کا۔ اس کی اشیا کابنگلہ دیش میں مکمل بایکاٹ کیا جائے۔ بنگال کے باشعور عوام جانتے ہیں کہ ایسا نہ کیا گیا تو ان کا انجام بھی سکم جیسا ہو سکتا ہے جو بھارت کے لئے ترنوالہ ثابت ہوا۔ وہ ایک چھوٹی پہاڑی ریاست تھی اور بنگلہ دیش کروڑوں مسلمانوں کی آزاد ریاست ہے۔ بھارتی تاجروں کو یہاں سے جانا ہی پڑے گا۔
یہ بھارتی ساہوکاروں کی چالاکیاں ہیں کہ وہ پہلے کسی کو اپنا دوست بناتے ہیں‘ انکی حمایت کرتے ہیں‘ بعد میں ایسٹ انڈیا کمپنی والوں کی طرح اس علاقے کی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں۔ یہی بھارت والے بنگلہ دیش میں کر رہے ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی بن چکے ہیں‘ بنگلہ دیش کی سیاست اور معیشت ہی نہیں‘ پوری ریاست عملاً انکے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہے۔ شیخ مجیب الرحمان کے بعد انکی صاحبزادی بھارت کی اندھی محبت میں گرفتار ہے‘ وہ بھی کیا کرے اگر بھارت نکل گیا تو حسینہ واجد کو بھی عوام بائی بائی ٹاٹا کہہ کر نکال دیں گے۔
٭٭٭٭٭
مختلف شہروں میں پی ٹی آئی کی ریلیاں اور پولیس کی پکڑ دھکڑ۔
اب الیکشن سے چند روز قبل اس طرح کی صورتحال سے معاملہ بگڑ بھی سکتا ہے۔ یہ کوئی طوفانی ریلیاں نہیں تھیں کہ جس سے مکانوں کی چھتیں اور مخالفین کے بینرز اڑ جاتے۔ انہیں سیاسی عمل کا حصہ سمجھا جائے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو جب ایساکرنیکا حق ہے جو بڑے بڑے جلسے کر رہی ہیں تو پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کو بھی کم از کم جلوس نکال کر ریلیاں نکال کر اپنا سیاسی حق استعمال کرنے دینا چاہیے۔ کراچی میں پولیس نے طاقت کے زور پر ریلی روکی جس پر ہنگامہ ہوا۔ بے شک معمولی سا تھا مگر ہوا تو۔ اسی طرح مختلف شہروں میں شرکا کو پکڑا گیا۔ کیا یہ جمہوری عمل کہلائے گا۔ بے ضرر سے جلسے اور ریلیاں ہونے سے کوئی قیامت نہیں آئے گی۔ خاص طور پر لاہور میں میاں اظہر جیسے بزرگ سیاستدان کو پکڑنا کونسی جمہوریت کی خدمت ہے۔ وہ تو زیادہ چلنے پھرنے اور بھاگ دوڑ سے رہے۔ اس کے باوجود ان کی گرفتاری کس کھاتے میں شامل ہو گی۔ نجانے ہمارے حکمرانوں کو اپنے آخری چند روز میں ایسی آمرانہ حرکات کا شوق کیوں چْرایا ہے۔ یہ طرز عمل بعد میں کسی نئی چپقلش کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیے ہمیں عربی کے اونٹ کی طرح ایسے معاملات کو خیمے سے باہر ہی رکھنا ہو گا ورنہ وہی ہو گا جو اس عربی بدو کے ساتھ ہوا تھا کہ نیکی گلے پڑ گئی تھی۔
٭٭٭٭٭
کینیڈا کے بعد امریکہ میں بھی خالصتان کے حق میں ریفرنڈم۔
شدید سردی میں ہزاروں سکھوں نے جس طرح سان فرانسسکو میں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر آزاد سکھ ریاست خالصتان کے حق میں ووٹ کاسٹ کیا وہ بتا رہا ہے کہ سکھ اب کسی صورت بھارت کی غلامی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ بھارتی پنجاب میں جس طرح سکھ نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے۔
نوجوان سکھ رہنمائوں کو بھارت کی دور دراز جیلوں میں ٹھونسا جا رہا ہے۔ اس سے دیارِغیر میں کام کرنے والے اور وہاں آباد لاکھوں سکھ نہایت رنجیدہ ہیں۔ اسی لیے بھارت سے علیحدگی کی مہم چلا رہے ہیں پہلے کینیڈا اٹلی اور اب امریکہ میں جس طرح ہزاوں سکھوں نے ’’ست سری اکال‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے ریلیاں نکالیں اس پر ہندو توا کے حامیوں نے رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی مگر منہ کی کھائی اور بھارتی ایجنٹوں کے ہاتھوں سکھ رہنمائوں کے قتل پر تو امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا نے بھارت کو خوب رگیدا۔ اِدھر بھارتی پنجاب میں ایک بار پھر کسان اپنے مطالبات کے حق میں سڑکوں پر ہیں دیکھنا ہے یہ تحریک کیا رنگ لاتی ہے۔ یہ ہندوتوا کے حامی مختلف علاقوں میں چلنے والی تحریک کے مقابلے میں رام مندر جیسے متنازعہ ایشو اٹھا کر ہندو توا کو فروغ دے کر عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں تاکہ مذہب کے نام پر ہندو انتہاء پسندی کی سیاست کو فروغ دے کر الیکشن جیت سکیں۔
٭٭٭٭٭