الیکشن 2018ء میں تحریک انصاف نے ملک بھر میں توقعات سے زیادہ کامیابی حاصل کی ۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف نے غیرحتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق 19 1 سیٹوں پر کامیابی حاصل کرلی۔ مسلم لیگ ن قومی اسمبلی کی اپنی بڑی سیٹیں کھوکر 63 سیٹوں کو بچا پائی ہے ، پیپلزپارٹی نے 43 ،ق لیگ 3، آزاد اُمیدواروں نے 14، ایم ایم اے 12‘ جی ڈی اے 5 اور بی این پی ایم5 سیٹیں حاصل کرسکیں۔
موجودہ دور میں ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کا رویہ جوں کا توں ہے۔ انہوںنے ماضی سے سبق حاصل نہیں کیا اورنہ ہی سیاسی تدبر وبصیرت سے کام لیا۔ سیاست میں برداشت کے جمہوری کلچر کوبھی پروان نہ چڑھنے دیا۔ الیکشن میں ہار جیت ہوا کرتی ہے۔ اب عوام نے جن اُمیدوار پر اپنے اعتماد کااظہار کیا وہ کامیاب قرار پایا۔ جبکہ دوسری طرف ہارنے والے نے دھاندلی کا شورمچانا شروع کردیا۔مہذب معاشرے کی طرح چاہئے تو یہ تھا کہ ہارنے والا جیتنے والے کو مبارکباد دیتا اور اپنی شکست کے عوامل تلاش کرتا کہ عوام نے مجھے کیوں مسترد کیا ،جیسا کہ اے این پی کے غلام احمد بلور نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شکست کو تسلیم کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو مبارکباد دی کہ پشاور کے عوام پی ٹی آئی سے محبت کرتے ہیں مگر یہ خلوص ہماری دیگر پارٹیوں اور اشخاص میں ناپید ہے۔
حالیہ انتخابات صاف وشفاف تھے جس کاسہرا الیکشن کمیشن، نگران حکومت اورعدالت عظمیٰ کے سرجاتا ہے جنہوں نے اپنے وعدے کو پورا کردیا لیکن انتخابی نتائج پرتحفظات کااظہار جو پارٹیاں کررہی ہیں ماضی میں بھی ان کی یہی گردان تھی۔ اب سب سے بڑی پارٹی مسلم لیگ ن کو ہی لے لیں تو اس کی شکست کے محرکات سابق وزیراعظم نوازشریف کاعدلیہ وفوج مخالف بیانیہ ہے جس کو عوام نے مسترد کردیا ہے۔ اداروں سے تصادم کاراستہ سابق وزیراعظم نے خود اپنایا حالانکہ بعض سینئر مسلم لیگی رہنماؤں نے ان کو عدلیہ مخالف بیانیہ سے منع کیا تھا لیکن نوازشریف نے عدلیہ کی تضحیک کرنے میں کوئی لمحہ فروگزاشت نہ کیا۔جلسے اور جلسوں میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ عوام کو بھی عدلیہ کے خلاف اُکسایا۔ اپنی کرپشن چھپانے کیلئے سابق وزیراعظم نے اداروں کی ساکھ کو کاری ضرب لگائی اور ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کانعرہ لگایا اور کہا کہ عوام سپریم کورٹ کے فیصلے کونتائج میں مسترد کردیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انتخابی نتائج میں عوام نے نوازشریف کے بیانیہ کومسترد کرکے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پراپنے اعتماد کااظہار کیا اورواضح برتری دلوائی۔
اس کے علاوہ ن لیگی قیادت کا بھارت بارے نرم رویہ بھی عوام کو کھلتا رہا۔ اول تو بھارتی میڈیا نے پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اپنی من پسند پارٹی کے ہارنے پر بھارتی میڈیا نے وہ واویلا کیا کہ خدا کی پناہ۔دفترخارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات کیخلاف بھارتی میڈیا زہر اُگلنا بند کرے اور اپنے داخلی معاملات پر توجہ دے۔ عام انتخابات جمہوری عمل کا حصہ ہیں، جس کے خلاف بھارتی میڈیا بے بنیاد واویلا کررہا ہے۔اسے انتخابات کے نتیجے میں حکمرانی پر فائز ہونے والی جماعت کو تسلیم کرنا چاہئے۔ دراصل بھارتی میڈیا کو پاکستان کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی واضح اکثریت ہضم نہیں ہورہی۔ اس نے اپنی رپورٹس میں پاکستان پر بے سروپا الزامات کی بھرمار کر رکھی ہے۔پاکستانی اداروں پر الیکشن میں مداخلت اور دھاندلی کی الزام تراشی پر اتر آیا ہے۔ بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ پاکستان سرکاری طور پر دہشت گرد ریاست بننے جا رہا ہے اور واشگاف الفاظ میں کہہ رہا ہے کہ عمران خان کی ہار سے بھارت کو فائدہ جب کہ ان کی جیت سے بھارت کو نقصان ہوگا۔
بھارتی ٹی وی اینکر نے اداکارو فلم سٹار حمزہ علی عباسی سے سوال کیا کہ الیکشن 2018 ء میں پی ٹی آئی نے برتری حاصل کی ہے ، کیا آپ عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی کی کارکردگی کو دیکھ کر حیران ہیں یا آپ کو پہلے سے ہی اس کی توقع تھی؟ جس پر حمزہ علی عباسی نے کہا کہ الیکشن میں پی ٹی آئی کی برتری بلاشبہ عمران خان کی فتح ہے۔کیونکہ یہ الیکشن نہ تو اسٹیبلشمنٹ نے کروایا ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے فوج تھی۔
عمران خان کا تعلق کسی سیاسی گھرانے سے نہیں ہے۔ انہوں نے کسی آمر کی وجہ سے برتری حاصل نہیں کی ۔ ان کو 24 سالوں کی محنت کے بعد یہ مقام ملا ہے۔ عمران خان کو طالبان خان اس لیے کہا جاتا تھا کیونکہ انہوں نے طالبان کے ساتھ جنگ کرنے سے منع کیا تھا کیونکہ ان کے خیال میں اس وقت وہ جنگ امریکہ کیلئے تھی۔لیکن اب امریکہ ، افغانستان اور بھارت بھی انہی طالبان کے ساتھ مذاکرات بھی کر رہے ہیں اور افغانستان میں انہیں افغانیوں کے طور پر تسلیم بھی کر لیا گیا ہے۔ عمران خان نے جو اس وقت کہا تھا وہ اتنے سالوں کے بعد ان سب کو سمجھ آیا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے مابین دہشتگردی کا نہیں بلکہ کشمیر کا مسئلہ ہے اور ہمیں اسے حل کرنا چاہئیے۔پاک بھارت تعلقات کا براہ راست تعلق مسئلہ کشمیر کے حل سے ہے اور عمران خان بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ بلا شبہ عمران خان بین الاقوامی سطح پر اپنے موقف پر ڈٹے رہنے اور غلط کے خلاف آواز اُٹھانے کی ہمت رکھتے ہیںاور یہی نئے پاکستان کی اصل بنیاد ہوگی ۔