ہار تسلیم کرنا کھیل کا پہلا اصول ہے۔ اور یہ سب جانتے ہیں کہ، شکست کو باپ نہیں ملتا تاہم فتح کو کئی باپ مل جاتے ہیں۔۔۔ چلو اچھا ہوگیا کہ، ایک طرف الیکشن کے فوری بعد اسلام آباد میں کچھ سیاسی جماعتوں نے فوری اے پی سی شے پی سی بلا لی اور ہارے ہوئے لیڈران نے ایک دوسرے سے "اظہار تعزیت" کرلیا۔۔۔ دوسری طرف امریکہ شمریکہ کی ترجمان دفتر خارجہ نے بھی فوری دل کا غبار نکال لیا کہ، قبل از انتخابات سبھی جماعتوں کو انتخابی مہم کے مساوی مواقع نہیں ملے تاہم اگلی حکومت کے ساتھ خوشگوار تعلقات کے خواہاں ہیں، پھر بھارت نے بھی پیچ و تاب کھانے کے بعد نئی حکومت کو خوشگوار عندیہ دے دیا۔
اب جو ہو گا دیکھا جائے گا لیکن جانے کیوں کچھ سیاسی سے زیادہ جذباتی باتیں قلب و ذہن پر دستک دے رہی ہیں:
پاک و ہند کے سیاسی و سماجی اور خاندانی کلچر میں ایک باپ اپنے بڑے بیٹے اور چھوٹی بیٹی سے بہت توقعات رکھتا ہے، کہ بیٹا میرے نام و ناموس کو آگے لے کر جائے گا اور چھوٹی بیٹی کی نسبتا زیادہ رفاقت میرے بڑھاپے کی کچھ آن رکھے گی۔ مگر یہاں معاملہ توقعات کا ہے ضروری نہیں کہ یہی ترتیب توقعات پوری کرسکتی ہے ، پلوٹھی کے بجائے "پیٹ کروڑی" بھی بہتر ہوسکتا ہے، اور چھوٹی کے بجائے بڑی یا کوئی درمیانی بیٹی بھی خیال رکھ سکتی ہے۔ یہی سب سوچتے سوچتے دھیان قائد اعظم، مولانا مودودی، مولانا ابوالکلام آزاد ، لیاقت علی خان ، قاضی حسین احمد، میاں نواز شریف اور نہ جانے کدھر کدھر چلا گیا۔ ان میں کسی کے بیٹا نہیں تھا تو کسی کے بیٹے باپ کے نام اور انعام و اکرام کو آگے بڑھانے کے قابل ہی نہیں تھے۔ پھر چشم فلک گواہ ہے کہ متذکرہ بالا یا ان جیسے کئی خواص و عوام خود اتنا کچھ کر گئے کہ آگے کوئی کرے نہ کرے۔ شاید چیلنجوں کا سامنا بھی انسان کو کبھی کبھی اور کہیں کہیں لازوال سا کردیتا ہے۔ بہرحال خوش قسمت ہیں وہ جن کی اولاد ان کی نیک نامی، پروفیشن یا کمال و جمال آگے چلانے اور بڑھانے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اس تناظر میں حالیہ سیاسی رنگ دیکھیں تو دختر نواز شریف کی آزمائش ابھی بڑھتی دکھائی دے رہی ہے تاہم ان کے چچا میاں شہباز شریف اور چچازاد حمزہ شہباز شریف جیسے تیسے بھی ن لیگ کی سیاست کو سہارا دئیے ہوئے ہیں۔ بعد از انتخابات میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز مرکز اور پنجاب میں اپوزیشن لیڈری سنبھالیں گے۔ ان دونوں کا یہ پہلا تجربہ ہوگا ، اور جونہی میاں نواز شریف اور مریم نواز گردش ایام اور مقدمات سے فارغ ہوں گے، تو نوازی سیاست کو دوام بخشیں گے۔ اب معاملہ و مسئلہ مسلم لیگی نہیں ، نوازی یا ن لیگی سیاست کا ہوچکا۔ قبل از انتخابات جو بیانیہ نواز شریف کا سامنے آیا تھا وہ وہی بنتا تھا۔ لیکن میاں نواز شریف سے غلطی وہاں ہوئی جہاں انہوں نے پاناما کے حوالے سے پیپلزپارٹی کی نہ مان کر پارلیمنٹ کے بجائے عدالت کو فوقیت دی۔ پھر کیس کو قانونی انداز میں لڑنے کے بجائے سیاسی انداز میں لڑا۔ ن لیگ سمیت دیگر سیاسی جماعتوں اور بالخصوص مریم نواز، بلاول بھٹو زرداری، حمزہ شہباز، شہباز شریف حتی کہ عمران خان کو آئندہ کیلئے سبق حاصل کرنا ہوگا کہ، پارلیمنٹ کی نزاکتیں اور، سیاسی عداوتیں اور عدالتی صداقتیں کچھ اور ہوتی ہیں! ان سب حساس معاملوں کو گڈ مڈ کرنا سیاسی خود سوزی کے قریب قریب ہوتا ہے۔ اگر شہباز شریف اور حمزہ شہباز اچھی اپوزیشن ثابت ہوئے تو ان کے حزب اختلاف حالات کو حزب اقتدار حالات میں بدلنے کیلئے آنے والے وقتوں میں مریم نواز کا کردار کلیدی ہوگا اور میاں نواز شریف کا توانائی اور خامرے والا (energetic and enzymatic) ہوگا۔ بشرطیکہ۔۔۔بشرطیکہ عمران خان اور ان کی ٹیم وہی غلطیاں دہراتی ہے جو میاں نواز شریف کی ٹیم کھلے عام اور سرعام کرتی رہی۔ ن لیگ اور غیر ن لیگ کے بے شمار لوگ یہ کہتے ہیں کہ، مقتدرہ قوتیں عمران کی کامیابی کے پس منظر میں موجود ہیں، ہوں گی، ممکن ہے ہوں، مگر کسی حد تک! کیا مقتدرہ قوتوں نے گھرگھر آکر یا کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نوجوانوں کوجتھہ بنایا کیا؟ ن لیگیوں، جماعت اسلامی، جیالوں یا کسی اور غیر تحریک انصاف کے گھر میں مقتدرہ قوتیں گھسیں؟ (ذرا جواب ڈھونڈیئے گا تب تک میں بلاول بھٹو زرداری کے مستقبل کا جائزہ لے لوں)بلاول بھٹو زرداری الیکشن 2018 میں عزم کی علامت اور شائستگی کی صداقت بن کر ابھرے۔ جیالے،بلاول میں بی بی شہید اور بھٹو شہید کو ڈھونڈتے ہیں گویا آئندہ برسوں میں بلاول بھٹو زرداری آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی نسبت زیادہ پرکشش ہیں۔ نوجوان ہیں اور پڑھے لکھے بھی، پھر وہ خوش قسمت ہیں کہ، پہلے ہی الیکشن میں انہیں لیاری سے ہارنے کا شاندار اور جاندار تجربہ ہوا جس سے انہیں آٹے دال کا بھاو¿ معلوم ہوگیا اور سبق ملا کہ کسی خوش فہمی کے شیش محل میں نہیں فہم و فراست کے توازن میں سانس لینی ہے۔ لیاری سے شکست الیکشن 2018 کا سب سے بڑا سرپرائز تھا، سراج الحق، مولانا فضل الرحمن، محمود اچکزئی، نثار علی خان، شاہد خاقان عباسی، شہباز شریف کی دہری دہری ناکامیوں سے بڑی شکست و ریخت تھی یہ !!! واضح رہے کہ باپ کی جانب سے وراثت میں ملنے والی پولیٹیکل ٹیکنوکریسی (تکنیکی سیاست) اور ننھیال کی جانب سے ملنے والی ہردلعزیزی کے بل بوتے پر ہی ساری کامیابی اس لئے ممکن نہیں کہ ان کے ہم عمر ذوالفقار علی بھٹو سے ناآشنا اور ذرا جونئر ہم عصر بے نظیر بھٹو سے مکمل واقف نہیں۔ چونکہ عمران خان بلاول بھٹو زرداری کے باپ اور ماں کے ہم عصر ہیں اور انہوں نے نئی پود کو ان کی سیاست کی خامیاں اور کوتاہیاں ایک مقبول پروفیسر کی طرح ٹیچ کی ہیں کہ، کم از کم کے پی کے، پنجاب، اور اربن سندھ کے نوجوانوں سب نے یاد کر کے خود امتحان پاس کیا اور ٹیچر کو سرخرو کیا!!! بلاول کا مستقبل یقینا تابناک ہے لیکن "پروفیسر" عمران خان کے لیول کی کامیابی کے حصول کیلئے، پہلے تو نصاب سازی کرنی ہوگی، پھر عمرانی مضامین کی خامیاں سامنے لانا لازم ہے۔ اگر عمرانی سیاست اور حکومت زرداری اور نوازی حکومتوں جیسے غلطیوں کے انبار نہیں لگاتی تو پھر بلاول کو بالوں میں چاندی آنے کا انتظار فرمانا پڑے گا !۔
وہ ایک بات جو سیاسی سے زیادہ جذباتی دماغ میں اٹکے ہوئے ہے وہ یہ کہ، میاں نواز شریف کا خیال تھا سیاسی وراثت اولاد سنبھال کر اچھے کام کرلے گی جو مجھ سے نہ ہوسکے مگر لڑکے اس قابل نہ تھے سو بیٹی کو لانا پڑا مگر دوسری جانب شہباز شریف بطور بھائی قابل اعتماد شانہ بشانہ تھا (مگر اس کا بیٹا فل ٹائم سیاست دان ہے!) آہ، نوازی سیاست فی الحال شہبازی پیرہن میں جا کر حمزہ کی جانب رخ کئے لگتی ہے۔۔۔۔ مگر عارضی ہے۔ چیزوں کا رخ اصل کی طرف لوٹے گا۔ لیکن وقت لگے گا کیونکہ وقت نے ثابت کیا اور آگے بھی جاکر کرنے والا ہے کہ شہباز شریف و حمزہ شہباز کا سیاسی قد کاٹھ نواز شریف و مریم نواز جتنا نہیں ہے۔ جہاں تک بلاول کی بات ہے جیالے پیپلزپارٹی کی وراثت کی منتقلی کو وراثت کے بجائے میراث کہتے ہیں۔ کہتے رہیں :
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
لازم ہے کہ، اب 18 ویں ترمیم پر عمل، اچھی خارجہ پالیسی، تعلیم، صحت اور ڈیمز کیلئے ترسانا اور تڑپانا نہیں ہے وعدہ نبھانا ہے۔ ورنہ !!!
بہرحال حسن ظن اپنی جگہ موجود ہے۔ لیکن :
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
مختصر یہ کہ ، اب بلاول بھٹو اور مریم نواز کی سیاست اور مستقبل عمرانی عمل کے ردعمل پر پڑے ہیں۔۔۔۔ اگر عمران خان نے بلاول اور مریم کا راستہ ہموار کیا۔ مقتدرہ قوتوں کا کردار فراہمی سیلاد سے زیادہ ہرگز نہیں۔ ایوان و دسترخوان تو نواز و زرداری نے عمران خان کو طشتری میں رکھ کر پیش کئے ہیں، بابا!!!