اسلام آباد(نوائے وقت رپورٹ) وزیر اعظم آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر راجہ محمد فاروق حیدر خان اور وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان نے مسلم لیگ ن مرکزی قیادت کے تمام فیصلوں کی تائید کرتے ہوئے محمد نوازشریف کو عوامی وزیراعظم قرار دیتے ہوئے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے دورے کی دعوت دی ہے اور کہا ہے کہ کشمیری عوام کو آکر بتائیں کہ آپ کے ہمدرد وزیراعظم کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا ۔نواز شریف پاکستان میں کشمیریوں کا سب سے بڑا حمایتی ہے،گلگت بلستان اور آزادکشمیر کے حل طلب معاملات پر ستر سالوں میں سب سے بڑی پیش رفت میاں نواز شریف کے دور میں ہوئی۔عدلیہ کا فیصلہ آئین ،قانون اور انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتاوزیراعظم کو منتخب کرنا اورمسترد کرناعوام کا اختیا ر ہے ڈیڑھ کروڑ لو گ ووٹ دیکر وزیراعظم بناتے ہیں اور پھر چند لمحوں میں اسے فارغ کر دیا جاتا ہے ۔اپنے قائد کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے ہیں بحران پیدا کرنے کی سازشیں ناکام ہونگی پاکستان میں جب بھی کوئی بحران پیدا کیا جاتا ہے اس سے گلگت اور اور آزاد کشمیربالخصوص مقبوضہ کشمیر کے حالات پر گہرا پر اثر پڑتا ہے کیوں کہ ہمارا وجود اور مستقبل پاکستان کے ساتھ وابستہ ہے عدالتوں نے ہی سارا کام کرنا ہے تو پھر باقی سارے ادارے کیا ختم کر دیے جائیں ؟ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن ، پراسکیوشن ، نیب سمیت سارے اداروں کا اختیار لے لیا اور کہا گیا کہ شفاف ٹرائل ہو گا اور ٹرائل کے بعد ریفرنس بھیجا جائے گا ،لیکن عدالت نے فیصلہ دے کر وزیراعظم سے اپیل کا حق بھی چھین لیا ہے ،فیصلے کے وقت ججز صاحبان کی فیملیز سپریم کورٹ میں کیا کررہی تھی انکے لیے الگ بیٹھنے کا انتظام کیو ں کیا گیا تھا اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے ،نظریہ ضرورت جس کے بارے میں خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ ختم ہو چکا ہے، حالیہ فیصلے سے ثابت ہوا کہ نظریہ ضرورت ابھی زندہ ہے ،امیر جماعت اسلامی سراج الحق ،عمران خان نے وزیراعظم نواز شریف کیخلاف کرپشن کا جو کیس سپریم کورٹ دائر کیا اس کیس کی روشی نے میں ہمیں خوشی ہے کہ سپریم کورٹ میں ہمارے لیڈر پر کرپشن ثابت نہیں ہوئی اور ہمارا لیڈر کرپشن کے پہاڑ جیسے الزامات سے بری ہوا ہے ،عمران خان ،میاں محمد نوازشریف پر اربوں ڈالر کے اثاثوں کی بات کرتا تھا لیکن فیصلے میں ثابت ہوا کہ میاں محمد نواز شریف نے پیسے لیا نہیں جو انکا اثاثہ بن گیا اس فارمولے پر آئندہ کوئی بھی نہیں بچ سکتا ، میاں محمد نواز شریف کے کاغذات نامزدگی میں اقامہ کی دستاویزات لف ہیں اور اقامہ کا خانہ نہ کی وجہ سے پر نہیں ہوا ، ایک چیز جو میں نے لی ہی نہیں وہ میرا ثاثہ کیسے ہو سکتی ہے ، دو لاکھ سے وزیراعظم نوا ز شریف جیسا بڑا آدمی کیا بنائے گا ، حقیقت تو یہ ہے کہ اس فیصلے سے نظریہ ضرورت کو زندہ کیا گیا ہے ،عدلیہ کی آزاد ی سب کے لیے ہے ،سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن ، پراسکیوشن ، نیب سمیت سارے اداروں کا اختیار لے لیا اور کہا گیا کہ شفاف ٹرائل ہو گا اور ٹرائل کے بعد ریفرنس بھیجا جائے گا ،لیکن عدالت نے فیصلہ دے کر وزیراعظم سے اپیل کا حق بھی چھین لیا ہے ،فیصلے کے وقت ججز صاحبان کی فیملیز سپریم کورٹ میں کیا کررہی تھی انکے لیے الگ بیٹھنے کا انتظام کیو ں کیا گیا تھا اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے ،کیا ججز کی فیملیز میلے میں آئی تھیں ، جو لوگ فیصلہ کے بعد یہ سمجھ بیٹھے کے نوازشریف کی سیاست ختم ہو گئی انہیں یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے ۔جموں کشمیر ہاوس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوے دونوں راہنماوں نے محمد نوازشریف اور پارٹی قیادت پر مکمل اعتمادکااظہار کیا اس موقع پر آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے وزراءاور اراکین اسمبلی بھی موجود تھے وزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر نے کہا کہ اس فیصلے کے بعد آئندہ جو بھی وزیراعظم بنے گا کٹھ پتلی ہوگا ، عدلیہ ،پارلیمنٹ اور انتظامیہ کا اپنا اپنا دائر کار ہے ، کیا صرف عدلیہ ہی ہے ،کیا آرٹیکل 10اے آئین کا حصہ نہیں ہے نہ شفاف ٹرائل اور نہ قانون شہادت کا حوالہ اور نہ ہی الزامات کا جواب ،جے آئی ٹی پر اعترضات بھی ثابت ہوئے ،جن میں اپنا مفاد اس کیس سے وابستہ تھا ، دو ججز صاحبان نے جے آئی ٹی سے پہلے فیصلہ دیا ،وہ دوبارہ بنچ میں کیا کر رہے تھے ،بنچ میں پہلے تین ججز رکھے گئے پھر پانچ رکھے گئے لگتا ہے عمران خان اور شیخ رشید اپنی گفتگو میں اس فیصلے کے مندرجات بیان کرتے رہے ،اس صورت حال کے پش نظر آمادہ الیکشن انتہائی اہم نوعیت کا ہوگا ، انہوں کے کہا کہ دیکھنا ہوگا کہ وزیراعظم بنانے کا اختیار عوام کے پاس ہے یا کمرہ عدالت کے پاس ،ان ججز نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا ہوا ہے ،تیسری بار منتخب ہونے والا ملک کا وزیراعظم صادق اور امین نہیں تو اور کون ہے ،فیصلے کے صفحہ تین اور چار سو فیصد نظریہ ضرورت کے تحت لکھا گیا ،انہوں نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپکی وساطت سے سوا ل کرتا ہوں کہ کیا آئین کا آرٹیکل 184اور183ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو متنازعہ حقائق پر ٹرائل بغیر فیصلے اختیار دیتا ہے ؟ بحثیت وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے اس عہدے کی جو تضحیک کی گئی انکے خاندان اور بیٹی پر جو جملے کسے گئے اس کے پیش نظر ہم کونسا معاشرہ بنانے جا رہے ہیں ،ایک شخص جو مبینہ طور پر بغیر نکاح کے بیٹی کا باپ ہے ،جو طلاق فیڈریشن کاسربراہ ہے ،کل ٹی وی پر کہہ رہا تھامیں علامہ اقبال کا پاکستان بنانے جا رہا ہوں اس پر مجھے بحثیت کشمیر ی سوچنا ہوگا کیا یہی قائد اعظم اور علامہ اقبال کا پاکستان ہے ،انہوں نے کہا کہ ملک میں بحران پیدا کرنے کی کوشش اور مختلف طبقات کو آپس میں تقسیم کیا جا رہا ہے ،اس ماحول میں ہم آئندہ کے الیکشن میں جا رہے ہیں ،میں مسلم لیگ کے کارکنان کو مبارکباد پیش کرتا ہوںکہ انہوں نے تحمل کا مظاہرہ کیا ورنہ بہت کچھ کیا جاسکتا تھا ،کسی تالے آزما کو موقع نہیں دیںگے کو اقتدار پر قبضہ کرے اس وقت نیشل سکیورٹی کونسل کا کوئی چیئرمین موجود نہیں ہے ،اگر کل اس ملک میں کچھ ہوجائے تو اسکا ذمہ دار کون ہوگا ،وزیراعظم نے الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن سے قبل ہی سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کیا ہے ، اب ذمہ داری ہے وہ کیا کریں گے ،کل بلاول بھٹو نے بات کی وہ چھوٹا بچا ہے ہم پوچھتے ہیں کہ این آر او کس نے کیا ،کس نے کہا تھا کہ وعدے کوئی قران و حدیث نہیں ہوتے ،واضح رہے کہ ہجرت کرنا کوئی گناہ نہیں ہے ،وزیراعظم نواز شریف کو پھانسی کی سزا دی گئی تھی ، ہتھکڑیاں لگا کر جہاز کی سیٹ کے ساتھ باندھاگیا جو شرمناک فعل تھا ، اس سے بڑ کر وزیراعظم کے عہدے کی تضحیک اور کیا ہوسکتی تھی ، پرویز مشرف وزیراعظم کو پھانسی دینا چاہتا تھا ، جس پر دوست ممالک نے بات کی اور وہ بیرون ملک گئے،وہ مکے دکھانے اور خود کو کماڈو کہنے والا ہسپتال بھاگ گیا میاں صاحب نہیں بھاگے اور نہ ہی امریکہ اور برطانیہ کی حکومت سے ملکر واپس بھی نہیں آئے ،انہوں نے کہا کہ یہ جو سلسلہ چل پڑا ہے اس میں کوئی بچے گا نہیں ،جو تانگہ پارٹیاں اقتدار میں نہیں آسکتی وہ 62,63کی محافظ بن رہی ہیں ، میاں محمد نوازشریف ہمارے ہمدرد ہیںجنہوں نے دنیا میں مقبول بٹ اور افضل گورو کا نام لیا ، برہان وانی کا نا م اقوام متحدہ میں میاں محمد نواز شریف نے لیا ، اس قبل کسی لیڈر کو ہمارے ان ہیروز کا نام لینے کی توفیق نہیں ہوئی ،یہ میاں محمد نواز شریف ہی ہیں جنہوں نے آئینی حقوق اور این ایف سی ایوارڈ میں حصہ دینے کی بات کی ، انکا قصور یہ ہے کہ قومی اقتصادی کونسل میں وسائل کی تقسیم میں ہمارا حصہ دیا ،راجہ فاروق حیدر خان نے کہا کہ پاکستان میں کشمیریوں کا میاں محمد نواز شریف سے زیادہ ہمدرد کوئی نہیں ہے ، میں میاں صاحب کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ آزاد کشمیر میں آئیں اور کشمیر یوں کو بتائیں کہ آپکے ہمدرد کے ساتھ کیا گیا ،انہوں نے مزید کہا کہ منتخب وزیراعظم کے ساتھ جو ہوا اس کا جواب ہم الیکشن میں دیں گے ، اور 2018کے الیکشن جیت کر بھی نواز شریف وزیراعظم ہوں گے ،وزیراعظم کا عہدہ چھن جانے لیڈرشپ مرتی نہیں ہے ، ذولفقار علی بھٹو کو قتل کیا گیاپی پی پی آج بھی موجود ہے ، مولانا مودودی کو سزا دی گئی جماعت اسلامی آج بھی موجود ہے ،بھٹو نے ولی خان کو سزا دی اے این پی آج بھی موجود ہے ۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوے وزیراعلی گلگت بلتستان نے کہا کہ بدقسمتی ہے کہ کشمیر اور گلگت بلستان پاکستان سے الگ ہیں ہم سوچ رہے تھے کہ اپنے آئینی معاملات لیکر سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئیں لیکن ہمیں بتایا گیا کہ آپ ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں آتے آزادکشمیر کو بااختیار بنانے اور ہمیں آئینی حقوق دلانے کے لیے آج اہم میٹنگ ہونی تھی لیکن اس واقعے سے سب کچھ رول بیک کر دیا پاکستان میں قائد اعظم کے بعد لیڈر صرف دو ہی آے ایک ذولفقار علی بھٹو جو قبر سے ہوکر آج تک راج کررہے ہیں یہ الگ بات ہے کہ ان کے نام لیواوں نے ان کی پارٹی کو مٹی میں ملا دیا دوسرا لیڈر میاں نواز شریف ہے ان کے پاس وزیراعظم کا عہدہ آج ہے کل نہیں لیکن حقیقی لیڈر وہی ہیں قوموں کو لیڈر یکجا کرتے ہیں ایٹم بم نہیں میاں محمد نواز شریف نے گوادر خنجراب اور مظفرآباد سے مظفر گڑھ تک پوری قوم کو ایک لڑی میں پرودیا ۔سی پیک کے ذریعے جس وزیراعظم نے اقدامات اٹھے آج بھی وہ ہمارا وزیراعظم ہے وہ ہمارا سابق نہیں بلکہ موجودہ وزیراعظم ہے اور رہے گا میں نوازشریف کے علاوہ کسی اور کو اپنا وزیراعظم نہیں مانتا انہوں نے خنجراب سے گوادر تک سڑکوں کا جال بچھایا گلگت بلتستان جو کہ سیاحوں کے لیے ترستا تھا جہاں لاقانونیت کے باعث سال میں تین ماہ کرفیو نافذ ہوتا تھا سالانہ تین سولو گ قتل ہوتے تھے اور وہ ہوٹل توڑ کر مارکیٹیں بنا رہے تھے آج اس شہر میں پندرہ سے بیس لاکھ سیاح آرہے ہیں راجہ محمد فاروق حیدر خان بڑے لیڈر میں ایک محدود حلقہ کا سیاست دان ہوں جس کو گلی سے باہر کوئی نہیں جانتا تھا لیکن میاں نوازشریف کے نام پر ہم نے گلگت بلتستان میں دو تہائی اکثریت حاصل کی ،وزیراعظم محمد نوازشریف نے تین بڑے کام کیے ،پنجاب پر چھوٹے صوبوں کی حق تلفی کا الزام ختم کیا بارہ اکتوبر ننانوے کے بعد فوجی آمر نے لال مسجد آپریشن ،اکبر بگٹی قتل کر کہ جو امن و امان کا خاتمہ کیا اس کو دوبارہ بحال کیا ،سول بالادستی کی بات کی میاں نوازشریف کے برسراقتدار آنے سے پہلے ملک میں بجلی کا شارٹ فال آٹھ ہزار تھا ۔پرویز مشرف کے دور میں چوروں کو جیل سے نکال کر وزیر بنا دیا گیا کسی منصف کو جرات نہیں ہوئی کہ وہ ایک آمر کو لاکر کٹہرے میں کھڑا کر ے لیکن ملک کے منتخب وزیراعظم کو نااہل قرار دیا گیا ،پچہتر ہزار نعشیں ،امریکہ کے ایک فون پر ڈھیر ہونے والا اور چوالیس ارب کا مالک بننے والے کو کوئی نہیں پوچھتا ،میں پی سی او ججز کو فیصلہ دینے پر مبارکباد دیتا ہوں عدالتیں ملک میں انصاف کے لیے بنائی جاتی ہیں لیکن عدلیہ نے منتخب وزیراعظم کا تختہ الٹ کر عوامی راے عامہ پر شب خون مارا ہے ۔میں عدلیہ سے پوچھتا ہوں کہ چوالیس ارب روپے کا ای او آئی بی سکینڈل کا کیا ہوا؟عدالت کے اندر سینکڑوں مقدمات نیب کہ ہیں ان کا کیا بنا ؟ہمارے اختیارات اور آئینی حقوق بارے پٹیشن پندرہ سال سے سپریم کورٹ میں پڑی ہوئی ہے اس کا کیا بنا ؟