اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+آن لائن) سپریم کورٹ نے ملک بھر میں غیر قانونی این جی اوز کے مقدمے کی سماعت لاء اینڈ جسٹس کمشن کی میٹنگ کی وجہ سے ایک ہفتے کے لئے موخر کر دی۔ دوران سماعت بدھ کے روز دو رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ملک کے تمام اداروںنے کچھ نہیں کیا جو کچھ بھی کرنا ہے لگتا ہے کہ اب سپریم کورٹ کو ہی کرنا ہے۔ پولیس نے مقدمہ درج نہیں کرنا ، این جی اوز کے حوالے سے حکومت نے کچھ نہیں کرنا۔ پھیپھڑوں کے امراض سے لوگ مر جائیں کسی نے کچھ نہیں کرنا ۔ یہ سب بھی عدالت نے کرنا ہے اگر ہم اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں تو بتایا جائے ہم تمام فائلیں بند کر دیں گے۔ نیشنل ایکشن پلان کو آئے 7 ماہ 4 دن ہو گئے حکومتوں نے نہ کچھ کرنا ہے اور نہ کچھ کیا ہے۔ ملک میں تباہی پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے۔ جسٹس دوست محمد نے ریمارکس دیئے کہ غیر ملکی این جی اوز کی تحقیقات ملک میں داخلے سے قبل ہی ہو جانی چاہیئے تھیں یہ امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کیا کر رہا ہے۔ این جی اوز کی تمام تر سرگرمیاں مانیٹر ہونی چاہئیں آپ نے پاکستان کو میکسیکو بنایا ہوا ہے جس مافیا کا جی چاہتا ہے پاکستان میں آ جاتا ہے۔ فنڈنگ دشمن کر رہا ہو یا کوئی اور اس کا کسی کو علم تک نہیں۔ اگر ایک گولی بھی غیر ملکی فنڈنگ سے خریدی گئی اور اس سے ہمارا سپاہی شہید ہوا ہو تو اس حوالے سے اب تک کیا کارروائی کی گئی ہے۔ سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمشن نے رپورٹ پیش کرنا تھی مگر چیف جسٹس کی زیر صدارت ہونے والے اہم اجلاس کی وجہ سے پیش نہ کر سکے۔ چاروں صوبائی حکومتوں نے بھی مکمل رپورٹ جمع نہیں کرائی۔ پنجاب حکومت کی طرف سے رزاق اے مرزا نے بتایا کہ پنجاب میں 47 ہزار 403 این جی اوز کام کر رہی ہیں۔ 13482 مدارس ہیں این جی اوز کو 31 فیصد بیرونی فنڈنگ مل رہی ہے۔ 69 فیصد مقامی لوگ فنڈنگ کر رہے ہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ پنجاب میں 4 کالعدم تنظیموں کو بین کیا گیا ہے جن میں رحمت ٹرسٹ، الرشید ٹرسٹ، انصاریہ اور سپاہ صحابہ شامل ہیں۔ داعش کو بھی 24 جولائی کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ وفاق اور صوبائی حکومتیں متحرک نہیں ہیں ہر جگہ تباہی مچ رہی ہے جب تک بنیادی معلومات نہیں ہوں گی، کچھ بھی نہیں ہو سکے گا۔ بلوچستان کی طرف سے لاء افسر پیش ہوئے اور انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس کوئی معلومات نہیں آ سکی ہیں ۔ اشتہار دیا تھا کہ این جی اوز اپنا آڈٹ کرائیں اس پر جسٹس خواجہ نے کہا کہ بلوچستان پرامن صوبہ ہے دور دور تک خرابی کے کوئی آثار نہیں۔ بلوچستان میں کسی کو معلوم نہیں کہ فنڈنگ کہاں سے آ رہی ہے۔ تمام چیف سیکرٹریز پر واضح کیا جائے کہ معاملہ انتہائی حساس ہے ۔ کے پی کے میں 10 ہزار این جی اوز کام کر رہی ہیں ابھی تک صرف ایک ادارہ سامنے آیا ہے وہ بھی چیک بائونس ہوا تو پتہ چلا تھا۔