مجید نظامی کی یاد میں

44 ء کا سن تھا۔ حمید نظامی مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی قیادت کر رہے تھے۔ سٹوڈنٹس کمیونٹی، پاکستان کی آمد آمد کے لئے عش عش کر رہی تھی۔ اسی زمانہ میں حمید نظامی نے نوائے وقت کی بھی داغ بیل ڈالی۔ نوائے وقت اس وقت ہفتہ وار ہوا کرتا تھا جو آہستہ آہستہ ڈیلی بنا۔ ان کے ہم عصر حامد محمود بھی اس وقت ان کے ساتھ تھے۔ یہ ادارہ اس وقت ایک ہفتہ روزہ قندیل بھی شائع کرتا تھا۔ میں آٹھویں نویں جماعت میں تھا کہ نوائے وقت کو پڑھنا شروع کیا۔ ان دنوں میں نے نوائے وقت کو ایک مراسلہ بھیجا کہ سکولوں میں فیس نہیں ہونی چاہیئے اور کالجوں میں صرف مناسب سی فیس ہو۔ یہ مراسلہ چھپ گیا اور قسم قسم کی بحث و تمحیص شروع ہوگئی۔ یہ رشتہ ناطہ بڑھتا گیا۔ بالخصوص ایک فری لانس (Free lance) صحافی کی حیثیت سے لکھت پڑھت کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ دن کو پڑھتا تھا تو شام کو صحافت سے مستفیض ہوتا ۔ حمید نظامی میری حوصلہ افزائی کرتے تھے۔
1950-52 کا زمانہ تھا کہ میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہا تھا ـ یعنی ایل ایل بی اور ساتھ ہی جرنلزم اور پولیٹیکل سائنس کی تعلیم کہ حمید نظامی کے بھائی مجید نظامی بھی وہاں تھے۔ بعد میں میں کیریر کی دیوی سے منسلک ہوگیا اور مجید نظامی بار (Bar) کرنے لندن چلے گئے۔ وہ وہاں نوائے وقت کی نمائندگی بھی کرتے تھے۔ وہ تقریباً وہاں دس سال رہے۔ گویا ان کا تعلق صحا فت سے 70سال سے کم نہیں۔ ان کا نکاح بھی لندن میں ٹیلیفون پر ہوا۔ بیگم صاحبہ نکاح کے بعد ان کے ہاں لندن گئیں۔ خدا مغفرت کرے۔ میں نے ایک دن بیگم صاحبہ سے پوچھا کہ اگر مجید آپ کو ایئر پورٹ پر لینے نہ آتے تو آپ کیا کرتیں۔ بلاتامل بولیں واپس چلی آتی۔ بیگم صاحبہ، شائستہ خاتون تھیں اور بذلہ سنج ۔
مجید نظامی واپس آئے تو ایک ہوٹل میں چائے نوش فرما رہے تھے۔ مجید تو مجھے ویسے ہی لگے لیکن میں شاید بدل چکا تھا ۔ جب میں آگے بڑھا تو کہا میں نے پہچانا نہیں۔ جب میں نے انہیں رو شناس کرایا تو ان کی باچھیں کھل گئیں ۔ یقیناً صرف میرے لئے نہیں بلکہ کئی اور یادوں سے: زبیدہ (بیدی گوری)، پروین اور جمیلہ بالخصوص اسلم سکھیرا اور عاشق (وغیرہ)اور پروفیسر فرٹزر جو استادی کے فن میں یکساں تھے۔ وہ وفور شوق میں آکر وقتاً فوقتاً سائیکالوجی پڑھاتے پڑھاتے کہہ جاتے کہ ــ"Suppose I fall in love with you" ’’فرض کیجیے کہ میں آپ سے محبت میں مبتلا ہو جائوں تو کلاس میں لڑکیاں مسکرا دیتی اور لڑکے کھل کھلا پڑتے۔ وہ جرمن النسل تھے بعد میں ایک پاکستانی لڑکی کے ساتھ واپس چلے گئے۔ مجید کی ان سے لندن میں ملاقات رہتی۔ میں اور مجید نظامی اکثر ملتے رہے۔ وہ
جب کراچی آتے میرے گھر اور میں جب لاہور جاتا تو لنچ ان کے ساتھ۔ لا ایند آرڈر کی وجہ سے وہ کراچی کم آتے لیکن میں بدستور لاہور جاتا رہتا اور ان کے ساتھ لنچ سے مستفیض ہوتا رہتا تھا۔
حمید نظامی 60 ء کی دہائی کے دوسرے سال میں علیل ہوئے۔ جب علالت بڑھی تو انہوں نے مجید کو لندن سے بلا بھیجا۔ اس وقت نوائے وقت اپنا لوہا منوا چکا تھا۔ مجید نظامی کے آنے کے چند گھنٹوں بعد حمید نظامی ا ﷲ کو پیارے ہوئے تو انہوں نے نوائے وقت کی ذمہ داری اُٹھالی اور نوائے وقت کے معیار اور شعار کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ بعد میں بڑھایا۔ چند حالات کی بنا پر انہوں نے ایک اور اخبار ندائے ملت کی بنیاد بھی ڈالی۔ بعدازاں ندائے ملت ایک پریس اور نوائے وقت ایک اخبار کی صورت میں قائم و دائم ہیں۔ مجید نظامی نظریہ پاکستان پر یقین رکھتے تھے اور ادارہ نوائے وقت جس میں اس ادارے کا انگریزی کا موقر و موثر ’ نیشن‘ بھی شامل ہے نظریہ پاکستان کی پرچار کرتے رہے۔ جب انہوں نے نیشن اخبار نکالا تو میں نے انہیں کہا کہ آپ تو اُردو کے حامی ہیں یہ انگریزی اخبار کیوں؟ کہنے لگے یہ آپ جیسے لوگوں کے لئے ہے! بہرحال، بات نظریہ پاکستان کی ہو رہی ہے تو بر صغیر پاک وہند ایک قدیم خطہ ہے ۔ یہاں پر مسلمانوں نے بھی صدیوں حکومت کی ہے۔ انگریز کے وقت مسلمانوں کا زور ٹوٹتا گیا تو ایک وقت آیا کہ مسلمانوں کو اپنے حقوق کی بحالی لازم نظر آنے لگی۔ ابتدا تو سرسید احمد خان سے ہوئی۔ مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی کا کردار بیش مایہ تھا۔ پاکستان کا حقیقی تصور علامہ اقبال کا اور تکمیل جناب قائدِ اعظم نے کی۔ منجملہ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے وقت ، اس سے پہلے اور بعد میں بھی مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی یہ ذکر آیا ہو کہ پاکستان صرف مسلمانوں کا ملک ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان ترقی پسند مسلم سیکولر سٹیٹ ہے۔ جہاں پر ہر مذہب کے لوگ اپنے اپنے طریقے سے اپنی زندگیاں گزار سکتے ہیں اور منجملہ یکساں حقوق کے حق دار ہیں، اس نظریہ پر کبھی کبھی تنقید بھی ہوتی ۔ میں نے مجید نظامی کے ہاں کبھی اس نظریہ کی تردید نہیں سنی۔ یعنی کہ پاکستان ایک ترقی پسند مسلم سیکولر سٹیٹ ہے جس پر وہ قائم و دائم ہے۔ مگر مجید نظامی مانتے نہیں تھے کہ نوائے وقت سیکولر اخبار ہے۔ ان کا قول تھا پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہونے والا ایک جدید اسلامی فلاحی جمہوری ملک ہے۔ اور اس حوالہ سے نوائے وقت بھی!
پاکستان کے اس نظریے کے تحت مجید نظامی جہاد کرتے رہتے تھے، بڑوں بڑوں سے ٹکر لے لیتے تھے۔ نوائے وقت کے متن پر لکھا ہے کہ ’ بہترین جہاد جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے‘۔ بھٹو صاحب کا وقت تھا۔ مجید نظامی جناح باغ میں صبح صبح سیر کرتے تھے اور میں بھی کراچی سے لاہور آتا تھا تو اکثر ان کے ساتھ سیر میں شامل ہوتا تھا۔ مسعود محمود، جو اس وقت فیڈرل سکیورٹی فورس کے ڈائریکٹر جنرل تھے، نے جب مجھے ان کے ساتھ سیر کرتے دیکھا تو مجھ سے پوچھا کہ آپ مجید نظامی کو کس قدر جانتے ہیں۔ جب میں نے تمام سیاق و سباق بتائے تو کہنے لگے میں ان سے ملنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ ایک دن سیر کرتے کرتے ہوٹل میں جہاں میں ٹھہرتا تھا اور مسعود محمود بھی ٹھہرتے تھے، تو مجید نظامی اور مسعود محمود دونوں میرے کمرے میں ناشتے پر اکٹھے ہوئے۔ مسعود محمود نے کہا کہ وہ ان کے لئے بھٹو صاحب کا پیغام لے کر آئے ہیں ۔ پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ادارہ نوائے وقت کی حمایت ! مجید نظامی نے کہا کہ نوائے وقت ایک نظریاتی اخبار ہے۔ نوائے وقت کا نظریہ پاکستان کا نظریہ ہے۔ یعنی سیاسی، معاشی اور سماجی ہر لحاظ سے پاکستان کا نظریہ۔ جب تک بھٹو صاحب اس نظریہ پر قائم ہوں گے ادارہ نوائے وقت ان کی حمایت کرتا رہے گا۔ بھٹوصاحب تو بھٹو صاحب، مسعود محمود بھی اس قسم کا کھرا کھرا جواب سننے کے عادی نہ تھے۔ یہ جواب سن کر مسعود محمود چپ ہی ہوگئے۔ ایک دفعہ بھٹو صاحب سے مجھے ملنے کا اتفاق ہوا تو انہوں نے گلہ کیا کہ مجید نظامی میرے سیاسی، معاشی اور سماجی نظام کو نظریہ پاکستان کے خلاف کیوں سمجھتے ہیں! (جاری)

ای پیپر دی نیشن