ملکی معیشت کی زبوں حالی ہر پاکستانی کےلئے سوہان روح بنی ہوئی ہے۔ آئے دن پٹرول، مٹی کا تیل اور کھانے کا تیل اور دیگر گھریلو استعمال کی اشیاءمیں ہوش ربا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اب یہ ملک امیر سیاسی لیڈرز اور غربت اور افلاس سے پسے ہوئے لوگوں کے رہنے کی جگہ بن گئی ہے۔ الیکشن کے سلسلے میں مختلف پارٹیوںکے امید واران کے Assest یعنی مال اور دولت کھربوں اربوں روپے ہے۔ اور یہ صرف Tip of the ice burg ہے۔ وہ مال جو غیر قانونی طور پر چھپ چھپا کر باہر ممالک میں جمع ہے اس کا کوئی ریکارڈ اس میں شامل نہیں ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اگر صرف سوئزر لینڈ کے بینکوں میں جمع پاکستانی لیڈر اور افراد کا پیسہ واپس ملک میں آجائے تو 9 سال کےلئے سالانہ بجٹ کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ اس رقم میں دیگر ممالک مثلاً دوبئی، قطر وغیرہ میں جائیداداور پیسہ شامل نہیں ہے۔ مزید برآں فرانس میں جناب آصف علی زرداری کا سرے محل جس کی قیمت اربوں ڈالر ہے کو دیکھ کر فرانس کے صدر کے منہ میں بھی پانی آجاتا ہے۔ یہ تمام غیر قانونی دولت پاکستانی باشندوں کے جیبوں پر ڈاکہ ڈال کر حاصل کی گئی ہے۔
آئیں اب اپنی ملکی معاشی بد حالی کی اصل وجوہات کا تجزیہ کرتے ہیں ۔اس کی بڑی اور اصل وجہ ہمارے 190(ایک سو نوے) Public sector enterprises (PSE) کے خطیر رقم کے نقصانات ہیں جو کہ پچھلے پانچ سالوں میں 3,742,000,000,000 سینتیس کھرب بیالیس ارب کی حد تک پہنچ چکے ہیں ۔ باالفاظ دیگر ہر پاکستانی خاندان کو پچھلے پانچ سالوں میں 125,000(ایک لاکھ پچیس ہزار)روپے کا نقصان ہوا۔اور ہر پاکستانی فرد کو پچھلے پانچ سالوں میں 18000 (اٹھارہ ہزار) روپے کا نقصان اٹھانا پڑا یہ نقصانات جن PSE میں ہوئے ان کی ایک لمبی فہرست ہے جو کہ درج ذیل ہے۔ پی ایس او، پاکستان ریلوے، سوئی ناردرن، پی آئی اے، پاکستان سٹیل مل، بی پی ایل، او جی ڈی سی، حیدر آباد الیکٹرک، فیصل آباد الیکٹرک، قبائلی الیکٹرک، نندی پور پاور پراجیکٹ، ایچ بی ایف سی، جام شورو پاور کمپنی، ناردرن پاور پراجیکٹ، نیشنل ٹرانسمیشن اور ڈسپیچ کمپنی پاکستان ایگری گلچر سٹوریج، نیشنل فرٹیلازر، پی ٹی وی، زرعی ترقیاتی بنک، ٹریڈنگ کارپوریشن، یوٹیلٹی سٹور، فسٹ وومن بنک، پاکستان الیکٹرک۔پاکستان ریلوے روزانہ 95 (پچانوے)ملین یومیہ گھاٹے میں جارہی ہے جو سالانہ 34(چونتیس)بلین بنتے ہیں۔ پی آئی اے 125(ایک سو پچیس) ملین روزانہ کا خسارہ برداشت کررہی ہے۔ اور سفید ہاتھی سٹیل مل کا خسارہ 177(ایک سو ستتر) بلین تک پہنچ چکا ہے۔ باالفاظ دیگر ہر پاکستانی کنبہ صرف سٹیل مل کے خسارے کے نتیجے میں 6000 (چھ ہزار)روپے کا نقصان اٹھا چکا ہے۔2013 میں PSE کا خسارہ 495 (چار سو پچانوے )17, 16, 15, 2014 میں یہ بڑھ کر 570 (پانچ سو ستر) بلین پھر 712(سات سو بارہ) ، 862 (آٹھ سو باسٹھ)، اور1100 (گیارہ سو)بلین تک پہنچ گیاہے۔ یعنی PSE نے صرف پچھلے ایک سال میں ایک ٹریلین روپے کا نقصان کیا۔
قارئین کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ بات یہیں ختم نہیں ہوتی چند مزید Leeches یعنی جونکیں درج ذیل ہیں۔پاکستان ہارٹی کلچر ڈیویلپمنٹ اور ایکسپور کمپنی، پاکستان سٹون دویلپمنٹ کمپنی، فرنیچر پاکستان کارپوریشن، نیشنل پارک ڈویلپمنٹ کمپنی پاکستان جیم اینڈ جیولری کمپنی اور پاکستان ہنٹنگ اینڈ سپورٹنگ آرمز ڈویلپمنٹ کمپنی۔ اب حالات یہ ہیں کہ حکومت کی طرف سے 2018-19 کے بجٹ میںDirect taxes کی کل رقم1.7(ایک اعشاریہ سات)ٹریلین اور دوسری طرف PSE کی طرف پچھلے 5 (پانچ) سالوں میں 3.7 (تین اعشاریہ سات)ٹریلین کا نقصان ہوا۔ اب حکومت ان نقصانات کو ختم کرنے کی بجائے نئے ٹیکس کس منطق پر لگا رہی ہے۔ ایک اور اہم بات کہ ملکی دفاع اور اس سے متعلق اخراجات جس کی اہمیت کی وضاحت ضروری نہیں کیلئے بجٹ 2018-19 میں 1.1 (ایک اعشاریہ ایک)ٹریلین روپے رکھے گئے ہیں جبکہ PSE سے پچھلے 5 (پانچ) سالوں میں 3.7 (تین اعشاریہ سات) ٹریلین روپے کے نقصانات ہوئے نیز تعلیم جیسے بہت ہی اہم شعبے پر پچھلے سال 550 (پانچ سو پچاس) بلین روپے خرچ کئے گئے اور اسی سال کے دوران PSE کا نقصان 1.1 (ایک اعشاریہ ایک) ٹریلین روپے ہوا۔
قارئین! ملکی معیشت شدید بدحالی کاشکار ہے جس کی وجہ سے غربت میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ اس کی وجہ وسائل کی کمی ہر گز نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے لیڈرز کی نااہلی ، بد عنوانی اور مال و دولت کی ہوس ہے۔ الیکشن کے سلسلے میں سب امیدواروں کے اثاثوں کی فہرست سامنے آئی۔ جن میں تقریباً 99(ننانوے) افراد کھرب اور ارب پتی ہیں۔ یہ تو صرف وہ مال و دولت ہے جو ظاہر کی گئی ہے حقیقت میں ان کے پاس اس سے کہیں زیادہ دولت موجود ہے جس کو چھپایا ہوا ہے۔ یا وہ غیر قانونی طور پر بیرون ملک جمع ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ PSES ہر ماہ 62(باسٹھ)بلین روپے ماہانہ کے نقصانات میں جارہے ہیں۔ یعنی روزانہ 2 (دو)ملین سالانہ کے گھاٹے میں جارہے ہیں۔نتیجتاً ہمیں آئی ایم ایف سے بھیک مانگنی پڑتی ہے۔ جو ہمیں Blackmail کرتے ہیں۔ آخر یہ پیسہ کس کا ہے اور اس نقصان کا کون ذمہ دار ہے۔ پی ایم ایل (ن) کے لیڈرز اپنے پنج سالہ کارناموں کے جو بلند و بالا دعوے کررہے ہیں وہ منافقت اور سراسر جھوٹ پر مبنی ہیں۔ کہاں گئے ان کے کشکول توڑنے کے دعوے؟ ملک خطرات کا شکار ہے اوروقت بڑی تیزی سے گزرتا جارہا ہے۔ ہمیں جلد از جلد صورتِ حال کی اصلاح کیلئے سخت کوشش کرنی پڑے گی۔ ورنہ پھر پچھتاوے کے سوا کچھ نہ ہوسکے گا۔اس کی وجہ صرف اور صرف ہماری خود عرض اور لالچی قیادت ہے اس کا حل پی آئی اے کے لئے نئے جہاز خریدنا یا ریلوے کے نئے انجن درکار نہیں۔ بلکہ محترم بابا ئے قوم اور لیاقت علی خان جیسے محب وطن لیڈرز کی ضرورت ہے ۔ ذرا سوچیں کہ ایک طرف تو ملکی ائیر لائن گھاٹے کا شکار ہے اور دوسری طرف سابقہ وزیر اعظم کی Blue Air ریکارڈ منافع کمارہی ہے۔ اب نئی قائم ہونے والی حکومت کو پوری ایمانداری اور تندھی سے ان وجوہات کا سدِباب کرنا ہوگا جو کہ ملک کی معاشی بد حالی کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ ایک مشکل کام ہے امید ہے نئی حکومت اس سے عہدہ براہ ہوسکے گی۔