اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی/ نیوز رپورٹر) قومی اسمبلی میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے ارکان گتھم گتھا ہوتے ہوتے رہ گئے۔ پی ٹی آئی کے کراچی سے ارکان عطاء اللہ، فہیم خان اور پیپلز پارٹی کے ٹنڈو الہ یار سے رکن ذوالفقار بچانی نے ایک دوسرے پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی لیکن دونوں اطراف سے سینئر ارکان نے مداخلت کر کے مشتعل ارکان کو ایک دوسرے سے الگ کیا۔ ڈپٹی سپیکر مسلسل ارکان کو اپنی نشستوں پر بیٹھنے کی ہدایت کرتے رہے مگر کسی نے انکی ایک نہ سنی، بدنظمی اور ہنگامہ آرائی کے باعث ڈپٹی سپیکر نے اجلاس یکم اگست سہ پہر4 بجے تک ملتوی کر دیا۔ کراچی میں پی ٹی آئی کے رکن محمد عالمگیرخان کی گرفتاری اور شہر میں پانی کی عدم فراہمی پر پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے ارکان کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید کی تقریر کے بعد پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے ارکان نے نکتہ اعتراض پر بات کرنے کیلئے ڈپٹی سپیکر سے فلور مانگا لیکن ڈپٹی سپیکر نے فلور دینے سے انکار کر دیا جس پر پیپلز پارٹی نے احتجاج شروع کر دیا اور کورم کی نشاندہی کرنا چاہی جس پر ڈپٹی سپیکر نے پیپلز پارٹی کے رکن عبدالقادر پٹیل کو بات کرنے کی اجازت دے دی جس پی ٹی آئی کے کراچی سے ارکان نے احتجاج شروع کر دیا۔ اس موقع پر پی ٹی آئی کے کراچی سے منتخب ارکان نے نے نعر ے لگائے کے سیاست کی بجائے کراچی پر بات کرو، پی ٹی آئی کے کراچی سے این اے 250سے منتخب عطاء اللہ اور پیپلز پارٹی کے ٹنڈو الہ یار سے رکن ذولفقار بچانی میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، اس دوران پی ٹی آئی کراچی سے فہیم خان پیپلز پارٹی کے رکن کو مارنے کیلئے لپکے جس پر پیپلز پارٹی کے رکن بھی مشتعل ہو گئے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت نے قومی اسمبلی کی خارجہ کمیٹی کو دورہ امریکہ کے حوالے سے اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے، امریکہ اور اس کے ساتھیوں کی حکمت عملی تھی کہ ملٹری آپریشن کے ذریعے افغانستان میں اپنے مقاصد حاصل کر لیں گے لیکن اس میں تبدیلی آئی ہے، اب ایک جھکائو نظر آیا اور ایک نئے سفر کا آغاز ہوا ہے، یہ سفر مشکل ہے، افغانستان کے مسئلہ کے سیاسی حل کی جانب امریکہ کو قائل کرنا مشکل تھا، اس پر حکومت کو کامیابی ملی ہے، کچھ ہم نے اپنی طرف سے اقدامات کئے اور کچھ سرحد پر سے اقدامات ہوئے تھے، نیشنل ایکشن پلان کے تحت ایک نئی سمت طے کی گئی ملک کے اندر چاہے جتنے سیاسی اختلافات ہوں لیکن پاکستان کے دفاع پر کوئی اختلاف نہیں اور پاکستان کے مفاد کے لیے پوری قوم ایک ہے، افغانستان کے مسئلہ کے سیاسی حل کی جانب امریکہ کو قائل کرنا مشکل تھا، یہ ایک بڑی تبدیلی ہے۔ سرحد کی دوسری طرف دہشت گردوں کی آماجگاہیں موجود ہیں، جو پاکستان کے اندر کارروائیاں کرتے رہے ہیں، امن کو تباہ کرنے والے عناصر کے حوالے سے دورہ امریکہ میں بات ہوئی، افغان امن عمل کو آگے بڑھانے کیلئے ہم نے نیک نیتی سے کام کیا، امن کے مخالف نہیں چاہتے کہ خطے میں امن ہو اور پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہتر ہوں، طالبان مذاکرات کی میز پر آگئے ہیں اور وزیر اعظم عمران خان کی خواہش پر وہاں سے مثبت جواب آیا۔ پاک فوج کے دس سپوتوں نے جام شہادت نوش کیا اور ثابت کیا کہ مادر وطن کی حفاظت کیلئے تیار ہیں ، اپنے لہو سے ملک کی سرحدوں کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ایوان ان کو خراج تحسین پیش کرتی ہے، قربانیوں کا اعتراف کرتا ہے اور لواحقین کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتا ہے۔ اگر سارے عمل کا بغور جائزہ لیا جائے تو آپ کو اندازہ ہوگا، اگست 2018 ء میں پاکستان کہاں کھڑا تھا، ٹرمپ انتظامیہ نے جنوبی ایشیا سٹریٹجی کا اعلان کیا تھا، اس کے تحت افغانستان میں جتنی دشواریاں تھیں سب پاکستان کے کھاتے میں ڈال دیں اور سب قباحتوں کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا، ایک دور تھا امریکا نے پاکستان سے تربیتی پروگرام تک ختم کیے، افغانستان میں عسکری قوتوں کو مذاکرات پر لانا بڑا چیلنج تھا۔ معاشی اور سکیورٹی معاونت معطل کی گئی، ان حالات میں تحریک انصاف نے حکومت سنبھالی، 11ماہ میں بتدریج تبدیلی آئی۔ علاقہ غیر کو اب خیبر پی کے کا حصہ بنایا‘ پرامن وہاں پر انتخابات ہوئے، دنیا نے اس کو تسلیم کیا۔ مصالحتی عمل کے ذریعے انٹرا افغانستان ڈائیلاگ کی کوشش کر رہے ہیں ، امن عمل کو آگے بڑھانے کیلئے ہم نے نیک نیتی سے کام کیا ، زلمے خلیل نے اس کو تسلیم کیا ، پورپین یونین ، جرمنی اور روس بھی دلچسپی لے رہے ہیں۔ اے پی اے سی کا نیا میکنزم طے کیا ہے جس کے تحت امن کیلئے کام کر رہے ہیں ، کوشش کر رہے ہیں کہ غلط فہمیوں کا شکاف کم کریں، پاکستان ، افغانستان میں کسی خاص طبقہ کو سپورٹ نہیں کرتا، بڑی کامیابی تھی ، وہاں پر پاکستان نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا، پاکستان کے مفادات کیلئے سب کو ایک ہونا ہوگا۔ قبل ازیں بزنس کمیٹی اجلاس میں طے کیا گیا کہ 13واں سیشن 9 اگست تک جاری رہے گا۔ دولت مشترکہ کانفرنس کے باعث منگل اور بدھ کو قومی اسمبلی اجلاس نہیں ہوگا۔ اپوزیشن نے اجلاس میں زیر حراست اراکین کے پروڈکشن آرڈر کا معاملہ اٹھایا تاہم سپیکر اسد قیصر نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) نے درخواست ہی نہیں دی پیپلزپارٹی کی درخواست پر غور جاری ہے۔ سپیکر اسد قیصر نے کہا کہ پروڈکشن آرڈر کے لئے اپنا اختیار استعمال کر ینگے۔ جن اراکین کا معاملہ انکے سامنے ہے اس پر قانون کے مطابق فیصلہ ہوگا۔ شہباز شریف کی پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید شاہ سے ملاقات ہوئی۔ سیدخورشید شاہ نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کی حیثیت آہستہ آہستہ ختم کی جا رہی ہے جبکہ سپیکر کا کردار ختم ہو گیا ہے،پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے بھی عدالتیں اور دیگر ادارے اپنی مرضی چلا رہے ہیں،تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی وزیر عوام کے درمیان کھڑے ہوکر مغلظات بکے، وزیر اعظم کا کردار اس وقت ایک جیلر یا سپریٹنڈنٹ جیل کا ہے، جو کہتا ہے کہ اے سی اور ٹی وی بھی چھین لوں گا لیکن ہمیں افسوس ہوتا ہے وزیر اعظم ایک جیلر کی حیثیت بھی پوری نہیں رکھتا، کبھی ایوان میں اسپیکر کو بے بس ہوتے نہیں دیکھا تھا، سپیکر نے کوئی فیصلہ کرنا ہوتا ہے تو وہ قائد ایوان کی طرف دیکھتا ہے۔