اسلام آباد+ لاہور (سپیشل رپورٹر+ ایجنسیاں) وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ملکی مفاد کے معاملات میں تمام سیاسی قوتوں کا اتفاقِ رائے وقت کی اہم ضرورت ہے، جمہوری استحکام میں جماعت اسلامی کا کردار قابل تحسین ہے۔ گزشتہ روز یہاں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سے بات چیت کررہے تھے جنہوں نے وزیر داخلہ سے ملاقات کی۔ ملاقات میں ملک میں امن و امان جوڈیشل کمشن رپورٹ اور مجموعی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ ہمیں ملکی مفاد کو ترجیح دینی چاہئے اور تمام سیاسی قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوکر ملک کی بقاء کی بہتری کیلئے فیصلے کرنے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت کے استحکام اور ملک میں سیاسی بحران کے خاتمے کیلئے جماعت اسلامی اور سراج الحق نے مثبت کردار ادا کیا جس پر وہ داد کے مستحق ہیں ۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ جماعت اسلامی ملک کے مفاد، جمہوری نظام کے استحکام اور اسلامی نظام کی ترویج کی ہر کاوش میں پیش پیش ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے ملکی معیشت میں استحکام آیا ہے ، کچھ قوتیں جمہوریت کو نقصان پہنچانے کیلئے متحرک ہیں لیکن انہیں مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ دریں اثناء لاہور میں جماعت اسلامی میڈیا سیل کی طرف سے جاری بیان میں سراج الحق نے کہا کہ اگر حکمران سال میں صرف ایک ڈیم بھی بناتے تو آج ہمارے پاس 68ڈیمز ہوتے لیکن بے حس حکمرانوں نے ایسا نہیں کیا۔ بھارت 23بڑے ڈیمز بنا رہا ہے جس سے پاکستان کے دریائوں کا پانی خشک ہو جائے گا اور نتیجتاً ہماری زمینیں بنجر ہو جائیں گی۔ میں کہتا ہوں کہ پاکستان میں 100ڈیم بننے چاہئیں، حکمران بتائیں اگر کالاباغ ڈیم متنازعہ ہے تو پھر بھاشا ڈیم پر کیوں کام آگے نہیں بڑھ رہا۔ انہوں نے کہا ہم افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات کی مکمل تائید کرتے ہیں اگر ملاعمر وفات پا گئے ہیں تب بھی مذاکرات جاری رہنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ چند سیاسی لیڈروں نے 200بلین ڈالر بیرون ملک بنکوں میں چھپا رکھے ہیں۔ یہ پیسہ ملک میں واپس آ جائے تو ہمارے تمام قرضے ختم ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہے کہ یہاں پر اسلامی انقلاب کی جدوجہد کرنے والے مخلص اور باکردار لوگوں کو منتخب کیا جائے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ہمارے نزدی کملک کے تین بنیادی مسائل، لوڈشیڈنگ، بیروزگاری اور بدامنی ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان چار، چار ڈگریاں لینے کے باوجود بے روزگار پھر رہے ہیں۔