صدر کے متفقہ چناﺅ کا بہترین موقع تھا

مسلم لیگ ن کے امیدوار ممنون حسین آسانی سے پاکستان کے 12ویں صدر منتخب ہوجائینگے ۔پیپلز پارٹی سپریم کورٹ کے 6اگست کے بجائے 30 جولائی کو الیکشن کرانے کے فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔جس سے نواز لیگ کے امیدوار کی فتح کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی ۔اب ایک رسمی سا انتخابی میدان سجے گا جس میں ممنون حسین تحریک انصاف کے امیدوار وجیہہ الدین کے مقابلے میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوجائینگے۔اس کا پی ٹی آئی کو بھی ادراک ہے لیکن انکاکہناہے کہ وہ ن لیگ کیلئے میدان خالی نہیں چھوڑیں گے۔ سیاسی پارٹیاں بائیکاٹ اور مقابلے کے چکر میں پڑنے کے بجائے صدر کے علامتی عہدے پر ایک متفقہ امید وار لاتیں تو ملک،قوم اور جمہوریت کیلئے کتنا بہتر ہوتا۔ بلوچستان کی اےک خاص صورتحال ہے ملکی صدارت کیلئے بلوچستان کو صرفِ نظر نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔اس حوالے سے میر ظفراللہ خان جمالی بہترین چوائس ہوسکتے تھے۔ میر ظفراللہ جمالی دو دفعہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہےں۔ ملک کے وزیراعظم بھی رہے۔ صدارت کے علاوہ ملک کے تمام عہدوں پر رہ چکے ہےں۔ میرٹ کی بنیاد پر ان سے زےادہ کوئی عہدہ کا اہل نہیں۔ قارئین کو میر ظفر اللہ جمالی کے بطور وزیراعظم پاکستان کے استعفیٰ کی وجوہ اور پسِ منظر بیان کر رہا ہوں تاکہ عوام کو محلاتی سازشوں کا بخوبی علم ہو سکے۔
 اکتوبر2002ءکے انتخاب کے نتیجے میں میر ظفر اللہ خان جمالی پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہو گئے ۔ میر ظفر اللہ خان جمالی جمہوری سوچ رکھتے ہےں۔ انکی خواہش رہی کہ چونکہ سپریم کورٹ آف پاکستان اکتوبر 1999ءکے اقدام کو 12 اکتوبر 2002ءتک آئینی تحفظ دیا تھا اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے ہی فیصلے کی روشنی میں ملک میں صدر جنرل پرویز مشرف کے Road Map Democracy کے تحت ملک میں 10 اکتوبر 2002ءکو انتخاب کے نتیجے میں پارلیمنٹ معرض وجود میں آئی ہے تو آئینی اور اخلاقی طور پر صدر جنرل پرویز مشرف کو پارلیمنٹ کے اجلاس کے بعد صدارت اور آرمی چیف کے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہےے اور اقتدار حقیقی معنوں میں عوام کے نمائندوں کو تفویض کر دینا چاہےے تھا لےکن میر ظفر اللہ خان جمالی کے اس جمہوری انداز فکر کو پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سرکردہ رہنماﺅں نے پذیرائی نہیں بخشی اور پاکستان مسلم لیگ (ق) میں ایسی شخصیتوں کو پروجیکٹ کرنا شروع کر دیا جس سے عیاں ہو رہا تھا کہ میر ظفر اللہ جمالی کی حکومت چند ہفتوں کی مہمان ہے۔
میر ظفر اللہ خان جمالی نے کمال مہارت سے صدر جنرل پرویز مشرف کے اختیارات کو کم کرا کے انہیں ایوانِ صدرسے محروم رکھنے اور پاکستان مسلم لیگ (ق) میں بے جا مداخلت کو روکنے کیلئے گہری سوچ بچار کے بعد ےہ فیصلہ کرنا شروع کر دیا کہ وہ پارلیمنٹ کو تحلیل کر کے ملک میں انتخابات کا اعلان کر کے ملک میں صحیح جمہوری حکومت کی داغ بیل ڈال دیں۔ انکی اس سوچ کے پس منظر میں انکے اےک انتہائی قابل اعتماد دوست نے ان کیلئے پارلیمنٹ میں لابنگ شروع کر دی اور وہ اپنے مخصوص انداز میں میر ظفر اللہ خان جمالی کی حمایت میں پارلیمان کے ارکان کی ہمدردی حاصل کر کے اس مہم مےں آگے بڑھے ، میر ظفر اللہ خان جمالی اپنے اس قابل اعتماد دوست کو مشورہ دیتے رہے کہ وہ ان سے اپنے موبائل فون سے بات کرنے سے گریز کریں لےکن انکے دوستوں نے انکا مشورہ درگزر کر دیا اور 22 جون 2004ءکو انکے اس دوست نے رات دس بجے فون کر کے انکی رائے جاننے کی کوشش میں ےہ جملے کہے کہ پھر پارلیمنٹ کب تحلیل کرنے کا ارادہ ہے۔ ان ہی دنوں میں میر ظفر اللہ خان جمالی کے وزراتِ عظمیٰ کے جانے کی خبریں تمام نجی ٹیلی ویژن چینل پر متواتر آ رہی تھیں کہ میر ظفر اللہ خان جمالی کو وزارتِ عظمیٰ سے تبدیل کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔
چوہدری شجاعت حسین پاکستان کی انتہائی مضبوط، قابل اور سیاست پر گہرا اثر رکھنے والی شخصیت ہےں، چوہدری شجاعت حسین میر ظفر اللہ جمالی کی حمایت میں کھڑے تھے لےکن بدقسمتی سے انکے قابل اعتماد دوست نے جس انداز سے انہیں موبائل فون پر اپنی کارگزاری سنائی، وہ موبائل فون Tape کی زد میں شروع ہی سے تھا ، لہٰذا اسی رات 11 بجے صدر جنرل پرویز مشرف کو انکی گفتگو کی ٹیپ پہنچا دی گئی۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے اگلی صبح کو میر ظفر اللہ جمالی کو ایوانِ صدر میں مدعو کیا اور رات گئے موبائل کال کے بارے میں انہیں اعتماد میں لیکر ان سے ملک کے نئے وزیراعظم کے ناموں کی فہرست طلب کی، جناب میر ظفر اللہ جمالی نے اپنے مستعفی ہونے کا اعلان پارلیمنٹ میں کرنے کی خواہش کی، صدر پرویز مشرف نے انہیں پاکستان مسلم لیگ ہاﺅس میں مستعفی ہونے کا مشورہ دیا ۔ میر ظفر اللہ جمالی نے نئے وزیراعظم کیلئے چوہدری شجاعت حسین، آفتاب شیر پاﺅ اور شوکت عزیز کے ناموں کی فہرست صدر پرویز مشرف کو پیش کی، لہٰذا 23 جون 2004ءکو میر ظفر اللہ جمالی مستعفی ہو گئے اور 30 جون 2004ءکو انکے مستعفی ہونے کا نوٹیفکیشن جاری ہو گیا۔ میر ظفر اللہ جمالی اور صدر پرویز مشرف کے باہمی اعتماد کے نتیجے میں چوہدری شجاعت حسین الےکشن شیڈول کے رزلٹ آنے تک 60 دنوں کیلئے ملک کے وزیراعظم مقرر ہوئے۔ اس دوران سنیٹر شوکت عزیز جو ملک کے وفاقی وزیر خزانہ تھے، سینٹ کی نشست کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی کی نشست میں کامیابی کیلئے ضلع اٹک سے میجر صادق ناظم اعلیٰ اٹک کی اشیرباد سے محترمہ ایمن کی خالی کردہ نشست سے الےکشن لڑنے کیلئے میدان میں اتر گئے اور مزید محفوظ راستہ اپنانے کیلئے سندھ کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر ارباب رحیم نے سانگھڑ سے بھی مسٹر شوکت عزیز کے کاغذات نامزدگی داخل کرا دئےے اس طرح 18 اگست2004ءکو جناب شوکت عزیز ملک کے وزیراعظم منتخب ہو گئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اربوں، کھربوں کی مالک اب صرف جان اور مال کی حفاظت کی دوڑ میں مشغول ہےں اور رہیں گے۔ صدر زرداری تو وقت سے پہلے یعنی کل ہی 30 جولائی کو لنگڑی بطخ ہو جائیں گے وہ تو شاید واپس بھی نہ آئیں کیونکہ بلال شیخ کے المناک واقعہ کے بعد وہ بے بس، بے یارو مدد گار سے نظر آتے ہےں۔ باقی لیڈروں کو تو کوئی پوچھتا ہی نہیں وہ صدر ذمہ داری کی خصوصی لسٹ جس میں جگری یار اور دولت بناﺅ پارٹی شامل تھی اب بکھر چکی ہے۔

کنور دلشاد....شاہراہ دستور سے

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...