ارشد داد کو داد کون دے گا؟؟؟؟

پاکستان تحریک انصاف کے نظریاتی و بانی اراکین کو یاد کرنے کا سلسلہ اس لیے بھی باعث اطمینان ہے کہ ہم اس ملک کے ان گمنام محسنوں کو یاد کر رہے ہیں جنہوں نے عمران خان کی قیادت میں ملک میں حقیقی تبدیلی کا خواب دیکھا تھا۔ ان نظریاتی و بانی کارکنوں نے ناصرف خواب دیکھا بلکہ اس خواب کی تعبیر کے لیے برسوں جان توڑ محنت بھی کی یہ بحث الگ ہے کہ اقتدار ملنے کے بعد پی ٹی آئی اپنے منشور پر قائم رہی یا نہیں، پاکستان تحریک انصاف جس نظریے کی بنیاد پر قائم ہوئی اس نظریے پر قائم رہ سکی یا نہیں یہ مکمل طور پر ایک الگ بحث ہے لیکن اس میں ان وفا شعار، محنتی، ایماندار اور وطن سے محبت کرنے والے سینکڑوں، ہزاروں افراد کا کوئی قصور نہیں ہے جنہوں نے انیس سو چھیانوے سے دوہزار اٹھارہ تک پی ٹی آئی کے لیے دن رات محنت کی۔ جب ہم اس جماعت کے بے لوث اور محنتی کارکنوں کو یاد کرتے ہیں تو یہاں ہمیں ارشد داد کا نام نمایاں نظر آتا ہے۔ ارشد داد کا عمران خان سے تعلق انیس سو چھیانوے سے پہلے کا ہے لیکن انہیں پی ٹی آئی میں شامل ہونے کے لیے منصور صدیقی نے قائل کیا تھا۔ اس وقت سے آج تک انہیں جو ذمہ داری دی گئی اسے نبھانے کی ہر ممکن کوشش کی وہ اس وقت بھی کوئی عہدہ رکھتے ہیں لیکن ارشد داد کو اتنے عہدوں پر گھمایا گیا ہے کہ وہ کسی ایک جگہ بھی اپنی صلاحیتوں کے مطابق پرفارم نہیں کر سکے جس جگہ وہ سیٹ ہونے لگتے تھے انہیں تبدیل کر کے کسی اور جگہ بھیج دیا جاتا تھا۔ ان کے ساتھ یہ رویہ برسوں سے ہے۔ ایک لمبے عرصے سے وہ انہی حالات میں کام کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے لیے ان کی خدمات بہت زیادہ ہیں انہوں نے اس عرصے میں کئی لوگوں کو ان کا حق لے کر دیا۔ ارشد داد جیسے افراد حقیقی معنوں میں پی ٹی آئی کا چہرہ ہیں۔ وہ اس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو میرٹ، انصاف، قانون اور آئین کی بالادستی کے لیے ڈٹ جاتے ہیں۔ ارشد داد کا عمران خان سے وفا، محبت، خلوص اور دل کا رشتہ ہے انہوں نے جماعت کو نچلی سطح پر مضبوط بنانے کے لیے بہت محنت کی ہے۔ سخت محنت، لمبی رفاقت اور قربانیوں کے باوجود اقتدار میں آنے کے بعد بھی انہیں حقیقی تبدیلی کے لیے کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ ان کا عمران خان کے ساتھ دل کا رشتہ آج بھی قائم ہے۔ ارشد داد نے اپنے سیاسی کیرئیر میں کبھی اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا، آئین و قانون کی پاسداری کے لیے ڈٹے رہے۔ اپنی جماعت میں انہوں نے کئی مرتبہ اہم فیصلوں ہر اختلاف رائے سے جماعت کو بڑوں کو آئین پر عمل کرنے کا سبق دیا۔ ایک طرف وہ عمران خان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں لیکن پارٹی اجلاسوں میں وہ پارٹی آئین کی خلاف ورزی کرنے والے طاقتور دھڑے کے ہمیشہ بڑے مخالف رہے۔ برسوں کی محنت کے بعد ان کے جذبے میں کوئی کمی نہیں آئی وہ آج بھی سیف اللہ نیازی کے ساتھ مل کر اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی پر ان دنوں وہ لوگ قابض ہیں جن کا جماعت کے منشور اور اس نظریے سے کوئی تعلق نہیں ہے نہ ہی ان لوگوں کی وفاداریاں عمران خان کے ساتھ ہیں وہ صرف طاقت اور اقتدار کے لیے عمران خان کے ساتھ ہیں ان الیکٹیبلز کی وجہ سے نظریاتی و بانی کارکن عمران خان سے بہت دور چلے گئے ہیں۔ حالات کو سمجھتے ہوئے ارشد داد نے کام کرنے کا طریقہ بدل لیا ہے۔ جب انہوں نے یہ دیکھ لیا ہے کہ مسلسل بولنے کے باوجود کوئی اثر نہیں لیتا، میرٹ اور آئین کی بات کرنے پر سوائے دشمنیوں کے کچھ نہیں مل رہا تو ارشد داد نے خاموشی اختیار کر لی ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اگر جماعت کو نچلی سطح پر مضبوط بنانا چاہتے ہیں نئے آنے والوں میں تحریک پیدا کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ارشد داد جیسے محنتی، ایمان دار، وفا شعار، آئین و قانون سے محبت کرنے اور میرٹ کے لیے ڈٹ جانے والے افراد کو آگے لانا ہو گا۔ پارٹی کے لیے گرانقدر خدمات کے صلے میں انہیں کم از کم سینیٹ میں تو لانا چاہیے۔ ہم برسوں سے ارشد داد کو دیکھ رہے ہیں وہ سیاسی طور پر باشعور، نرم مزاج، دلائل کے ساتھ گفتگو کرنے والے، نظریاتی سیاست کرنے والی شخصیت ہیں۔ وہ اپنے مقصد کے ساتھ جڑے رہنے والے سیاسی کارکن ہی نہیں بلکہ نیک دل انسان بھی ہیں۔ گجرات میں اپنے گاؤں کے قریب کئی فلاحی منصوبوں کے ذریعے دکھی انسانیت کی خدمت بھی کر رہے ہیں۔ انہیں زرعی شعبے میں کوئی اہم ذمہ داری دی جائے تو اس شعبے میں بہتری لانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ ناصرف ملکی زراعت کو درپیش مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ کسانوں کے مسائل کو بھی سمجھتے ہیں۔ زرعی شعبے میں بہتری کے لیے ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ ایک باوقار، ایماندار، باشعور سیاسی کارکن کو خدمات کے اعتراف میں ملک و قوم کی خدمت کا موقع ضرور ملنا چاہیے۔ ارشد داد نے اپنے سیاسی کیرئیر میں قابل داد کام کیے ہیں لیکن بدقسمتی سے پی ٹی آئی میں انہیں کسی نے داد نہیں دی ارشد داد کو داد دینے سے کسی کا قد چھوٹا نہیں ہو جائے گا لیکن ان کی خدمات کا اعتراف کرنے سے اچھی سیاسی روایات کو ضرور فروغ مل سکتا ہے۔ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کو یہ سمجھ لینا ہو گا کہ نظریاتی و بانی اراکین ہی پارٹی کی جان ہوا کرتے ہیں یہی لوگ سیاسی وارث ہوتے ہیں۔ ادھر ادھر سے آنے والے صرف ضرورت کے تحت ساتھ ہوتے ہیں یہ لوگ کبھی مشکل وقت میں جماعتوں کا ساتھ نہیں دیتے، پارٹی کے لیے مصائب اور تکالیف کا سامنا صرف نظریاتی کارکن ہی کرتے ہیں۔ ارشد داد اور ان جیسے دیگر بانی کارکنان کو عزت دیں۔ یہ لوگ بائیس برس کی جدوجہد میں آپ کے ساتھ رہے ہیں یہ اہلیت میں کسی بھی طرح کسی پرانے سیاست دان سے کم نہیں ہیں۔ ممکن ہے یہ منجھے ہوئے سیاستدانوں سے زیادہ بہتر پرفارم کریں۔
استعفوں کا موسم ہے دو استعفوں کی خبریں آپ تک پہنچ چکی ہیں ان استعفوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ اسلام آباد میں اس حوالے سے ابھی کھیل ختم نہیں ہوا۔ استعفوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ سننے میں آ رہا ہے کہ کچھ اور لوگ بھی خطرے میں ہیں۔ دونوں کو مستعفیٰ ہونے کے لیے کہا گیا یا پھر وہ دونوں خود ہوئے۔ سب باتیں بے معنی ہیں اس حوالے سے کوئی دوسری رائے نہیں ہونی چاہیے کہ کابینہ میں موجود افراد صرف پاکستانی ہونے چاہییں۔ دوہری شہریت یا بیرون ملک سے آنے والا کوئی بھی شخص فیصلہ سازی میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔ قومی اسمبلی میں موجود منتخب نمائندے اگر وزارت چلانے کی اہلیت نہیں رکھتے تو پھر انتخابات کے لیے اتنی لمبی مشق کی کیا ضرورت ہے۔ اگر کسی کو ملک کی خدمت کا شوق ہے تو عملی سیاست میں آئے اگر وہ ملکی سیاست کا حصہ نہیں بننا چاہتا تو خدمت کے لیے وزیراعظم کا مشیر بننے کی کیا ضرورت ہے ملکی خدمت کے دیگر ذرائع استعمال کرے۔ فیصلہ سازی صرف پاکستانیوں کا ہی حق ہے۔
میاں شہباز شریف کہتے ہیں کہ یہ وقت تصادم اور ٹکراؤ نہیں آگے بڑھنے کا ہے۔ میاں صاحب دیر کس چیز کی ہے اور انتظار کس کا ہے آگے بڑھیں ہم آپ کے ساتھ ہیں لیکن کرپشن کو چھپانے کے لیے اسمبلوں کا سہارا تو نہیں لینا چاہیے۔ نیب قوانین میں ترمیم پر جو کچھ آپکی جماعت نے کیا ہے کیا وہ ملک و قوم سے زیادتی نہیں ہے۔ یہ کیسے ملک و قوم کے مفاد میں ہے کہ پانچ سال سے زائد پرانے کرپشن کیس پر ایکشن نہ لیا جائے۔نیب کو حرکت میں آنے کے لیے ایک ارب تک کرپشن کا انتظار کرنا پڑے گا۔ یعنی ایک ارب تک کرپشن کو قانونی حیثیت دے دی جائے۔ میاں صاحب ایسے تو نہ کریں اگر آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو واضح پالیسی اپنائیں قوم کی رہنمائی کریں۔ پارلیمنٹ میں اپنے اراکین کی تعداد کے پیچھے چھپنے کی کوشش تو نہ کریں۔
یوٹیلیٹی اسٹورز پر چیزیں مہنگے داموں فروخت ہو رہی ہیں پچاس ارب کے پیکج کے باوجود یہ حال ہے۔ ہم متعدد بار لکھ چکے ہیں کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کو پچاس ارب صرف پیسے کا ضیاع ہے۔ ادارہ مختلف تنازعات کا شکار ہے۔ اعلیٰ سطح پر غیر سنجیدہ افراد کو ذمہ داریاں دی گئی ہیں ان حالات میں کسی بہتری کی امید نہیں ہے۔ دوسری طرف محکمہ خوراک میں بغیر منصوبہ بندی کے ساتھ ہونے والی کارروائیوں کے بعد فیلڈ سٹاف کے ردعمل کے نتیجے میں فلور ملوں کو گندم اٹھانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ گذشتہ کئی روز سے یہ اطلاعات مل رہی ہیں کہ فلور ملز گندم کی مقررہ مقدار اٹھانے کا موقع نہیں مل سکا۔ حکومت کو زمینی حالات سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مختلف اداروں میں مافیاز کے نمائندے موجود ہیں اور مافیاز حکومت کے خلاف کام کر رہے ہیں لیکن کب کس کے خلاف کارروائی کرنی ہے اس کے لیے وقت کا تعین نہایت اہم ہے۔ حکومت کو کم از کم تاجروں کے ساتھ تو تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے کیونکہ تاجر نہ تو مافیا ہیں نہ بلیک میلر ہیں اور نہ ہی حکومت کے مخالف کام کر رہے ہیں ان کے اپنے مسائل ہیں اور حکومت کی بنیادی ذمہ داری ان مسائل کو حل کرنا ہے اگر دوکانداروں تک چینی اسی روپے ملے گی تو وہ ستر روپے کلو کیسے فروخت کر سکتے ہیں اگر انہیں آٹے کا تھیلہ ساڑھے آٹھ سو روپے کا ملے گا تو وہ آٹھ سو کا کیسے فروخت کر سکتے ہیں۔ حکومت کو قیمتوں کا تعین کرنے کے لیے زمینی حقائق کو سمجھنا ہو گا۔ روپے کی قیمت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ پیٹرول، ڈیزل، بجلی، گیس، تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ہر چیز کی لاگت بڑھ گئی ہے، سیلز ٹیکس میں اضافہ ہوا ہے۔ ٹرانسپورٹ کے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ حکومت اس طریقہ کار کو سمجھے بغیر کوئی بھی حکم جاری کرے گی تو اس پر عملدرآمد ممکن نہیں ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...