9 جولائی 2016ءکو حضرت قائداعظمؒ کی ہمشیرہ ، محترمہ فاطمہ جناح کی 49 ویں برسی منائی گئی اور آج (30 جولائی کو ) اُن کا 123 واں یوم ولادت ہے ۔ سابق صدرِ جنرل پرویز مشرف کے دَور میں سال 2003ءکو مادرِ مِلّت کا سال قرار دِیا گیا اور پورے مُلک میں جشنِ مادرِ مِلّت بھی منایا گیا۔ اُس کے بعد جنابِ آصف علی زرداری اور وزیراعظم میاں نواز شریف نے جان بوجھ کر اُس عظیم لیڈر کی قومی خدمات کو فراموش کردِیا ۔
جنابِ آصف زرداری کے والدِ مرحوم جناب حاکم علی زرداری کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ ” مولانا حسرت موہانی، قائداعظمؒ سے بھی بڑے لیڈر تھے “۔ جنابِ آصف زرداری نے اپنے والد کے اِس بیان پر خاموش ہیں اور مسلم لیگ کے نام سے کاروبارِ سیاست کرنے والی ہر سیاسی جماعت کے قائدین بھی ۔ آصف زرداری صدرِ پاکستان تھے جب اُنہوں نے اپنی خوشدامن بیگم نُصرت بھٹو کو ” مادرِ جمہوریت“ کا خطاب دِیا اور کہا تھا کہ ”مادرِ جمہوریت بیگم نُصرت بھٹو جمہوریت پسندوں کے لئے مینارہ¿ نور ہیں “۔
بیگم نُصرت بھٹو کو ” مادرِ جمہوریت“ قرار دینے پر جنابِ بھٹو کی رُوح ضرور خوش ہوگئی ہوگی۔ 2 جنوری 1965ءکے صدارتی انتخاب میں مادرِ مِلّت صدر محمد ایوب خان کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں اُتریں تو اُن کی عوامی مقبولیت دیکھ کر صدر ایوب خان خوف زدہ تھے کہ ” کہیں الیکشن کمِشن اُنہیں سرکاری ملازم (فیلڈ مارشل) ہونے کی وجہ سے صدارتی انتخاب کے لئے نا اہل قرار نہ دے دے“۔ اِسی وجہ سے اُنہوں نے اپنے دو چہیتے وزیروں ذوالفقار علی بھٹو اور محمد شعیب قریشی کو اپنا "Covering Candidate" نامزد کردِیا ۔اِسی طرح کا خوف صدارتی امیدوار بننے کے بعد ستمبر 2013ءمیں جنابِ زرداری کو بھی تھا ۔
اُنہوں نے اپنی ہمشیرہ محترمہ فریال تالپور کو اپنی "Covering Candidate" نامزد کِیا تھا۔ انہی دِنوں یہ خبر بھی میڈیا کی زینت بنی کہ ” جناب آصف زرداری نے پاکستان میں امریکی سفیر سے درخواست کی ہے کہ ”اگر مجھے کچھ ہو جائے تو میری ہمیشرہ کا خیال رکھا جائے “ ۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ جنابِ زرداری کو فی الحال کچھ نہیں ہُوا ۔ مفسرِ نظریہ¿ پاکستان ڈاکٹر مجید نظامی صاحب نے محترمہ فاطمہ جناحؒ کو مادرِ مِلّت کا خطاب دے کر اُنہیں صدارتی انتخاب لڑنے پر آمادہ کِیا تھا۔ مادرِ مِلّت سرکاری جماعت کنونشن مسلم لیگ کی سب سے بڑی مخالف جماعت کونسل مسلم لیگ کی امیدوار تھیں ۔ پھر متحدہ اپوزیشن نے اُنہیں اپنا امیدوار بنا لِیا۔ تحریکِ پاکستان کے دوران پاکستان کی مخالفت کرنے والے مولانا مودودی صاحب کی جماعت اِسلامی اور ” سرحدی گاندھی“ خان عبدالغفار خان کے صاحبزادے خان عبدالولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی نے بھی مادرِ مِلّت کی کُھل کر حمایت کی۔
صدارتی انتخاب سے پہلے حکومت / الیکشن کمِشن نے بددیانتی یہ کی کہ پاکستان کے ہر عاقل، بالغ مرد اورعورت کو ووٹ کے حق سے محروم کردِیا۔ صِرف 80 ہزار ارکانِ بنیادی جمہوریت کو ووٹ دینے کا حق دِیا ۔اسلام میں عورت کی سربراہی کی مخالفت کرنے والے کانگریسی مولویوں کی باقیات مادرِ مِلّت کے خلاف تھیں ۔ مولانا فضل اُلرحمن کے والد مولانا مفتی محمود نے اِسی وجہ سے فیلڈ مارشل ایوب خان کی حمایت کی تھی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے دونوں ادوار میں مولانا فضل اُلرحمن اُن کے اتحادی رہے ۔ کئی بار محترمہ سے مولانا صاحب کی ملاقات کی مطبوعہ تصویروں میں ....
” نگاہیں نیچی کئے، سر جُھکاکے بیٹھے ہیں!“
کے مناظر تھے ۔ جنابِ ذوالفقار علی بھٹو نے نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش میں ” بڑے ملزم کی حیثیت سے “ گرفتار ہونے سے قبل بیگم نصرت بھٹو کو پارٹی کی قائمقام چیئرپرسن مقرر کردِیا تھا ۔ حالانکہ یہ حق پارٹی کے سینئر چیئرمین بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید کا تھا ۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد چیئرپرسن بیگم نصرت بھٹو نے اپنی بیٹی بےنظیر بھٹو کو ”شریک چیئر پرسن“ مقرر کردِیا حالانکہ پارٹی کے آئین میں ” چیئرپرسن“ کا عہدہ ہی نہیں تھا۔ اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور میں شریک چیئرپرسن بے نظیر بھٹو نے 10 دسمبر 1993ءکو پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے 33 ارکان کو طلب کِیا اور چیئرپرسن ( اپنی والدہ¿ محترمہ) کو برخاست کر کے خود چیئرپرسن شِپ سنبھال لی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے پارٹی کی کسی بھی شخصیت کو شریک چیئرپرسن نہیں بنایا۔ اُنہوں نے اپنی زندگی میں اپنے ” شوہر نامدار“ کو پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا ۔ اُن کے قتل کے بعد ”شریک چیئرمین “ کا عہدہ جنابِ زرداری نے خود سنبھال لِیا۔
بیگم نصرت بھٹو ، بے نظیر بھٹو ، بیگم نسیم ولی خان اور سیاسی گھرانوں کے ” لیڈروں کی بیگمات ، بیٹیاں اور دوسری رشتہ دار خواتین مادرِ مِلّتؒ کی تقلید میں عوامی سیاست میں آئیں یا لائی گئیں اور اب وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز آ چکی ہیں ۔قائداعظم ؒنے گورنر جنرل پاکستان بننے کے بعد اپنی ہمشیرہ کومسلم لیگ یا حکومت میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا ۔ جو مولوی حضرات انتخابات میں خواتین کے ووٹ دینے کو بھی خلافِ اسلام سمجھتے تھے، وہ اب اپنی با حجاب گھریلو خواتین کو پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی میں لے آئے ہیں ۔
سرگودھا میں تحریکِ پاکستان کے نامور کارکن میرے بزرگ ( مرحوم) دوست قاضی مُرید احمد مجھے اور میرے صحافی دوست تاج اُلدّین حقیقت کو کونسل مسلم لیگ کے مندوبین کی حیثیت سے لاہور لے کر آئے تھے اور اُنہوں نے میاں منظر بشیر کے گھر ”المنظر“ میں مادرِ مِلّت سے ہماری ملاقات بھی کرائی تھی۔ تحریکِ پاکستان کے دو کارکنوںپاکپتن کے میاں محمد اکرم اور انفارمیشن گروپ کے سینئر رُکن پروفیسر محمد سلیم بیگ کے والد مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری سے میری پہلی ملاقات ” المنظر “ میں ہی ہُوئی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد میاں محمد اکرم اور مرزا شجاع اُلدّین بیگ نے مہاجرین کی آباد کاری میں اہم کردار ادا کِیا ۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ 1964ءکی صدارتی مہم کے دوران مَیں سرگودھا میں ” نوائے وقت “ کا نامہ نگار تھا ۔ مجھے 28 سال کی عُمر میں سرگودھا اور پنجاب کے مختلف شہروں میں مادرِ مِلّت کے جلسوں میں جمہوریت کی بحالی کے خواہش مند جمہور کے ٹھاٹھیں مارتے کئی سمندروں کو دیکھنے کا موقع مِلا اور آمریت کے خلاف مادرِ مِلّت کا جوش خطابت بھی ۔
مَیں نے 61 ھ (680ئ) میں واقعہ¿ کربلا کے بعد کوفہ سے شام کے سفر ، شام کے بازاروں اور پھر یزید کے دربار میں بنتِ علیؓ حضرت زینبؓ کے خُطبات کو پڑھا تھا اور مورخین کا یہ تبصرہ بھی کہ” ایسا معلوم ہوتا تھا گویا حضرت علی مرتضیٰ ؓ خُطبہ دے رہے ہیں“۔ قیامِ پاکستان کے وقت مَیں 11 سال کا تھا ۔مَیں نے حضرت قائدِاعظمؒ کی تقریریں نہیں سُنیں۔ میرے بزرگوں نے سُنی تھیں۔ آج مَیں سوچ رہا ہُوں کہ ”` حضرت زینبؓ کے خُطبات اور مادرِ مِلّت کی جدوجہد میں صِرف 1284ءسال کا فرق ہے ۔ لیکن ابھی تک جمہورِ کو اُس جدوجہد کے ثمرات نصیب نہیں ہُوئے ۔ مَیں کسی دِن علاّمہ اقبالؒ ، قائداعظمؒ ، مادرِ مِلّت ؒاور جناب مجید نظامی کے مزاروں پر جا کر اُن سے ضرور پوچھوں گا کہ ”پاکستان کے جمہور کو اِسلامی ،جمہوری اور فلاحی مملکت کب نصیب ہوگی ۔ابھی اُنہیں اور کِتنے سالوں کا سفر کرنا ہوگا اور اُن کے لیڈر کا ظہور کب ہوگا؟“۔