اسلام آباد میں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی اور ان کے ایرانی ہم منصب حسین امیر عبداللہیان کے مابین ایک اہم ملاقات ہوئی ہے جس کا مقصد دونوں ملکوں کے تعلقات کو بہتر بنانا اور امن دشمن عناصر کی سازشوں کو مات دینا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ اتوار کو اسلام آباد پہنچے تھے جہاں سوموار کو انھوں نے جلیل عباس جیلانی سے ملاقات کی جس کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی امور سمیت دوطرفہ تعلقات میں سامنے آنے والے مسائل کو حل کرنے کے لیے اعلیٰ سطح پر مشاورتی میکنزم بنانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ اس ملاقات کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کے دوران حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور ایران کے سرحدی علاقوں میں موجود عسکریت پسندوں کو دیگر ممالک کی حمایت حاصل ہے اور وہ پاک ایران تعلقات اور دونوں اقوام کے مفاد کے لیے کیے جانے والے اچھے اقدامات کے حق میں نہیں ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ خطے کے اندر اور باہر ایسے ممالک موجود ہیں جنھیں امن و امان کا قیام ایک آنکھ نہیں بھاتا اس لیے وہ مسلسل ایسی سازشوں میں مصروف رہتے ہیں جن کے ذریعے ممالک کے باہمی تعلقات اور امن و امان کو تباہ کیا جاسکے۔ انھی ممالک کے اشاروں پر کام کرنے والے ایسے گروہ اور تنظیمیں پاکستان اور ایران کے اندر موجود ہیں جو مختلف وقتوں میں اپنی تخریبی کارروائیوں سے معاملات کو بگاڑنے کے لیے شرارتیں کرتی رہتی ہیں۔ انھی میں سے دو کالعدم دہشت گرد تنظیمیں بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) بھی ہیں جن سے وابستہ کچھ عناصر پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں واقع پہاڑوں میں چھپے ہوئے ہیں تو کچھ ایران میں سیستان اور بلوچستان کے علاقوں میں چھپ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ انھی دہشت گرد تنظیموں نے ہفتے کے روز نو پاکستانی مزدوروں کو گولیاں مار کر شہید کردیا تھا۔
اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کے ساتھ معاملات بگاڑنے کی کوششوں کا مقابلہ کیا جائے۔ ایران اور پاکستان دو برادر ممالک ہیں جن کی جڑیں گہری مذہبی، ثقافتی اور تہذیبی مشترکات ہیں جنھیں منقطع نہیں کیا جا سکتا۔ تہران پاکستان کے ساتھ ہم آہنگی اور اچھی ہمسائیگی پر مبنی پالیسی پر عمل پیرا ہے کیونکہ مشترکہ سرحد دونوں ممالک کی سلامتی کو بڑھانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ ہمیں پاکستان کے ساتھ بدامنی پھیلانے کے بجائے امن کو فروغ دینا ہوگا۔ ایرانی صدر نے زوردیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سلامتی ایران کی سلامتی ہے۔ ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے بھی اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔ حکومت پاکستان اور متاثرین کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کرتے ہیں۔ ایران اور پاکستان دشمنوں کو برادرانہ تعلقات خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات کی خرابی کا ایک موقع 16 جنوری کو اس وقت پیدا ہوا تھا جب ایران نے بلوچستان کے سرحدی شہر پنجگور میں عسکریت پسند گروپ جیش العدل کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتے ہوئے پاکستان میں حملے شروع کیے تھے۔ اس واقعے کے بعد پیدا ہونے والی ناخوشگوار صورتحال کا اثر دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات کے معاملے میں بھی نظر آیا اور اسی دوران پاکستان نے 22 جنوری کو ’مرگ بر سرمچار‘ نامی آپریشن کے تحت ایرانی سیستان و بلوچستان میں دو دہشت گرد تنظیموں بی ایل اے اور بی ایل ایف کے عسکریت پسندوں کے سات کیمپ تباہ کیے تھے جن کے نتیجے میں متعدد بلوچ دہشت گرد مارے گئے تھے۔ بعدازاں، دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح پر باہمی کشیدگی کو کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کی پاکستان آمد اسی فیصلے کا نتیجہ ہے۔ اسلام آباد میں دونوں برادر ممالک کے وزرائے خارجہ کے مابین ہونے والی ملاقات میں طے پایا ہے کہ دونوں ملک مسائل کے حل کے لیے وزارتِ خارجہ کی سطح پر باقاعدگی سے کام کیا کریں گے اور تعلقات کی بہتری کے لیے کسی بھی معاملے پر ایک دوسرے کو آگاہ کرنے کے حوالے سے مکینزم بھی طے کیا جائے گا۔ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ وزیر خارجہ کی سطح پر بنایا جانے والا میکنزم باقاعدگی سے تہران و اسلام آباد میں ملاقاتیں کرے گا۔ یہ میکنزم دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ تعاون کے فروغ، دہشت گری و سرحدی خطرات کا تدارک اور ایک دوسرے کے خدشات کو دور کرے گا۔ سرحدی اور سیکیورٹی امور کو بہتر انداز میں دیکھنے کے لیے پاکستان کا نمائندہ ایران کے سرحدی شہر زاہدان جب کہ ایرانی سیکورٹی نمائندہ پاکستان کے سرحدی شہر تربت میں تعینات کیا جائے گا۔
یہ بہت اچھی بات ہے کہ پاکستان اور ایران نے مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل تشکیل دینے کے بارے میں تفصیل سے تبادلہ خیال کیا ہے۔ بھارت سمیت ایسے کئی ممالک ہیں جو پاکستان اور ایران ہی نہیں بلکہ خطے میں موجود دیگر ملکوں کے باہمی تعلقات بھی خراب کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس کے نتیجے میں انھیں اپنا تسلط قائم کرنے کا موقع مل سکے۔ یہ بھی ایک خوش آئند بات ہے کہ پاکستان کی طرح ایران کو اس بات کا احساس ہے کہ کچھ اور ممالک دونوں ملکوں کے تعلقات کو بگاڑنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے وہ دہشت گرد گروہوں اور تنظیموں کو استعمال کررہے ہیں۔ پاکستان اور ایران کے ساتھ ساتھ خطے کے تمام ممالک کو امن دشمن عناصر اور ملکوں کی سازشوں کے خلاف متحدہ محاذ تشکیل دینا چاہیے تاکہ امن و امان کے قیام کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ باہمی فلاح و بہبود کے لیے بھی مل کر کام کیا جاسکے۔