غزہ کی صورت حال اور جذبہ جہاد


  ارتقاء نامہ …سید ارتقاء احمد زیدی
irtiqa.z@gmail.com

سات اکتوبر 2023 سے اسرائیل کی طرف سے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی جاری ہے۔ نتین یاہونے فرعون اور چینگز خان کا روپ دھارا ہوا ہے اور وہ مسلسل ہسپتالوں‘ سکولوں اور اقوام متحدہ سے منسلک اداروں پر بمباری کررہا ہے ۔ان سب مظالم کے باوجود امریکہ اور مغربی ممالک اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں کیونکہ ایسا کرنا ان کے ناپاک مقاصد کا تقاضا ہے لیکن ایک بات خوش آئند ہے کہ سوشل میڈیا کیوجہ سے اسرائیلی مظالم کے مناظر دنیا کے گوشتے گوشتے میں دیکھنے اور سننے جارہے ہیں اور اسرائیل ایک جارح کے طور پر پرہنہ ہوگیا ہے اب وہ زیادہ عرصہ  اقوام عالم کو بے وقوف نہیں بنا سکتا  دنیا جان چکی ہے کہ  غزہ کامسئلہ سیاسی ہے نہ مذہبی بلکہ یہ انسانیت اور درندگی کی جنگ ہے یہی وجہ ہے کہ جنوبی افریقہ نے ہیگ میں عالمی عدالت انصاف میں  اسرائیل کے خلاف فلسطینوں کی نسل کشی کا مقدمہ دائر کر دیا اور عالمی عدالت انصاف سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی بند کرے کا حکم دے اسرائیل کے نمائندے نے عدالت انصاف سے جنوبی افریقہ کی طرف سے دائر کئے گئے مقدمہ کی سماعت روکنے اور اسے خارج کرنے کی درخواست کی۔عدالت انصاف نے اسرائیل کی درخواست مسترد کرکے سماعت جاری رکھی اور 26 جنوری 2024ء کو تاریخی فیصلہ سنا دیا یہ فیصلہ 15-2 کی اکثریت سے سنایا گیا عالمی عدالت کے 17 میں سے 15 ججوں نے اپنے عبوری فیصلے  میں اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ  غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی بند کرے عالمی عدالت انصاف نے جنوبی افریقہ کے مطالبات درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوج کی بمباری سے 25 ہزار سے زیادہ فلسطینی مارے جا چکے ہیں اسرائیل فلسطینیوں کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا  غزہ کے بیس لاکھ سے  زیادہ لوگ نفسیاتی اور جسمانی تکالیف میں مبتلا ہیں۔
عالمی عدالت انصاف نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی کے جنوبی افریقہ کے عائد کردہ الزامات میں سے کچھ درست ہیں حماس حملے کے جواب میں اسرائیل حملوں میں بہت جانی اور انفراسٹرکچر  کا نقصان  ہوا ہے اقوام متحدہ کے کئی اداروں نے اسرائیلی حملوں کے خلاف قرار دادیں پیش کی ہیں۔عالمی ادارہ انصاف نے غزہ میں انسانی نقصا پر تشویش ظاہر کی اور کہا کہ  غزہ میں اسرائیلی حملوں میں بڑے پیمانے پر شہریوں کی اموات ہوئیں۔ اور عدالت  غزہ میں انسانی المیے کی حد سے آگاہ ہے۔
عالمی عدالت نے قرار دیا کہ جنوبی افریقہ کے  عائد کردہ الزامات میں سے کچھ درست ہے اور اسرائیل کے خلاف نسل کشی مقدمے میں فیصلہ دینا عدالت کے دائرہ اختیار میں ہے۔ اسرائیل کے خلاف نسل کشی کیس کے کافی ثبوت موجود ہیں اسرائیل کے خلاف کچھ الزامات نسل کشی کنونیشن کی دفعات میں آتے ہیں۔11 اور 12 جنوری کو ہونے والی سماعت میں جنوبی افریقہ اور اسرائیل نے دلائل پیش کئے تھے جن کو سننے کے بعد عالمی عدالت انصاف نے 26 جنوری کو تاریخی فیصلہ سنا دیا۔عالمی عدالت کے فیصلے نے اسرائیل اور اس کے ہمنوا ممالک کو آئینہ دکھا دیا ہے کہ دنیا ان کے مکروہ عزائم سے واقف ہوگئی ہے اسرائیل کو نو شتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے کہ وہ اب دنیا کی آنکھوں ہی دھول نہیں جھونک سکتا۔اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف اس کی دہشت گردی کا شدید رد عمل خود اس کے اپنے ملک میں بھی ہوا ہے اسرائیلی وزیراعظم نتین یاہو کے خلاف  تل ابیب میں مظاہرے ہوئے ہیں امریکہ اور یورپی ممالک کے بڑے بڑے شہروں میں فلسطینیوں کے حق میں جلوس نکالے جارہے ہیں دنیا کا ضمیر جاگ گیا ہے۔
لیکن بدقسمتی سے مسلمان ممالک کا ضمیر اب بھی سویا ہوا ہے پچاس سے زیادہ مسلم ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں جو اپنی اپنی مصلحیتوں کی وجہ سے اسرائیل کے خلاف کارروائی کرنے سے قاصر ہیں کچھ ممالک کے مفادات امریکہ اور یورپی ممالک سے وابستہ ہیں۔کچھ  فوجی اعتبار سے زیادہ مستحکم اور اتنے مضبوط نہیں کہ اسرائیل کے خلاف کچھ کرسکیں .مسلم دنیا میں صرف پاکستان واحد ایٹمی طاقت ہے جو روایتی او رغیر روائتی دونوں طرح کی جنگ کی پوری صلاحیت رکھتا ہے لیکن وہ اقتصادی طور پر کمزور  اور قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے ، وہ سیاسی طورپر بھی غیر یقینی صورت حال سے دو چار ہے اور دو ہفتوں بعد ہونے والے انتخابات کی تیاری میں مصروف ہے اس لیے فلسطینیوں کی کھل کر مدد کرنے سے قاصر ہے ایک اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان امریکہ اور مغربی ممالک کا مقروض ہے وہ آئی ایم  ایف اور دوسرے قرض دینے والے اداروں کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتا جو امریکہ اور مغربی ممالک کے دباؤ میں آکر پاکستان کیلئے قرضوں کی اقساط معطل کرسکتے ہیں  بحیثیت مسلمان تمام پاکستانی رنج و الم کی حالت  میں ہیں کہ وہ اتنے بے بس ہوگئے ہیں کہ حق کا ساتھ دینے کی طاقت بھی نہیں رکھتے جبکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ فلسطینیوں کو اسرائیل کے مظالم سے بچانے کے لئے جہاد کرنے کا وقت آگیا ہے۔سورۃ البقرہ کی آیت 216 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’تمہیں جنگ کا حکم دیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لئے بہتر ہو اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے‘‘
 جناب مفتی تقی عثمانی نے بھی جہاد کے بارے میں بات کی ہے لیکن جہاد کا فیصلہ حکومت وقت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے ملک کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر حکومت وقت کے لئے فی الحال جہاد کا اعلان کرنا ممکن نہیں لیکن اگر جہاد کے بارے میں مدلل طریقے سے غور کیا جائے  تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ جہاد کے مغنی ہیں کہ کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے  انتہائی کوشش کرنا جہاد محض جنگ کا ہم معنی نہیں ہے جنگ کے لئے قتال کا لفظ استعمال ہوتا ہے جہاد اس سے وسیع تر مفہوم رکھتا ہے۔ جہاد کا مطلب ہے ہر قسم کی جدوجہد کرنا اور مجاہد وہ کہلاتا ہے جو ہر وقت اپنے مقصد کی دھن میں لگا رہے وہ ایسی تدبیریں سوچے اور زبان اور قلم سے یا جو بھی اس کے بس میں ہو اس کے لیے دوڑ ودھوپ اور محنت کرے۔کیا پچاس سے زیادہ مسلم ممالک میں آباد 1.8 ارب مسلمان ایسی تدابیر نہیں کرسکتے جس سے اسرائیلی جارحیت کو روکا جاسکے۔ اگر دنیا بھر میں مسلم اور غیر مسلم ملکوں میں آباد تمام مسلمان آج یہ فیصلہ کرلیں کہ وہ اسرائیل سے تجارتی تعلقات منقطع کر کے اسکی مصنوعات استعمال نہیں کریں گے تو اسرائیلی معیشت کی کمر ٹوٹ جائے  گی۔ آج کل جنگیں صرف اسلحہ سے نہیں لڑی جاتیں بلکہ اقتصادی طور پر مستحکم ہونا ناگزیر ہے۔ ترکی نے حکومتی سطح پر اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا ہے پاکستان میں عوامی سطح پر اسرائیل کی مصنوعات استعمال نہ کرنے کی مہم چلائی جارہی ہے اسی طرح کے اقدامات تمام مسلم ممالک اور غیر مسلم ممالک میں آباد مسلمانوں کو بھی لینے چاہئیں اس بارے میں سوشل میڈیا بہت مثبت کردار ادا کرسکتا ہے۔ تمام سیاسی ،غیر سیاسی اور سوشل تنظمیوں کو بھی آگے آکر اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے اور اس سمت میں بھرپور کام کرنا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن