اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نوائے وقت رپورٹ) چیف جسٹس نے فوری اور سستے انصاف فراہم کرنے کے حوالے سے تقریب سے خطاب میں کہا ہے کہ قرآن پاک میں ہے جب کوئی فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو‘ مقدمات کی کاز لسٹ لوگوں کی امانت سمجھتا ہوں۔ انصاف کرنے میں جو سکون ملتا ہے اس کا نعم البدل نہیں۔ قرآن پاک میں ہے اﷲ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ بہتر انصاف نہ کرنے والوں کو اﷲ تعالیٰ عبرت کا نشان بنا دیتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ انسانوں کے توسط سے فیصلے کراتا ہے۔ انصاف کی فراہمی ججز پر بھاری ذمہ داری ہے جس سے اﷲ تعالیٰٖ محبت کرتا ہے۔ اسے کوئی پریشانی نہیں آ سکتی۔ عدالتی کیریئر میں کئی بار مشکل وقت آیا لیکن اﷲ تعالیٰ پر بھروسہ رکھا۔ جج کی حیثیت سے خود کو لالچ اور خوف سے آزاد رکھنا ہو گا۔ میرے ساتھ 8 ججز ہائی کورٹ میں آئے تھے۔ بہت جلد ہمیں جنون گروپ کہا جانے لگا۔ ہمیں جنون گروپ اس لئے کہا جاتا کہ ہمیں کام کا جنون تھا۔ میری عدالت میں کیسز کارروائی کیلئے نہیں فیصلے کیلئے لگتے ہیں۔ کیس کے دلائل کورٹ میں بیٹھے سب لوگ سنتے ہیں۔ خدانخواستہ وکیل انتقال کر جائے تب کیس ملتوی ہو سکتا ہے۔ میں نے کئی بار وکلاء کو کہا کہ کیس ملتوی نہیں کروں گا۔ ہمیں عدالت میں فیصلہ کرنا چاہئے صرف دن نہیں گزارنا چاہئے۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے‘ آپ کسی کا وسیلہ نہیں۔ ہم سے فیصلے کی امید کی جاتی ہے۔ ہم وکلاء کو دلائل سے راغب کرنے کا کہتے ہیں۔ اسلام آباد میں صرف 41 کریمنل اپیل باقی رہ گئی ہیں یہ اپیلیں بھی آئندہ ہفتے ختم ہو جائیں گی۔ لاہور میں 91 ‘ پشاور میں 9 کریمنل اپیلیں رہ گئیں جبکہ کوئٹہ اور کراچی میں کریمنل اپیلز صفر رہ گئی ہیں۔ بہت سے ایسے کیسز کے فیصلے بھی کئے جن میں جان کا خطرہ بھی تھا۔ اﷲ کو حاضر ناظر جان کر جو صحیح لگا وہ فیصلہ کر دیا۔ مذہبی معاملات بھی سامنے آئے۔ میں نے جو بھی فیصلے کئے عزت ملی۔ بہت سے عدلیہ کی آزادی کے بارے میں کہتے ہیں۔ عدالت پارٹی کے پیچھے نہیں بھاگے گی۔ عدالت ایک سہولت دے گی۔ دونوں فریقین کو بلا کر کیس سے متعلق معیاد مقرر ہو گی۔ فریقین اس سہولت سے مستفید نہ ہوئے تو گلہ نہیں کر سکیں گے۔ دریں اثناء چیف جسٹس نے صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت میں کہا کہ عرفان صدیقی کو ہتھکڑیاں لگانے سے عدلیہ کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ آئی جی سے بھی کہا اس معاملے سے سبکی ہوئی۔خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ میں رواں سال جنوری میں 42500 مقدمات زیرالتواء تھے، 2500مقدمات نمٹائے گئے یوں زیر التواء مقدمات کی تعداد40 ہزار رہ گئی ہے، ججز محنت سے کام کریں، اللہ بہت اجر دے گا۔ اگر کوئی جج فیصلہ نہیں کر رہا تو لوگ اس کی عزت کیوں کریں گے؟ ٹکڑے ٹکڑے کر کے کیس چلانا مناسب عمل نہیں ہے، دلائل سنیں اور فیصلہ کر دیں۔ وکلا، سائلین کو بھی پتہ ہونا چاہیے کہ انکے پاس کیس کیلئے مقررہ وقت اتنا ہے۔