سوشل میڈیا کے ذریعے انتخابی جعلسازی کاخطرہ۔

تحریر۔سجل سجاد
 
ہم روز جھوٹی اور سنسنی خیز خبروں اور پیغامات کو دیکھتے ہیں۔یہ جانتے بوجھتے کہ یہ سب غلط بیانی ہے  ہم اس سب کے تدارک کیلئے خود کو بے بس پاتے ہیں۔سیاسی رہنماوں،عدلیہ،الیکشن کمشن اور سلامتی کے اداروں کے خلاف نفرت انگیز مواد کی ترسیل معاشرے میں تنگ نظری اورتعصبات کو جنم دے رہی ہے۔معاشرہ تقسیم اور پولرائز ہو رہا ہے۔ دنیا بھر کی طرح  پاکستان میں بھی مصنوئی ذہانت اور سوشل میڈیا کے مقبول عام ایپس کاغلط استعمال ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس سال کو پاکستان میں جمہوریت کے لئے ''میک یا بریک'' کا سال قرار دیا جارہا ہے، ایک مخصوص لابی حالیہ انتخابات کو متنازعہ بنانے اور جمہوریت کو پاکستانی مسائل کے لئے بیکار ثابت کرنے کیلئے طوفان برپا کرنے پر بضد نظرآرہی ہے۔ملک میں سیاسی افراتفری اور کنفیوڑن پیدا کرنے کیلئے ایک بار پھر ڈس انفرمیشن کا سہارا لیا جارہا ہے اور پہلی بار اس انتخابی اور سیاسی تخریب کاری کیلئے مصنوئی ذہانت کا بے دریغ استعمال کیا  جارہا ہے۔جس تیزی سے جعلی خبروں کو پھیلایا جارہا ہے۔ آنے والے وقت میں سچ اور جھوٹ کو پرکھنا بہت مشکل ہو جائے گا۔صرف پچھلے چند ہفتوں میں مشاہدہ کیا گیاہے کہ یہ جعلی خبریں اوربے بنیاد افواہیں کس طرح ہمارے انتخابی عمل کو سبوتاڑ کر رہی ہیں۔یہ منفی لابی سیاسی اورمالی فوائد کیلئے سماجی انتشار پیدا کرنے کی بھرپور کوشش میں لگی ہوئی ہے۔عمومی طور پر جعلی خبروں کا یہ پھیلاوسوشل میڈیا پلیٹ فارمزکے ذریعے کیا جارہا ہے جن میں فیس بک، یوٹیوب،ٹویٹر اور واٹس ایپ شامل ہیں۔چونکہ یہ تمام پلیٹ فارمز ہرطرح کی معلومات کو تیزی سے اور وسیع پیمانے پر پھیلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور انہیں سامعین کی وسیع تعداد بھی دستیاب ہے۔لہذٰا یہ لابی ان ایپس کے الگورتھم کو استعمال کرر ہی ہے جو اکثر نادانستہ طور پر ایسی سنسنی خیز، جھوٹی خبروں کو پھیلانے میں بہت معاون ثابت ہو رہے ہیں۔
یہ پلیٹ فارم پاکستان میں جھوٹ پھیلانے،سستی شہرت حاصل کرنے اور نفرت کا پرچار کرنے میں سماج دشمن عناصر کے ہاتھوں میں کسی مہلک ہتھیار کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ان کے ذریعے پھیلائی جانے والی ان بوگس خبروں کے ذریعے حالیہ انتخابی مہم کے دوران نہ صرف ووٹروں کو امیدواروں اور انکی پالیسیوں کے بارے میں گمراہ کیاجارہا ہے بلکہ سیاسی عمل پر عوامی عدم اعتماد اور نفرت کو پروان چڑھانے کی بھی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔بد قسمتی سے انتخابات سے ہٹ کر بھی کئی بار یہ جعلی خبریں سماجی بدامنی کا باعث بنتی ہیں حتیٰ کہ ان جھوٹی افواہوں کے نتیجے میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہواملتی ہے جس کے نتیجے میں تشدد اور ماردھاڑ جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔
مصنوئی ذہانت  کے ذریعے پھیلائی جانے والی ان غلط معلومات کے حملے سے کیسے بچنا ہے۔؟یہ آج کا سب سے بڑا سوال ہے۔اس وقت  الیکشن کمشن پاکستاں کی بار بار وضاحت کے باوجود بڑے پیمانے پر غلط معلومات کا سلسلہ جاری ہے، عام تاثر یہی ہے کہ ایک جماعت جس کی جڑیں تارکین وطن میں سب سے زیادہ ہیں۔ان کے ہمدرد اور ووٹر سپورٹر بیرون ملک سے سوشل میڈیا پر اس خطرناک مہم کو چلارہے ہیں۔اس منفی مہم کی تابکاری سے ہماری سلامتی کے ادارے اور عدلیہ پر بھی بہیمانہ حملے جاری ہیں۔
جعلی خبروں کے پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے کی حکومت کی کوششوں کو کئی چیلنجزکا بھی سامنا ہے۔ ممکنہ طور پر سخت ضابطے، تکنیکی حل اور عوامی تعلیمی مہمات کا مجموعہ شامل ہوگا۔  تاہم، چیلنج یہ ہوگا کہ ایسا اس طریقے سے کیا جائے جس سے اظہار رائے کی آزادی کا احترام کیا جائے اور سیاسی سنسر شپ سے گریز کیا جائے۔
آٹھ فروری کے جنرل الیکشن کے انعقاد اور شفافیت کے حوالے سے جہاں دیگر کئی چیلنجز سر اٹھارہے ہیں، وہاں سوشل میڈیا اور وٹس ایپ پیغامات اور کالز کے ذریعے انتخابی تخریب کاری کے سنگین خطرے کی بھی نشاندہی کی جارہی ہے۔۔الیکشن کمشن کے سٹاف کے نام پر جعلی وائس نوٹ بھی پھیلائے گئے جن کی بار بار الیکن کمشن کی طرف سے تردید کی گئی۔
اس صورت حال کو بھانپتے ہوئے ممتاز آن لائن ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم ٹکٹاک  نے اپنے صارفین کو غلط معلومات، گمراہ کن خبروں اور نفرت انگیز تقاریر کے پھیلاؤ سے بچانے  کے لیے اقدامات کا فیصلہ کیا۔اس پلیٹ فارم نے کچھ نئی پالیسیاں متعارف کروا ئی ہیں جن کے تحت  سرکاری عہدیداروں، سیاسی جماعتوں، یا سیاست دانوں کو نشانہ بنا نے والے کنٹنٹ تخلیق کرنے والوں کی مونیٹائزیشن اور مالی ٹرانزکشن کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا۔ٹِک ٹِک کے ترجمان نے انتخابی مدت کے دوران غلط معلومات کے پھیلاؤ، ووٹروں کو ڈرانے، یا تشدد پر اکسانے جیسے ممکنہ مسائل سے نمٹنے کے لیے ان اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔
ضرورت ہے کہ فیس بک،یو ٹیوب اورایکس بھی اس طرح کی پالیسیاں اپنائیں تاکہ پاکستان کی جمہوریت اور انتخابی فضاء کو جعلی خبروں اور پیغامات سے محفوظ رکھا جا سکے۔
 بننے کے لیے پرعزم ہے۔چیف الیکشن کمشنرکے نام اور تصویر کے ساتھ جعلی وٹس ایپ پیغامات پھیلانے کی بھی ایک کوشش کی گئی تو الیکشن کمشن کی طرف سے آفیشل ویب سائٹ سے یہ وضاحت کی گئی کہ اس طرح کے جعلی میغامات کو نظر انداز کر دیاجائے۔
اس جعلسازی کا سب سے خوفناک پہلویہ ہے کہ انتہائی دیدہ دلیری سے بعض عناصر چیف الیکشن کمشنر کے نام سے منسوب کر کے جعلی وٹس ایپ کالزاورپیغامات انتہائی دیدہ دلیری سے پھیلاتے نظر آتے ہیں۔معاملہ اس قدر سنگین ہے کہ الیکشن کمشن پاکستان کو اس معاملے پر ایک پریس ریلیز جاری کرنا پڑی۔الیکشن کمشن کی طرف سے عوام الناس سے کہا گیا ہے کہ ایسے پیغامات یا کالزپر یقین کرنے کی بجائے ان کی تصدیق کیلئے الیکشن کمشن کے افسران سے لینڈ نمبر پر رابطہ کیا جائے۔یہاں تک کہا گیا کہ اگر وٹس ایپ یا ایس ایم ایس سروس کے تحت اگر الیکشن کمشن کے افسران کی طرف سے بھی کو ئی پیغام یا ہدایت ملنے کی صورت میں بھی اسکی لینڈ نمبر سے تصدیق کرنی چاہیئے۔الیکشن کمشن کے افسران اورعملے کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ اس طرح کے وٹس ایپ پیغامات اور کالزموصول ہونے پر چیف الیکشن کمشنر کے سٹاف افسر سے لینڈ نمبر پر رابطہ کر کے تصدیق کی جائے۔الیکشن کمشن میں فرائض سر انجام دینے والے افسران جن میں ڈی آر اواور آر اوز بھی شامل ہیں،جن سے کہا گیا ہے کہ ایسے پیغامات یا کالز پر عمل نہ کیا جائے تا وقتیکہ انکی مکمل تصدیق نہ کر لی جائے۔
کیا ان کاوشوں کے ذریعے اس منفی پراپیگنڈے سے چھٹکارا پانا ممکن ہے یا نہیں۔یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

ای پیپر دی نیشن