تحریروترتیب۔ احمد کمال نظامی
بیوروچیف نوائے وقت فیصل آباد
معاون:۔ احمد جمال نظامی
الیکشن 2018ء کے نتائج مکمل ہو گئے اور فیصل آباد ڈویژن کے تینوں اضلاع میں بھی پورے ملک کی طرح قومی و علاقائی سیاست کے بڑے بڑے برج الٹ گئے ہیں۔ فیصل آباد گزشتہ پنجاب حکومت کے طاقتور ترین وزیر رانا ثناء اللہ خاں کے علاوہ چار وزرائے مملکت کا شہر تھا۔ حاجی اکرم انصاری مسلم لیگ(ن) کے سدابہار رکن قومی اسمبلی سمجھے جاتے تھے۔ چوہدری عابد شیرعلی اس شہر کے ماضی کے تین مرتبہ سے زیادہ میونسپل کارپوریشن کے میئر رہنے والے سیاست دان چوہدری شیرعلی کے صاحبزادے تھے وہ دو مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے اور انہیں اس شہر کی سیاست میں 1977ء کے انتخابات کے بعد قومی اتحاد کی انتخابات کے خلاف دھاندلی کے خلاف شروع کی گئی احتجاجی تحریک میں جسے بعد میں تحریک نظام مصطفیٰ کا نام دے دیا گیا تھا۔ دو درجن سے زائد فوجی مقدمات میں جیل بھیجا گیا تھا۔ بنیادی طور پر وہ پیپلزپارٹی کے ہی کارکن تھے اور یہ وہی تھے جنہوں نے فیصل آباد کے ماضی کے ایک معروف مسلم لیگی رکن میاں زاہد سرفراز کی وساطت سے جنرل ضیاء الحق سے ملوایا تھا اور جنرل محمد ضیاء الحق کے ساتھ اس ملاقات کے بعد میاں محمد نوازشریف ایک طرح سے ان کے خاندان کے رکن بن گئے تھے اور جنرل محمد ضیاء الحق کے ساتھ اپنے اس تعلق کے نتیجے میں وہ پہلے پنجاب کے فوجی گورنر جنرل جیلانی کی صوبائی کابینہ کے رکن بنے اور 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات کے بعد انہیں پنجاب میں بننے والی حکومت میں وزیراعلیٰ نامزد کر دیا گیا۔ جنرل محمد ضیاء الحق ان سے بہت زیادہ متاثر تھے اور ایک مرحلے پر انہوں نے ان کے لئے یہ دعا بھی کی تھی کہ ’’اللہ آپ کو میری عمر بھی عطا کر دے‘‘۔ جنرل محمد ضیاء الحق تو لودھراں کے قریب تباہ ہونے والے طیارے میں اللہ کو پیارے ہو گئے مگر اللہ کریم نے میاں محمد نوازشریف کو جنرل محمد ضیاء الحق کی عمر بھی عطا کر دی اور ان کی عوامی مقبولیت کا ووٹ بینک جنرل محمد ضیاء الحق کے ہاتھوں پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد ملک کی رائے عامہ ذوالفقار علی بھٹو ووٹ بینک اور اینٹی بھٹو ووٹ بینک میں تقسیم ہو گئی تھی۔ بے نظیر بھٹو اپنے شہید باپ کے ووٹ بینک کی وارث تھیں۔ وہ دو مرتبہ اس ملک کی وزیراعظم بنیں اور جن دنوں جنرل پرویزمشرف کے دور میں مسلم لیگ(ق) کے دوراقتدار میں یہ آئین بنا کہ ملک میں کوئی سیاست دان دو مرتبہ سے زیادہ مرتبہ ملک کا وزیراعظم نہیں بن سکے گا تو میاں محمد نوازشریف اور بے نظیر بھٹو شہید نے ملک میں دوبارہ جمہوریت کے احیاـء کے بعد ’’مارشل لاؤں‘‘ کا راستہ روکنے کے لئے لندن میں بیٹھ کر پاکستان میں مختلف سیاسی جماعتوں کے لئے ضابطہ اخلاق کے طور پر ’’میثاق جمہوریت‘‘ پر دستخط کئے تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ہو گئیں لیکن پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) میں میثاق جمہوریت بہت حد تک چلتا رہا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنا پانچ سالہ دور حکومت مکمل کیا تھا۔ مسلم لیگ(ن) نے بھی اپنا گزشتہ دور حکومت مکمل کر لیا تھا لیکن اس دوران پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان میثاق جمہوریت ختم ہو گیا۔ اس میثاق جمہوریت کو ان دونوں سیاسی جماعتوں کی ’’نوراکشتی‘‘ کا نام دے کر اس کو بہت زیادہ ہدف تنقید بنایا گیا اور اس سلسلہ میں سب سے زیادہ تنقید الیکشن 2018ء میں سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھرنے والی تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان تھے اور ان کی طرف سے کرپشن مکاؤ کا نعرہ نہایت شدت کے ساتھ لگایا گیا۔ بات چوہدری شیرعلی کی فیصل آباد شہر میں مقبولیت، دو مرتبہ میونسپل کارپوریشن کے میئرشپ کے ساتھ ایک وقت میں دو عہدوں پر پابندی کے بعد انہوں نے میونسپل کارپوریشن کے کونسلر ملک محمد اشرف اور ایک مرتبہ اپنے بڑے بیٹے عامر شیرعلی کو میونسپل کارپوریشن کا میئر بنوایا۔ اگر الیکشن 2002ء کے امیدواروں پر گریجوایشن کی پابندی نہ لگتی تو چوہدری شیرعلی موجودہ صدی میں ہونے والے انتخابات میں الیکشن 2002ء سے الیکشن 2018ء تک خود ہی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے رہنے کا ریکارڈ بنا سکتے تھے لیکن انہوں نے الیکشن 2002ء میں اپنے گریجوایٹ بیٹے عابد شیرعلی کو اپنی جگہ قومی اسمبلی کا امیدوار بنا کر انہیں پارلیمانی سیاست کا حصہ بنا دیا۔ رانا ثناء اللہ خاں 1990ء کے عشرے میں چوہدری شیرعلی کے ذیلی صوبائی حلقے سے مسلم لیگ کے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے رہے تھے۔ 1990ء میں جب رانا ثناء اللہ خاں کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے شریف خاندان کے خلاف ایک متنازعہ تقریر پر ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا اور رانا ثناء اللہ خاں کے پاس انتخابات میں حصہ لینے کے لئے وسائل بھی نہیں تھے تو چوہدری شیرعلی بعدازاں انہیں مسلم لیگ(ن) میں لے گئے اور انہوں نے انہیں پی پی 113 سابقہ پی پی 70 سے الیکشن لڑوایا جہاں رانا ثناء اللہ خاں، پیپلزپارٹی کے ملک اسماعیل سیلا سے شکست کھا گئے اور بعدازاں چوہدری شیرعلی نے بھرپور انتخابی مہم چلاتے ہوئے رانا ثناء اللہ خاں کو اس حلقہ انتخاب سے کامیاب کروایا جس کے بعد پرویزمشرف دور میں جب چوہدری شیرعلی کو پابند سلاسل کر دیا گیا اور گریجوایشن کی شرط بھی عائد ہو گئی تو چوہدری شیرعلی کی جگہ عابد شیرعلی نے سابقہ این اے 82 موجودہ این اے 108 سے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ اس دور میں رانا ثناء اللہ خاں نے اے آر ڈی کے پلیٹ فارم پر راجپوت برادری کا اکٹھ کر کے چوہدری شیرعلی کو کھڈے لائن لگانے کی مہم شروع کر دی اور اس طرح سے دونوں کے درمیان اختلافات شدید سے شدید تر ہوتے چلے گئے۔ چوہدری شیرعلی نے اے آر ڈی فیصل آباد کو راجوں مہاراجوں کی فوج قرار دیااور ایک پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا کہ وہ کسی طور پر کسی بھی پلیٹ فارم سے پیپلزپارٹی کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔ چوہدری شیرعلی کے اس موقف پر فیصل آباد سے رانا ثناء اللہ خاں نے فائدہ اٹھاتے ہوئے شہبازشریف کے قریب خود کو کر لیا اور فوجیوں کے خلاف پنجاب اسمبلی میں ایک متنازعہ تقریر کے بعد ان کے چند گھنٹوںکے لئے لاپتہ ہونے، ان کی مونچھیں، بھروٹے اور سر کی ٹنڈ کرنے کے بعد انہیں برہنہ کیچڑ مل کر سرگودھا روڈ پر موٹروے انٹرچینج کے قریب رات کی تاریکی میں چھوڑ دیا گیا۔ یہ وہ مرحلہ تھا جہاں سے رانا ثناء اللہ خاں پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی اپوزیشن کے عہدے پر فائز کر دیئے گئے اور اس طرح سے فیصل آباد میں ایک سکوٹر سے وکیل کی حیثیت کے طور پر پیپلزپارٹی میں جانے والے رانا ثناء اللہ خاں کو سیاسی عروج حاصل ہونے لگا۔ 2008ء میں شہبازشریف وزیراعلیٰ بنے تو انہیں ان کے حلقے میں ایک امیدوار کی وفات کے باعث ضمنی الیکشن سے پہلے ہی صوبائی وزیرقانون بنا دیا گیا جس پر پنجاب اسمبلی میں بار بار ہنگامہ ہوا لیکن رانا ثناء اللہ خاں سیاست میں شہرت کی بلندیوں کو چھوتے چلے گئے لیکن انہیں یہ شہرت شاید راس نہیں آئے اور انہوں نے ایسے ایسے متنازعہ بیانات بار بار داغے جس سے مسلم لیگ(ن) کو شدید نقصان ہوا اور پی پی 113 سابقہ پی پی 70 میں ثناء اللہ کی 25جولائی کی شکست اسی قسم کے بیانات کا شدید ردعمل تھا۔ جہاں تک فیصل آباد میں شہر میں مسلم لیگ(ن) کی شکست کا تعلق ہے تو اس میں رانا ثناء اللہ کی ہٹ دھرمی اور دھڑے بندی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ چوہدری شیرعلی بمقابلہ رانا ثناء اللہ حالیہ بلدیاتی انتخابات کے دوران ’’سیاسی جنگ‘‘ اس حد تک لڑی گئی کہ رانا ثناء اللہ خاں کو چوہدری شیرعلی نے 21افراد کا قاتل قرار دیا اور رانا ثناء اللہ نے چوہدری شیرعلی پر بھی طرح طرح کے الزامات لگائے۔ چوہدری شیرعلی نے مسلم لیگ ورکرز میئر گروپ کے نام سے الیکشن میں حصہ لیا اور ان کے گروپ کا میئر کا امیدوار صرف 9 ووٹوں سے رانا ثناء اللہ کے دست راست رکن پنجاب اسمبلی ملک محمد نواز کے بھائی رزاق ملک سے ہار گیا۔ یہ وہی انتخابات تھے جس میں دولت کی چمک کاروں کی دمک کا کھلے عام نیلام ہوا اور اس نیلامی کی گونج نجی ٹی وی چینلز پر بار بار دکھائی اور سنائی جاتی رہی۔ اسی بناء پر تحریک انصاف کے میئر کے امیدوار ممتاز چیمہ بھی رانا ثناء اللہ کے ہاتھوں پر بیت کر گئے اور انہیں تحریک انصاف سے نکال دیا گیا۔ رانا ثناء اللہ نے اسی طرح مسلم لیگ(ن) کو فیصل آباد میں سیاسی طور پر نقصان پہنچایا ہے جس طرح پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے سابق سینئر صوبائی وزیر راجہ ریاض احمد نے اپنے ڈیرے پر پیپلزپارٹی کو محدود کر کے نقصان پہنچایا تھا اور اسی پر پیپلزپارٹی کے اس وقت کے رہنما رانا آفتاب احمد نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ پیپلزپارٹی اب راجہ ریاض کے ڈیرے کے اندر بند ہو کر رہ گئی ہے۔ تاہم 2002ء کے انتخابات میں کامیابی کے علاوہ عابد شیرعلی الیکشن 2008ء اور الیکشن 2013ء میں بھی قومی اسمبلی کا حصہ بنے اور گزشتہ دور میں انہیں وزارت بجلی و پانی کے شعبہ میں وزیرمملکت کا منصب بھی مل گیا۔ الیکشن 2018ء میں قومی اسمبلی کے لئے چوہدری عابد شیرعلی اور پنجاب اسمبلی کے لئے رانا ثناء اللہ کی نشست سب سے زیادہ محفوظ سمجھی جاتی تھی لیکن گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں چوہدری شیرعلی اور رانا ثناء اللہ خاں کے مابین اختلافات اس حد تک بڑھ گئے کہ رانا ثناء اللہ نے نہ صرف عابد شیرعلی کے بڑے بھائی عامر شیرعلی کو سٹی کونسل کا چیئرمین منتخب نہیں ہونے دیا بلکہ پنجاب اسمبلی میں اپنے گروپ کے رکن اسمبلی ملک محمد نواز کی خواہش ان کے بھائی ملک رزاق کو میونسپل کارپوریشن کا چیئرمین منتخب کرایا جو چوہدری شیرعلی گروپ کے ارکان میونسپل کارپوریشن کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں مصروف رہا اور اس طرح یہ پہلا موقع تھا کہ چوہدری شیرعلی نے نہ تو عابد شیرعلی کی انتخابی مہم خود چلائی اور نہ قومی اسمبلی کے اس حلقے کی ذیلی نشستوں پر زیادہ دلچسپی لی۔ ان کے گروپ کے ایک صوبائی اسمبلی کے امیدوار میاں طاہر جمیل سابق رکن پنجاب اسمبلی صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیت گئے ہیں اور اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ اس حلقے کی آرائیں برادری نے قومی اسمبلی کا ووٹ میاں فرخ حبیب کو اور صوبائی اسمبلی کا ووٹ میاں طاہر جمیل کو دیا۔ شہر میں آرائیں برادری کا ووٹ بینک ہی سب سے زیادہ چوہدری شیرعلی اور ان کے بیٹے عابد شیرعلی کی کامیابیوں میں اساسی اہمیت کا حامل رہا ہے اور رانا ثناء اللہ خاں نے سمن آباد کی آرائیں برادری کے متعدد سرکردہ افراد کو بار بار تھانے کچہری میں شدید زدوکوب کرایا تھا کہ اس مرتبہ یہ برادری اس حلقہ رانا ثناء اللہ خاں کے خلاف اس قدر زیادہ ادھار کھائے بیٹھی تھی کہ میاں وارث عزیز محض اپنی برادری کے ووٹ بینک کے ساتھ تحریک انصاف ووٹ بینک کو کیش کروانے میں کامیاب ہو گیا اور مسلم لیگ(ن) فیصل آباد کے دو بڑے برج الٹ گئے اور آئندہ کے لئے بھی یہ بات طے ہو گئی ہے کہ رانا ثناء اللہ کو اب پارلیمانی سیاست کے لئے شہر سے باہر، شہر کی سیاست سے باہر موجودہ این اے 106 یا پی پی 108 میں جانا پڑے گا۔ رانا ثناء اللہ کا گاؤں پی پی 108 میں ہے اور یہ وہی گاؤں ہے جو سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا گاؤں ہے اور شاید بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ رانا ثناء اللہ خاں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے کزن بھی ہیں لیکن رانا ثناء اللہ پی پی 70 موجودہ پی پی 113 میں کئی عشروں سے رہائش رکھتے ہیں اور ہمیشہ یہاں سے الیکشن جیتتے رہے۔ اب ان کا یہ آبائی حلقہ ان کی دسترس سے باہر ہے اور وہ شہر کی سیاست سے آؤٹ ہو چکے ہیں۔ فیصل آباد شہر سے حاجی محمد اکرم انصاری کی شکست بھی ایک بڑے برج کو الٹانے کے مترادف ٹھہری ہے۔ اس حلقہ میں انصاری برادری ہمیشہ حاجی محمد اکرم انصاری کی کامیابیوں کے لئے بنیادی کردار ادا کرتی رہی لیکن فیصل آباد سے گزشتہ پنجاب اسمبلی کے واحد رکن شیخ خرم شہزاد نے اس حلقہ میں تین مختلف میرج ہال تعمیر کرائے اور پورے حلقہ کے لوگوں کے لئے یہ میرج ہال ایک طرح سے فری تھے کہ ان سے شادی کی تقریب کے بعد اتنی رقم ہی لی جاتی تھی جس سے ان میں پھیلائی جانے والی غلاظت اور شادی کے کھانوں کی باقیات کو وہاں سے صاف کیا جا سکتا تھا۔ شیخ خرم شہزاد کو تحریک انصاف کی طرف سے دو سابق وفاقی وزیروں اور بڑے سیاست دانوں میاں زاہد سرفراز کے بیٹے علی سرفراز اور راجہ نادر پرویز کے بیٹے کو نظرانداز کرنے سے ملا تھا اور تحریک انصاف کی قیادت کے لئے میاں زاہد سرفراز اور راجہ نادر پرویز کے بیٹوں کو نظرانداز کرنا یقینا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ شیخ خرم شہزاد نے اس حلقہ کے لئے اپنا انتخاب درست ثابت کیا ہے۔ رانا محمد افضل اور طلال چوہدری بھی وزرائے مملکت تھے اور ایک لحاظ سے سیاسی برج ہی تھے۔ ایک بڑا سیاسی خاندان چک جھمرہ کا ساہی خاندان تھا۔ افضل ساہی 2002ء کی صوبائی اسمبلی میں سپیکر رہ چکے تھے اور ان کا بڑا بھائی کرنل(ر) غلام رسول قومی اسمبلی کا ممبر رہ چکا تھا۔ انہوں نے قومی اسمبلی کا ممبر ہوتے ہوئے بھی سابق وزیراعلیٰ چوہدری پرویزالٰہی کے دباؤ پر پہلے تو موجودہ چیئرمین ضلع کونسل چوہدری زاہد نذیر کا اس منصب کے لئے راستہ روکنے کی کوشش کی لیکن اس وقت مسلم لیگ(ق) میں سابق گورنر میاں محمد اظہر کی موجودگی سے ان کے ساتھ افضل ساہی کو نائب ضلع ناظم کا امیدوار بنا کر ان کا پینل بنا دیا گیا۔ افضل ساہی نے ایک دن بھی اس الیکشن میں دلچسپی نہیں لی۔ چوہدری زاہد نذیر نے یہ نشست جیت کر ان کی جھولی میں ڈال دی اور بعد میں وہ الیکشن 2002ء میں پنجاب اسمبلی میں پہنچ کر اپنی ضلع کونسل فیصل آباد کی سپیکرشپ کے تجربے کی وجہ سے پنجاب اسمبلی کے سپیکر بنا دیئے گئے۔ وہ 2008ء میں خود بھی پنجاب اسمبلی کا الیکشن ہار گئے اور ان کے بھائی کرنل(ر) غلام رسول کو بھی اپنے قومی اسمبلی کے حلقہ موجودہ این اے 101 اور سابقہ این اے 75 سے شکست ہو گئی البتہ کرنل غلام رسول ساہی کا بیٹا ظفر ذوالقرنین ساہی الیکشن 2008ء میں پنجاب اسمبلی کا رکن منتخب ہو گیا تھا۔ یہ پیپلزپارٹی کا دورحکومت تھا اور الیکشن 2013ء کے ایک دو ماہ پہلے ساہی برادران، ظفر ذوالقرنین کے ہمراہ جاتی امراء پہنچ گئے اور مسلم لیگ(ن) میں شامل ہو گئے۔ تحریک انصاف کی قیادت نے اس حلقہ میں اپنے نظریاتی حامیوں، فواد چیمہ اور اجمل چیمہ وغیرہ کو نظرانداز کر کے ساہی خاندان کو ایک مرتبہ پھر سیاسی طور پر ان کے سر پر سوار کرنے کی سعی کی تھی لیکن ضلع میں قومی اسمبلی کا ایک حلقہ کم ہو جانے سے چوہدری عاصم نذیر کا قومی اسمبلی کا سابقہ حلقہ این اے 77 ٹوٹ گیا اور انہوں نے مسلم لیگ(ن) کی قیادت سے اپنے والد کے حلقہ این اے 105 سے پارٹی ٹکٹ مانگا۔ اس حلقہ میں ان کے قومی اسمبلی کے سابقہ حلقہ این اے 77 کے ایک چوتھائی علاقے بھی شامل تھے لیکن میاں محمد نوازشریف نے میاں محمد فاروق رکن قومی اسمبلی کی افطار پارٹی میں موضع میانی میں منعقدہ جلسہ میں آ کر پارٹی ٹکٹ میاں محمد فاروق یا ان کے بیٹے قاسم فاروق کو دینے کا اعلان کر دیا۔ موضع میانی میاں فاروق کا گاؤں ہے جس کی آبادی کسی قصبے سے کم نہیں ہے۔ مردوں اور خواتین کے لگ بھگ 9ہزار ووٹوں کا یہ گاؤں این اے 105 کا حصہ ہونا چاہیے تھا لیکن اسے ایک زمانے میں مرحوم چوہدری محمد الیاس جٹ نے میاں آصف اجمل کا آرائیں ووٹ بینک بڑھانے کے لئے این اے 106 کا حصہ بنوا لیا۔ اس کا خود میاں محمد فاروق کو بھی نقصان تھا لیکن رانا ثناء اللہ خاں نے نئی حلقہ بندی میں اس کے این اے 105 میں شامل کئے جانے پر اعتراض کر کے دوبارہ این اے 106 اور پی پی 108 میں شامل کرا لیا کیونکہ میاں آصف اجمل ایک طرح سے ان کا فنانسر ہے۔ اس گاؤں کا آرائیں ووٹ بینک ہمیشہ رانا آفتاب احمد خاں کی کامیابی کے لئے رکاوٹ بن جاتا ہے۔ وہ 25جولائی کا الیکشن بھی میاں آصف اجمل سے ہار گئے ہیں حالانکہ وہ اس حلقہ سے ان کے والد گرامی بھی پنجاب اسمبلی کے رکن اور صوبائی وزیر رہ چکے ہیں۔ خود رانا آفتاب احمد خاں بھی صوبائی وزیر رہ چکے ہیں اور اس حلقہ سے چوہدری طالب حسین (25جولائی کے الیکشن میں پیپلزپارٹی کے امیدوار چوہدری سعید اقبال کے حقیقی چچا اور سسر) اور رائے عبدالرزاق بھی صوبائی وزیر بنتے رہے ہیں اور یہی حلقہ رانا ثناء اللہ خاں کا آبائی حلقہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنا زندگی کا سب سے پہلا الیکشن 1985ء میں غیرجماعتی الیکشن اسی حلقہ سے لڑا اور ہارا تھا۔ وہ اپنے شہر کے حلقہ میں بالکل حادثاتی انداز میں آ گئے۔ اب میاں وارث عزیز نے انہیں واپس آبائی حلقہ میں بھجوا دیا اور وہاں وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے ہیں۔ ایک سیاسی برج این اے 104 سمندری کے حلقہ میں رانا فاروق سعید کی صورت میں بھی الٹایا گیا ہے۔ وہ 2008ء کے الیکشن میں بیک وقت قومی و صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے تھے۔ انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست خود رکھی تھی اور ضمنی الیکشن کے لئے پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر میاں قاسم ضیاء کو جو 2002ء کی پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی رہ چکے تھے اور الیکشن 2008ء میں لاہور سے اپنی نشست ہار گئے تھے۔ رانا فاروق سعید خاں نے میاں قاسم ضیاء کو ضمنی الیکشن میں اس حلقہ سے گوجرہ کے وڑائچ خاندان کے بڑے بیٹے چوہدری امجد وڑائچ کے مقابلے میں کامیابی دلائی تھی اور میاں قاسم ضیاء کی سفارش پر رانا فاروق سعید خاں کو وفاقی وزیر صنعت کا عہدہ مل گیا تھا۔ مسلم لیگ(ن)کے قومی اسمبلی کے سابق رکن شہباز بابر نے تحریک انصاف کے سردار دلدار چیمہ سمیت رانا فاروق سعید خاں کا سیاسی برج بھی الٹا دیا ہے۔ این اے 104 کے ذیلی صوبائی حلقہ پی پی 105 سے تحریک انصاف کے حافظ ممتاز احمد الیکشن 2018ء میں کامیاب ہو گئے ہیں جبکہ شہباز بابر کی کامیابی میں بڑا ہاتھ سابق رکن قومی اسمبلی چوہدری صفدر شاکر ہیں کہ انہوں نے پی پی 104 میں آرائیں، جٹ انتخابی کش مکش میں شاہد خلیل نور کو شکست دے کر اس حلقہ میں سردار دلدار چیمہ کے مقابلہ میں اپنی جٹ برادری سے شہباز بابر گجر کی جیت میں بھی بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ سردار دلدار چیمہ کو پی پی 106 سے آزاد امیدوار ملک فاروق کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ ضلع فیصل آباد کی قومی و صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر الیکشن نہیں ہوا کیونکہ تاندلیانوالہ کی ایک شخصیت این اے 103 کے ساتھ ساتھ پی پی 103 سے بھی امیدوار تھے اور انتخابی مہم کے دوران اپنے بیٹوں کے دباؤ پر کہ وہ الیکشن سے دستبردار ہو جائیں۔ انہوں نے خودکشی کر لی اور تاندلیانوالہ سے قومی و صوبائی اسمبلی کے دونوں حلقوں کا الیکشن منسوخ ہو گیا۔ اس حلقہ میں اب ضمنی الیکشن ہو گا۔ پی پی 103 وہی حلقہ ہے جس سے الیکشن 1993ء میں میاں منظور احمد وٹو کامیاب ہو کر وزیراعلیٰ پنجاب بنے تھے۔ 2013ء میں بھی پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کی کامیابیوں کا حال الیکشن 2018ء جیسا تھا کہ اس وقت مسلم لیگ(ن) کی کل نشستیں 127 ہیں اور تحریک انصاف کی نشستوں کی تعداد 120 ہے۔ اس زمانے میں پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ جونیجو کی 15نشستوں پر ان کے صوبائی پارلیمانی لیڈر میاں منظور احمد وٹو کو وزارت اعلیٰ کا منصب دے کر مسلم لیگ(ن) کو صوبے میں حکومت بنانے سے روک دیا تھا۔ یہ صوبہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کی آخری حکومت تھی۔ پنجاب اسمبلی میں اس وقت مسلم لیگ(ن) 135 نشستیں جیت کر سرفہرست ہے جبکہ پی ٹی آئی کے 120 امیدوار، آزاد 27، پیپلزپارٹی 6، ق لیگ 2 اور ایم ایم اے ایک نشست حاصل کر سکی ہے۔ اس صورت میں مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے پنجاب میں حکومت بنانے کے ففٹی ففٹی چانس ہیں تاہم جو بھی پنجاب میں جماعت حکومت بنائے گی اسے مضبوط بڑی اور سخت اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں اتار چڑھاؤ آتا رہے گا اگر 2013ء کے انتخابات کے نتائج کو دیکھا جائے تو اس وقت صوبہ خیبر پی کے میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے پر تحریک انصاف کو حکومت بنانے کی دعوت دی گئی۔ اب دیکھنا ہو گا کہ پنجاب میں اسی طرح کیا جاتا ہے یا کہ تحریک انصاف خود حکومت بنانے کے لئے جوڑ توڑ کرتی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ میاں محمد شہبازشریف نے اڈیالہ جیل میں سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف سے ملاقات کی ہے جس میں میاں محمد نوازشریف نے شہبازشریف کو ذرائع کے مطابق ہدایت کی ہے کہ وہ خود قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا رول ادا کرنے کے لئے بیٹھیں اور ممکن ہو تو دیگر جماعتوں کو اعتماد میں لے کر قائد حزب اختلاف کے فرائض سرانجام دیں اور پنجاب میں حمزہ شہباز کو پنجاب کے وزیراعلیٰ کے لئے منتخب کروانے کی کوشش کریں۔