دو نسلوں کا سفر اور چونکا دینے والے حقائق

Jul 30, 2019

اسد اللہ غالب

سعید آسی کا سفر نامہ کس کی لگن میں پھرتے ہو شائع ہوا۔ میںنے جھٹ سے ایک کالم لکھ ماراا ور پھر تو کالموں کی قطار لگ گئی۔ جیسے چندروز قبل عمران خان کی امریکہ واپسی پر ان کے گلے میں ہار پہنانے والوں کی قطار نظر آئی بلکہ یارلوگ دھکم پیل کر رہے تھے کہ کامیاب سفر سے لوٹنے واے وزیر اعظم پر پہلے کون پھول نچھاور کرے گا۔ سعید آسی نے بھی کئی سفر کئے ہوں گے مگر انیس سو نوے ا ور انیس سو چھیانوے کے اس کے دو سفر یادگار بن گئے اور کتاب کی صورت ڈھل کر تاریخ کا حصہ کہلائے۔ سعید آسی دھیمی شخصیت کا مالک ہے مگرا سکی تحریر جواں اور تابناک ہے۔ دلوں میں اتر جانیو الی ۔ دماغوں کو منور کر دینے والی۔ کس کی لگن میں پھرتے ہو۔ اس قدر لاجواب اور دلکش سفر نامہ ہے کہ میںنے اس کی ایک تقریب رونمائی تو نہ کہیں بلکہ تقرب پذیرائی کا اہتمام کیا۔ میرے بس میںہوتا تو نگر نگر کے قلمکاروں کو اکٹھا کرتا جو سعید آسی کو خراج تحسین پیش کرتے لیکن عمرانی دور میں فرانس کے فلسفی اور دانش ور روسو کا معاہدہ عمرانی نافذ نہیں بلکہ گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے۔ اب ہم اپنے سایوں کو دیکھ کر خوش ہو سکتے ہیں۔ لوگوں کی قدر و قیمت گھٹ چکی ہے اور اب تو لکھنے والوں کو ہتھکڑیاں بھی لگ رہی ہیں ، عرفان صدیقی نوائے وقت ہی کے کالم نگار تھے ۔ مگر بعد میں کانٹے والے نے انہیں سیاسی پٹری پر چڑھا دیا ۔ وہ سیاست دان کے طور پر کردار ادا کرنے لگے اور وہ بھی پس منظر میں رہ کر۔ شاید ہی وہ کسی ا سٹیج پر بولے اور بیٹھے ہوں، انہیں ہتھکڑی لگی تو ہر لکھنے نے والے اپنے ہاتھوں کی مالش شروع کر دی۔یہ بڑا عجب زمانہ ہے۔ لکھنے والوں پر یہ پہلا عتاب نہیں ، میاں ممتاز دولتانہ نے تحریک پاکستان کے علم بردار اخبار نوائے وقت کو بند کیا۔ ایوب خان کے وزیر اطلاعات سید احمد سعید کرمانی نے شورش کاشمیری کو نشانہ بنایا اور نوائے وقت کا ایسا ناطقہ بند کیا کہ اس کے بانی ایڈیٹر حمید نظامی ہارٹ اٹیک سے چل بسے۔ بھٹو نے اقتدار میں آنے سے قبل کہا تھا کہ میں سب سے پہلے زیڈ اے سلہری کو فکس اپ کروں گا ۔ وہ سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے تو پہلا حکم سلہری صاحب کی پاکستان ٹائمز سے رخصتی کا جاری ہوا ؛پھر اردو ڈائجسٹ اور زندگی جیسے وقیع جرائد کے مالکان اور ایڈیٹروں کی باری آئی ڈاکٹرا عجاز قریشی ، الطاف حسن قریشی اور مجیب الرحمان شامی کو ہتھ کڑیاں لگیں دوسری طرف پنجاب پنچ کے مظفر قادر اور حسین نقی کو جیل ڈالا گیااور ایک فوجی افسر نے دو چار پیشیوں کے بعد انہیں لاکھوں کے جرمانوں اور طویل قید کی سزا سنائی۔ انگریز دور میں حسرت موہانی اور مو لانا ظفر علی خان بار بار عتاب کا نشانہ بنے اور ابو الکلام آزاد کو بھی قید کیا گیا۔ ضیا دور میں قلم کاروں کو کوڑے مارے گئے اور جلا وطن کیا گیا، نواز شریف نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ حسین حقانی اور نجم سیٹھی کو پابند سلاسل کیا اور مجھے مار مار کر ادھ موا کیا۔ مشرف دور میں بھی صحافیوں پر کرم نوازی جاری رہی ۔ا ن کی مونچھیں ،بھنویں اور سر کے بال مونڈ کر انہیں ویرانوں میں بے ہوش پھینک دیا گیا۔ اس پس منظر میںعرفان صدیقی کی ہتھکڑی کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں لیکن ان کی رہائی غیر معمولی ضرور ہے۔ کاش ! ہر صحافی کے پیچھے کوئی غیر مرئی اور طاقت ور شخصیت ہو جو اتوار کی چھٹی کے روز بھی ہتھ کڑیاں اتروا دے۔ کالم کار سیاست دان نہیں ہوتے ، قلم کے مزدور ہیں ،۔ چند ایک کی مزدوری قابل رشک ہو سکتی ہے۔ باقی تو دو وقت کی روٹی اور میرے جیسے تو ماہوار دوائیں بھی خریدنے کی سکت نہیں رکھتے ،اس ماحول میں سعید آسی خوش قسمت لکھاری ہیں کہ ان کی ستائش کے لئے کئی اصحاب ایک جگہ اکٹھے ہوئے اور ان کے سفرنامے کس کی لگن میں پھرتے ہو پر خوب دل کھول کر داد دی گئی ۔ کتاب کے ناشر علامہ عاصم الگ خوش نظر آتے تھے جنہوںنے اس سفر نامے کی اشاعت اور وہ بھی دیدہ زیب اشاعت کااہتمام کیا۔ کتاب ہاتھوں میں ہو تو انسان ویسے ہی اسے دیکھ کر جھوم جھوم جاتا ہے۔ علامہ صاحب ایسی ہی کتابوں کی اشاعت کرتے رہیں اور اپنا نام کماتے رہیں۔
تقریب پذیرائی کی بڑی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں سید افضل حیدر جیسی بزرگ ہستی تشریف فرما تھی۔ وہ ایک قابل فخر ایڈوو کیٹ، ایک سرگرم سیاسی کارکن ،انسانی حقوق کے محافظ ، تاریخ میں یاد رکھے جانیوالے جج کے طور پر کام کرتے رہے وہ لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور وزیر قانون بھی بنے مگر ان کی اصل شہرت ان کا علمی اور خاندانی پس منظر ہے جس کا ایک اجمالی ذکر انہوںنے اس تقریب میں کیا اور بتایا کہ سعید آسی سے ان کا تعلق ستر برس سے ہے میں چونکا ستر برس تو سعید آ سی کی عمر بھی نہیں۔ وہ بولے کہ ذرا دل تھام کے سنئے تو سہی۔ وہ بتا رہے تھے کہ ان کے والد سید محمد شاہ اور سعید آسی کے والد چوہدری محمد اکرم قیام پاکستان سے قبل ایک دوسرے سے شناساتھے ۔سید محمد شاہ تحصیل پاک پتن مسلم لیگ کے سربراہ تھے۔ تقسیم ہند سے قبل یہ تحصیل ملک بھر میں ایک وسیع رقبے پر محیط تھی ۔ ایک طرف قصور۔ دوسری طرف چیچہ وطنی ۔تیسری طرف فاضلکاا ور چوتھی طرف بصیر پور،یہ آج کے آٹھ اضلاع پر پھیلی ہوئی تھی ۔ اس زمانے ،میں سعید آسی کے والد گرامی محکمہ مال میں تھے اور سید محمد شاہ کو قائد اعظم نے یہ ذمے داری سونپی تھی کہ وہ تقسیم ہند کے فارمولے اور حد بندی پر نظر رکھیں ۔اس سلسلے میں وہ سعید آسی کے والد کے مشکور ہیں کہ انہوںنے محکمہ مال کے انتہائی بیش قیمت کاغذات تک میرے والد کو رسائی دی اور ان کی مدد سے مسلم لیگ نے لاہور ہائی کورٹ میں سنتالیس کا مقدمہ جیتا جس میں سید محمد شاہ قائداعظم کی طرف سے پیروی میں مصروف رہے اور جب مقدمے کا فیصلہ ہوا تو ہندو وکیل نے محمد شاہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فضا میں بلند کرتے ہوئے اعتراف کیا۔ شاہ صاحب نے پاکستان کا مقدمہ لڑنے کے لئے مضبوط اور محکم دلائل پیش کئے۔ مگر سوال یہ ہے کہ جب اعلان آزادی کے مطابق گورداسپور کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا تھا تو پھر ریڈ کلف نے ڈنڈی کیوںماری اور کیا اس دھوکہ دہی کا پتہ سید محمد شاہ اور چودھری محمد اکرم کو چلا یا نہیں۔ اس غیر انصافی کی وجہ سے پنجاب میں ایسی تقسیم ہوئی کہ راتوں رات لاکھوں مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور ہونا پڑا۔ یہ کہانی بڑی درد ناک ہے اور سید افضل حیدر سے میںنے دعدہ لیا ہے کہ وہ اگست میںکسی ہفتے پھر ہمارے درمیان تشریف لائیں اور ساری کہانی کھولیں کہ یہ عظیم دھوکہ ہوا تو کیسے ہوا۔ کیا سید افضل حیدر اور سعید آسی کے والد اس دھوکہ دہی کی واردات سے باخبر ہو سکے اور کیاا نہوںنے اس کے بارے میں قائد اعظم کو سب کچھ بتایا یا نہیں۔ سعید آسی کے سفر نامے کا ذکر تو ادھورا رہ گیا مگر وہ سفرجو پاکستانی قوم نے چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی شب شروع کیا تھا۔ وہ آگ اور خون کے سمند رکی بھینٹ کیوں چڑھ گیا۔ا س سفر کی حقیقت کو جان پائیں تو پھر سعید آسی کے سفر نامے کی بات بھی ہو جائے گی۔ سید افضل حیدر سے میںنے فون پر یہ ساری کہانی سنی ہے۔ یہ چشم کشا ہے، حیرتوں میں ڈبود ینے والی ہے۔ اوسان خطا کر دینے والی ہے اور تاریخ کے اوراق کو درست کر دینے والی بھی۔ یہ کہانی سن کر میں بتائوں گا کہ پاکستان چودہ اگست کو نہیں بلکہ پندرہ اگست کو بنا مگر اس کی سرحدوں کا اعلان سترہ اگست کو ہوا۔ پندرہ اگست کو جو ملک بن رہا تھااسے اپنی سرحدوں کا ہی علم نہ تھا۔جس ملک کی شروعات اس قدر اسرار میں ڈوبی ہوئی ہوں تو اس کی انتہا کیا ہو گی، پہلے دشمنوں کی تلواریں لہرائی تھیں ۔ برچھیوں سے معصوم بچوں کو شہید کیا گیا ۔ آج قلم کاروں پر اس ملک کی زمین تنگ کر دی گئی ہے مگر ذرا سانس روک لیجئے صاحب۔ پوری کہانی سن لوں تو آپ کو بھی تلخ حقائق سے آگاہ ضرور کروں گا۔ اور یہ بھی بتائوں گا کہ مینار پاکستان کی گرائونڈ میں جو قرارداد منظور ہوئی، وہ قرارداد لاہور کہلائی۔ اس میں پاکستان کے قیام کامطالبہ نہیں کیا گیا تھا اور یہ قرارد داد لاہور بھی تیئیس مارچ کو نہیں بلکہ چوبیس مارچ کو منظور کی گئی تھی۔ آئیے سچ کی تہہ تک پہنچنے کے سفر پر نکلتے ہیں۔

مزیدخبریں