خلش

Jul 30, 2017

فضل حسین اعوان....شفق

میں تمباکو نوش نہیں ہوں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کبھی سگریٹ اور حقہ نہیں پیا۔ بچپن میں شاید کچی پکی میں پڑھتا تھا، گائوں میں میلا تھا گھر سے شاید ایک آنہ ملا تھا اس سے ایک ریڈ لیمپ اور ایک ماچس خرید لی، اسکے بعد بھی ایک دو پیسے بچ گئے تھے۔ لیمپ کی ڈبی میں 10سگریٹ ہوتے تھے۔ سگریٹ سلگاتا، کش لگاتا، گلیوں میں گھوم رہا تھا۔ چار پانچ ہم عمر آگے پیچھے، سوٹا لگوانے کی فرمائش کرتے چل رہے تھے۔ حیران ہوتا ہوں اس دور میں گھر سے یکمشت ایک آنہ بھی کیسے مل گیا۔ گمان غالب ہے ابا جی کی جیب یا امی کے پیالی میں سبزی کیلئے رکھے ہوئے پیسوں میں ایک آنہ اچک لیا تھا۔ بہرحال چار پانچ سگریٹ پیئے تو سرچکرانے لگا، قے شروع ہو گئی، شام تک بخار بھی ہو گیا، اسکے بعد کبھی سگریٹ نہیں پی۔ البتہ سگریٹ پینے کے کئی سٹائل دلکش ضرور لگتے ہیں۔رفیق غوری صاحب کا سگار پینے کا سٹائل دلنشیں لگتا تھا۔ انکے سامنے ذکر کیا تو انہوں نے سگار گفٹ کر دیا، میں کبھی کبھی سگار کے کش لگاتا تھا، بغیر اس میں تمباکو رکھے۔ معاذ ہاشمی اُردو بازار لاہور میں پبلشر ہیں۔ ایک سگریٹ بجھاتے تو دوسرا سلگا لیتے ہیں، صوفے پر نیم دراز ہو کر دھوئیں کے عجیب سے مرغولے بناتے ہیں۔ متعدد کتابیں لکھ چکے ہیں، ان میں سے کئی کے خود بھی مصنف ہیں۔ بینظیر بھٹو کی کتاب ’’دی کنسی لی ایشن‘‘ کا ترجمہ’’مفاہمت‘‘ ڈاکٹر جہانگیر بدر نے کیا۔ معاونت معاذ ہاشمی نے کی۔ ا جہانگیر بدر نے پی ایچ ڈی کی، اس کا تھیسز معاذ ہاشمی کو زبانی یاد ہے حالانکہ انہوں نے تھیسزکبھی پڑھا بھی نہیں!۔ مرحوم جہانگیر بدر شاہ خرچ اور ان لوگوں میں سے تھے جو پیسے کو پیسہ نہیں سمجھتے۔
انکی کئی کتابوں میں معاذ ہاشمی نے معاونت کی جس کے بقایا جات کے پانچ چھ لاکھ شاید مرحوم ڈاکٹر صاحب پر واجب الادا ہیں۔ جہانگیر بدر کے بیٹے بیرسٹر علی بدر بھی والد کی طرح پیسے کو پیسہ نہیں سمجھتے جن لوگوں نے مرحوم جہانگیر بدر کے انتقال پر ان کیلئے اخبارات یا ٹی وی چینلز پر کلمہ خیر کہا، علی بدر ایڈووکیٹ نے ان کو رائیونڈ روڈ پر وراثت میں ملی‘ دس کنال کی رہائش گاہ پر ناشتے پر بلایا جس میں چائے رکھنا بھول گئے یا چائے اور لسی کا کمبینیشن مہمانوں کے ہاضمے کیلئے مضر سمجھ لیا۔ میں نے جہانگیر بدر کی یاد میں کالم لکھا، جناب قیوم نظامی نے فون کرکے اظہار تشکر کیا اور کہا کہ انہوں نے علی بدر کو کالم کے بارے میں بتایا ہے، وہ آپ سے فون پر بات کرینگے۔دوسرے نیٹ وک پر کال چارجز تین روپے فی منٹ ہیں، شاید اس لئے انہوں نے فون نہ کیا ہو۔
جہانگیر تادم آخریں پاکستان پیپلزپارٹی کے سیکرٹری جنرل رہے۔ بینظیر بھٹو نے مشرف دور میں لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا، اسے ناکام بنانے کیلئے محترمہ کو لطیف کھوسہ کی رہائش گاہ پر ڈیفنس میں نظر بند کردیا گیا۔ شاہ محمود قریشی اتمام حجت کیلئے چند گاڑیوں کے قافلے میں ’’دھوڑیں پٹتے‘‘ یہ جاوہ جا ہو گئے، جہانگیر بدر معاذ ہاشمی کوچھوٹا بھائی کہتے تھے۔ بینظیر بھٹو کے ساتھ کبھی کبھی ملاقاتوں میں معاذ بھی بدر کے ساتھ ہوتے۔ سرگودھا کے ایک حکیم نے ہربل کریم بنائی، اس حکیم کی پرنٹنگ کا کچھ کام معاذ نے کیا تھا۔ اس نے کریم کی ایک ڈبیہ معاذ کو انکی اہلیہ کیلئے تحفتاً بھجوا دی۔ وہ انکے پاس تھی کہ بدر کے ساتھ ان کا محترمہ سے ملنا ہوا۔ محترمہ نے انکے ہاتھ میں ڈبیہ دیکھ کر پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ معاذ نے بتایا کہ کریم ہے، اسکی خوبی یہ ہے کہ اس سے کیمرہ لائٹ ریفلیکٹ نہیں ہوتی اور میں یہ آپ کیلئے لایا ہوں۔ محترمہ بھی پیسے کو پیسہ نہیں سمجھتی تھیں۔ انہوں نے شکریے کے ساتھ رکھ لی۔ ڈیڑھ ماہ بعد جہانگیر بدر کا انہیں فون آیا اور کہا محترمہ آپ کا پوچھ رہی ہیں اور فوری طور پر ملنا چاہتی ہیں، جلد ہی آئو۔ معاذ انکے ساتھ لطیف کھوسہ کے گھر گئے جہاں محترمہ نظر بند تھیں۔ علیک سلیک کے بعد محترمہ نے ہر بل کریم کی بڑی تعریف اور مزید کی ڈیمانڈ کی۔ انہوں نے پوچھا کتنی چاہئیں۔ ایک درجن لا دیں، محترمہ نے جواب دیا۔ معاذ ہاشمی نے وہیں بیٹھے بیٹھے اپنے دوست حکیم صاحب کو فون کرکے ماجرا گوش گزار کیا۔ انہوں نے بغیر لگی پٹی کے کہا کہ اسکی مارکیٹ قیمت آٹھ ہزار روپے ہے۔ رعایت کرکے پانچ ہزار میں دے دونگا۔ معاذ نے جہانگیر کے کان میں قیمت بتائی تو انہوں نے کہا منگوا لیں پیسے مل جائینگے۔ معاذ نے پہلے پیسے دینے کو کہا تو بدر صاحب ذرا ناراض ہوئے۔ محترمہ نے دونوں کو کھسر پھسر کرتے دیکھا تو پوچھا، کیا بات ہے معاذ نے جھجکتے ہوئے کریم کی قیمت بتائی تو محترمہ نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہ فی الحال دو منگوا لیں۔ اسکے ساتھ ہی پرس کھولا، اس میں سے دس ہزار روپے نکال کر معاذ کی طرف بڑھائے اور ان سے پکڑنے سے پہلے ایک بار پھر اپنی طرف کئے اور پانچ ہزارپرس میں رکھتے ہوئے کہا ایک ہی کافی رہے گی۔
میاں نوازشریف بھی پیسے کو پیسہ نہیں سمجھتے، فراخ دل اور شاہ خرچ واقع ہوئے ہیں، انکے ایک افسر خاص نوے کی دہائی کا واقعہ بیان کرتے ہیں جب میاں صاحب نے اس کمپٹرولر سے کہا کہ آج وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف اور وزیر پٹرولیم چودھری نثار علی خان انکے مہمان ہونگے ان کو میری طرف سے کھانا کھلانا ہے، اس افسر نے اہتمام کے ساتھ کھانے کا بندوبست کیا۔ آخر میں میاں صاحب کے سامنے 12سو روپے کا بل رکھا تو انہوں نے اپنی انگلیوں پر جمع تفریق کی اور شاید ’’نیفے‘‘ سے نکال کر چھ سو روپے اسکی طرف بڑھا تے ہوئے کہا یہ لو میرے حصے میں اتنے ہی آتے ہیں۔ باقی ادائیگی اس نے جیب سے ادا کئی۔میاں صاحب نے اپنے حصے کا بل ادا کیا یا انہیں شک تھا کہ افسر نے بل ڈبل کرکے پیش کیا ہے۔
شوکت علی شاہ ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان تھے، جن کی زید بن سلطان النہیان سے ڈی سی ہو نے کے ناطے پاداللہ تھی، وزیراعلیٰ نوازشریف نے شیخ زید سے ملاقات کرانے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے ملاقات کرا دی۔ میاں صاحب نے شیخ زید کیلئے کوئی تحفہ بھجوانے کی بات کی۔ ڈی سی صاحب نے بادام، چلغوزے، پستے ، اخروٹ وغیرہ دس دس کلو گرام کے پیکٹ بنوا کر میاں صاحب کی طرف سے ابوظہبی بھجوا کر 28ہزار روپے کا بل وزیراعلیٰ ہائوس روانہ کر دیا۔ اسکی کئی ماہ ادائیگی نہ ہو سکی۔ لاہور میں ایک میٹنگ کے دوران شوکت علی شاہ نے بل یاد دلایا تو میاں صاحب نے کہا ’’اتنے پیسے کیسے بن گئے‘‘۔
عمران خان کے بارے میں بھی مشہور ہے کہ وہ بھی پیسے کو پیسہ نہیں سمجھتے، اے ٹی ایم انکے ارد گرم گھومتی ہیں۔ ’’جہاز ترین‘‘ سوری جہانگیر ترین کا جہاز استعمال کرتے ہیں، گاڑیاں بھی دوسروں کی بمعہ پٹرول چلاتے ہیں تاہم انکے بارے میں ذاتی تجربہ ناخوشگوار نہیں ہے۔ زمان پارک میں صحافت دوپہر کیلئے تہور تھہیم، اعجاز شریف کے ساتھ زمان پارک میں انٹرویو کیا تھا۔ سہ پہر کے وقت چائے اور بسکٹ وغیرہ رکھے گئے تھے۔ فاروق لغاری کی ملت پارٹی کی کئی دعوتوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ ان میں کبھی کھانا پورا نہیں ہوا۔ چودھری شجاعت اور پرویزالٰہی کا دستر خوان سنا ہے بڑا وسیع ہے۔ وسیع دستر خوانوں کو خدا کبھی سکڑنے نہیں دیتا۔ اللہ کی راہ میں دیں تو دس گنا کا یقین رکھیں جو جائز ذرائع سے ملتا ہے۔ تاہم انسان کی اپنی مرضی کہ جس ذریعے سے بھی حاصل کرے۔جائز طریقے سے منی لانڈرنگ اور جعل سازی و جعلی دستاویزات سے۔
میاں نوازشریف ایک بار پھر زندگی کے مشکل حالات سے گزر رہے ہیں، ماڈل ٹائون سے شروع ہونیوالی سیاست کا براستہ چھانگا مانگا ۔۔۔پانامہ کیس سے ہوتی ہوئی، اب نااہلی پر منتج ہوئی ہے ،ختم نہیںہوئی۔یہ انکی اس دور کی مشکلات کی ابتدا ہے ،وزارت عظمیٰ گئی ،عزت ، وقار اور ساکھ گئی، ابھی مقدمات درج ہونے ہیں جو اعصاب پر مسلط ہونگے۔ میاں صاحب اور انکے خاندان کے بارے میں مزید کہنے کی سردست ضرورت نہیں۔
جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کے گیارہ عزت مآب ممبران نے جو کہہ دیا وہی بہت ہے۔ میاں نوازشریف شاید سو سال سے زائد زندہ رہیں کیونکہ انہوں نے جنرل ضیاء کی زندگی بھی گزارنی ہے۔ اللہ نے تیسری بار وزیراعظم بنایا کچھ تو کمی ہے کہ تینوں بار مدت پوری نہ کر سکے۔ اب ہی سبق سیکھ لیں۔ انکے پاس سیاسی پاور ہے اپنا احتساب تو ہو گیا جن پر خود کرپشن کے الزام لگائے ان سے صرف نظر نہ کریں۔ انکے کرب کو ہر ذی شعور سمجھ سکتا ہے۔ اس میں کمی ضمیر کی خلش مٹا کر اپنی و بچوں کے کاروبار کی پائی پائی اس ملک میں لاکر کی جا سکتی ہے جس نے تیسری بار تاج سلطانی پہنایا۔ یہ پاکستان ہے تاحیات نااہلی اسی طرح اہلیت میں بدلتے دیر نہیں لگے گی جس طرح گریجوایشن کی شرط ختم کرنے ،تیسری بار وزیراعظم بننے کی پابندی ختم کرنے میں دیر نہیں لگی تھی۔ نااہلی کے فیصلے پر ن لیگ اور اسکے حامی جو بھی کہیں مگر یہ ایک معجزہ ہے، معجزے اداروں نہیں خدا کی طرف سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ تکبر کی جتنی بھی عمر ہو آخر کار غرور کا سر چکنا چور ہوتا ہے۔ حرف آخر یہ ہے کہ پیسے کو پیسہ نہ سمجھنے والے پیسے کو جان سمجھتے ہیں۔

مزیدخبریں