گلزار ملک
وطن عزیز مسائلستان بن چکا ہے۔ معاشی مسائل ، سیاسی مسائل ، آئینی مسائل ، اندرونی و بیرونی سیکیورٹی کے مسائل غرضیکہ پاکستان اس وقت مسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ آج کے کالم میں انتہائی بگڑتی ہوئی سیاسی صورتحال اور موجودہ انتخابات کے پیش نظر موضوع سیاسی مسائل ہیں۔ اس موجودہ صورتحال کو بیان کرنے سے قبل ہمیں ذرا ماضی میں بھی جھانکنا ہو گا۔ ماضی کی ورق گردانی کے بغیر موجودہ صورتحال کو سمجھنے میں قدر دقت ہوگی۔ قائد اعظم کی رحلت کے بعد اور خاص طور پر قائد ملت لیاقت علی خان کے بہیمانہ قتل کے بعد تو صورتحال بگڑتی ہی چلی گئی۔ مشرقی پاکستان کی اکثریت کا بھی خیال نہ کیا گیا۔ ایوبی دور حکومت میں بھی عدم برداشت تو موجود تھی۔ محترمہ فاطمہ جناح کی جیت کو شکست میں تبدیل کرنا انہیں غدار قرار دینا۔ اسی عدم برداشت کی مثالیں ہیں۔ اگر ارباب اختیار کو ناگوار نہ گزرے تو ہم بنگالیوں کو اور بنگالی لیڈروں کو بھی دوسرے درجے کا شہری سمجھتے تھے۔ یہی صورتحال بالآخر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبب بنی۔ اس کے بعد بھٹو دور حکومت آیا۔ سیاسی برداشت مزید کم ہوتی چلی گئی۔ سیاسی عدم برداشت سیاسی ورکرز کے قتل میں تبدیل ہونے لگی۔ سیاسی ورکرز کی زبان بندی کی جانے لگی۔ بھٹو دور کے بعد ضیا رجیم میں بھی عدم برداشت اسی طرح موجود رہی۔ بقول اقبال احمد خان سابق سیکرٹری جنرل پاکستان مسلم لیگ ضیا الحق سیاسی جماعتوں کے وجود کو ہی برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ غیر سیاسی انتخابات اس کی واضح مثال ہیں۔ جب مرحوم جونیجو اور اقبال احمد خان نے کہا کہ پھر ہر بجٹ اور ہر بل کو پاس کروانے کیلئے کروڑوں روپے اور سیکڑوں نوکریاں ارکان پارلیمینٹ کو تقسیم کرنا پڑیں گی تو ضیا الحق نے ایک سرکاری مسلم لیگ بنانے کی اجازت دی۔ میاں نواز شریف چونکہ ضیا الحق کی مرہون منت سیاسی اکھاڑے میں اترے تھے لہٰذا وہ بھی سیاسی جماعتوں کے خلاف تھے۔ جب چوہدری برداران ، حامد ناصر چٹھہ ، اقبال احمد خان گورنر غلام جیلانی سے ملے اور میاں صاحب کے متعلق شکایت کا اظہار کیا تو ان کے کہنے پر میاں صاحب اس شرط پر مسلم لیگ میں شامل ہوئے کہ وہ پنجاب مسلم لیگ کے صدر اور وزیر اعلیٰ پنجاب ہوں گے۔
جونیجو حکومت کی معزولی کے بعد 1988 کے انتخابات میں جب بینظیر بھٹو کو غیر معمولی پزیرائی ملی تو مسلم لیگ اور دوسری پارٹیوں میں اتحاد نے جنم لیا اور کچھ ایسے نعروں نے جنم لیا جو ملکی سالمیت کیلئے خطرناک بھی ہوسکتے تھے۔ جاگ پنجابی جاگ جیسے نعرے لگائے گئے۔ ایک دوسرے کی کردار کشی کی گئی۔ یہ سلسلہ یہیں نہیں رکتا بلکہ آگے بڑھتا جارہا تھا اور جارہا ہے۔ اس عرصے میں ملک میں تقریباً دو جماعتی نظام ہی تھا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ باقی صوبائی یا علاقائی جماعتیں بن چکی تھیں۔ یہ ایک سٹیٹس کو کی علامت تھی۔ پھر اس میں ایک اور شخص یا سیاسی جماعت داخل ہوتی ہے۔ پہلے پہل تو اسے قابل اعتنا نہ سمجھا گیا لیکن جب وہ الیکشن کی سیاست میں داخل ہوا تو اس کی بھی کردار کشی کی گئی۔ جواب? اس نے کردار کشی کرنے کے بجائے ایک اور ہی نعرہ عوام کو دیا۔ اب عوام نے اس کی بات پر دھیان دیا۔ عوام نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی آپس کی لڑائی اور ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کی حقیقت کو سمجھا اور عمران خان کے اس بیانی? کو پزیرائی دی کہ یہ دونوں پارٹیاں مل کر باریاں لگا رہے ہیں۔ پھر ان پارٹیز کے رہنماؤں کی بیرون ملک جائیدادوں نے عمران خان کے اس بیانی? کو مزید تقویت دی۔ پھر سپریم کورٹ کے فیصلے نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ اب اگرچہ عدلیہ اپنے فیصلوں سے انحراف کر رہا ہے مگر جب تیر کمان سے نکل جائے۔ بات منہ سے نکل جائے تو واپسی مشکل ہوتی ہے۔ اب دونوں بیانیہ اگرچہ مستعمل ہیں مگر سیاسی ماحول میں انتہائی کشیدگی ہے۔ یہ صورتحال ملک و قوم کیلئے نقصان دہ ہے۔ کچھ آئینی ادارے بھی اس صورتحال میں اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ اس سے سیاسی صورتحال مزید بگڑتی جارہی ہے۔ اب انتخابات کا انعقاد قریب سے قریب تر ہے مگر ایک بیچینی سی ماحول میں چھائی چلی جارہی ہے۔ کسی جماعت سے اس کا نشان چھین لیا گیا ہے تو کسی کو کھل کر کمپین کی اجازت ہے۔ عوام میں بھی دوریاں بڑھتی جارہی ہیں۔ گھرانے تقسیم ہورہے ہیں۔ کوئی ادارہ صورتحال کو سنمبھالنے کی ذمے داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔ امید وار الیکشن جیتنے کیلئے ہر حربہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ سیالکوٹ میں ایک امید وار لاکھوں روپے لگا کر لوگوں کو ناشتہ کروا رہا ہے۔ کہیں کارنر میٹنگز کے نام پر کھانے کھلائے جارہے ہیں۔ جن پر لاکھوں روپے صرف کئے جا رہے ہیں۔ دیہات تو دور کی بات ہے کہ وہاں سے بات نکلتے نکلتے نکلے گی۔ شہروں میں بھی روپے تقسیم کئے جارہے ہیں۔ مگر الیکشن کمیشن گہری نیند سورہا ہے۔
شوشل میڈیا نے ایک الگ ہی طوفان کھڑا کیا ہوا ہے۔ ہر حدود قیود سے آزاد۔ چلیں پہلے تو صحافی حضرات ہی شوشل میڈیا پر اپنی رائے شیئر کرتے تھے مگر اب تو ایک نیا ٹرینڈ شروع ہو گیا ہے۔ پہلے نعرے لگائے جاتے تھے لیکن ملکو نے خان کے حق میں ایک گانا کیا گایا وہ وائرل بھی ایسا ہوا کہ اب ہر دوسرا گلوکار گا رہا ہے۔ اور امید وار بھی اور عوام بھی اس کو پزیرائی بخش رہی ہے۔ لیکن کیا یہ رویہ درست ہے۔۔؟ ہمیں اپنے ملک کی بہتری کیلئے اپنے سیاسی رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔ تناو کی یہ فضا ، عدم برداشت کے ان رویوں کو ختم کرنا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں میں اختلاف ایک قدرتی امر ہے مگر یہ اختلاف اس نہج تک پہنچ جائے کہ ملکی مفاد کو پس پشت ڈال دیا جائے کبھی بھی وطن عزیز کیلئے سود مند نہیں ہوگا۔ تمام سیاسی قائدین کو سوچنا ہوگا۔ ورنہ عوام ان سے بیزار ہوکر کسی دوسری سمت نہ دیکھنے لگے۔ لہذا اس سے قبل اپنے آپ کو تبدیل کر لیں