ڈاکٹر کرن کو پنجابی سے والہانہ لگاؤ تھا وہ ایسے ٹھیٹ لہجے میں بولتی تھیں کہ امرتا پریتم کی یادیں جھلملا نے لگتی تھیں۔دنیا کی چوٹی کی درس گاہ ہارورڈ سے ریٹائرمنٹ کے بعد ڈاکٹر کرن عزیز چوہدری یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے برکلے کیمپس میں پڑھارہی تھیں، قبل ازیں وہ پاکستان کیLUMSکاروباری علوم کی درسگاہ میں بھی پڑھا چکی تھیں اسی طرح ترکی میں بھی اپنے علم وفضل سے پنجابی دانش سے عالمی سطح پر روشن چراغ کرکے سربلند اور سرخرورہیں کہ اچانک Massive cardiac Arrestنے آن لیا جس کے شکار کو پلک جھپکنے کاموقع بھی نہیں ملتا۔ 25جون سے 21 جولائی تک انور عزیز چوہدری کے لیے دکھ کا طویل سفر تھا کہ کرن کو وصیت کے مطابق واپس پاکستان لایاجائے، جان جوکھوں اورپیچیدہ مراحل درپیش تھے۔جس کے لیے کرنکے بھائی دانیال عزیز چوہدری کو امریکہ جانا پڑا۔ انکے امریکہ میں مقیم دونوں بھائی بینکار عادل عزیز اوربلال عزیز چوہدری بھی برکلے پہنچ گئے تھے جنہوں نے وراثت اورکرن کو پاکستان واپس لے جانے کا طویل قانونی اورپیچیدہ مرحلے صبرآزما طریقے سے مکمل کیا۔ کرونا کی وبا نے امریکہ میں بھی معمول کا کاروبار ٹھپ کررکھا تھا۔ برکلے سے کرن کی میت کو خصوصی طیارے سے لاس اینجلس لایا گیا اس کا پاسپورٹ تلاش کیا گیا اورسفری دستاویزات تیار کی گئیں اس طرح بھائیوں نے پروفیسرکرن عزیز چوہدری کی شکرگڑھ میں دفن ہونے کی وصیت کوممکن کردکھایا۔نماز جنازہ کاوقت تین بجے سہ پہر مقررکیا گیا تھا لیکن بعدازاں کرونا خدشات کے پیش نظر رش سے بچنے کے لیے 11بجے صبح قبل ازوقت نمازجنازہ کرادی گئی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ میری سماعتوں میں اس دانشمند بزرگ کے الفاظ گونج رہے ہیں’’مولا انج دیاں دھیاں سب نوں دے جو مرن تو بعد وی ماپیاں دا گھر آباد کرن پرت آون ‘‘ اور عظمت پروفیسر ڈاکٹر کرن عزیز چودھری پر ٹوٹ ٹوٹ کر برس تھی کہThe Price of Wealth: Economies and Institutions in the Middle East.اورTrauma and Memory in Istanbul, Forthcoming جیسی عالمی معاشیات پر لکھی جانے والی کتابوں پر گوجروں کی دانش اور محبت بھاری پڑ رہی تھی۔ کرن کی والدہ نے آنسوئوں اور آ ہوں میں گندھا ہوا نوحہ لکھا ہے۔
17مارچ1959میں سرگودھا میں آنکھ کھولنے والی پروفیسر ڈاکٹر کرن عزیز چوہدری نے امریکہ میں اعلیٰ ترین اور چوٹی کی درس گاہوں میں پڑھا اور پڑھایا 25 جون 2020ء کو آخری سانس لینے تک وہ کیلی فورنیا یونیورسٹی، برکلے میں پولیٹیکل سائنس کی ایسوسی ایٹ پروفیسرکے طورپر خدمات انجام دے رہی تھیں۔ ’برکلے ہِل‘ میں ایک چھوٹا سا گھر ان کا آشیانہ تھا۔
پانچ سال کی عمر میں مہری پور کے چھوٹے سے گائوں سے حصول علم کا سفر شروع کیا جہاں کوئی سکول نہیں تھا لہذا قریب کے ایک گائوں کے سکول کا انتخاب ہوا۔ خالص دیہی انداز میں ٹاٹ پر بیٹھ کر اس ننھی پری نے اردو پڑھنا لکھنا شروع کی۔ تختی، کانے کا روایتی قلم اور روشنائی ہر دیہی بچے کی طرح مستقبل کی اس بڑی عالمہ کے حصول علم کے ابتدائی کھلونے تھے۔ وہ گھوڑے پر بیٹھ کر سکول جاتی کیونکہ سکول تک کوئی سڑک موجود نہ تھی۔ گھروالے لاہور منتقل ہوئے توگویا کرن کی تعلیم کا نیا دروازہ کھل گیا، ایک نئے دور کا آغاز ہوگیا۔ کتھیڈرل سکول اور پھرلڑکیوں کیلئے نجی سکول ’ایسینا‘ (Essena) میں علم کا سفر جاری وساری ہوا۔ لاہور امریکن ہائی سکول سے تین سال میں انہوں نے گریجویشن مکمل کرلی۔ یہاں سے ان کی تعلیمی پرواز مزید بلند ہوئی۔ مشہور علمی درسگاہ ’میساچوسٹس یونیورسٹی‘ University of Massachusetts سے ’مشی۔گن یونیورسٹی، این آربر‘ (University of Michigan) سے انہوں نے سیاسیاتمیں اعلی ترین اعزاز سے ’بی۔اے‘ کیا۔ پھر مئی 1980 میں انگریزی ادب کی سند حاصل کی۔ یونیورسٹی آف مشی گن میں بہترین مقالہ نگاری پر انہیں ’سینئر آنرتھیسز ایوارڈسے نوازا گیا۔
ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیمی وظیفے کی مستحق قرار پائیں۔ 1988-90 کے عرصے میںعالمی اور علاقائی امور کے مطالعہ کیلئے ہارورڈ اکیڈمی سے بطور محقق وابستہ رہنے کا اعزاز بھی انہیں حاصل رہا۔ ہارورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی ملنے کے کچھ عرصہ بعد وہ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، برکلے کے اساتذہ میں شامل ہوگئیں جہاں مزید کامیابیاں، کامرانیاں اور اعزازات ان کی علم سے محبت کے اعتراف کے منتظر تھے۔ تحقیق ومطالعہ سے متعلق متعدد ایوارڈز سے انہیں نوازاگیا۔ عالمی سطح پر نہایت اہم ’پریٹینین الومنی فیکلٹی ایوارڈ‘کے علاوہ ’دو مرتبہ ’میلن گرانٹس‘ کا بھی انہیں مستحق ٹھرایاگیا۔ 1996-98 میں ’ایس۔ا یس۔ آر۔سی، میک آرتھر فاونڈیشن امن وسکیورٹی فیلو شپ‘ ایوارڈ دیاگیا جبکہ 2001 سے 2003 کے دوران دوسری مرتبہ یہ ایوارڈ ایک بار پھر انہیں عطا ہوا۔ ان کی تحقیق ومطالعہ کے شاہکار لاتعداد مضامین دنیا بھر کے ممتاز اخبارات وجرائد میں شائع ہوئے۔ ان کی علمی کاوشوں کا نچوڑ ’’دولت کی قیمت: مشرق وسطی کی معیشتیں اور ادارے‘‘کے عنوان سے 1997ء میں کورنیل یونیورسٹی پریس سے کتابی شکل میں سامنے آیا۔ ان کی دوسری کتاب ’’استنبول میں صدمہ اور یاداشت‘‘ کی ایڈیٹنگ ان کی وفات سے کچھ عرصہ قبل ہی حتمی مرحلے کو پہنچی تھی۔ ان کے ساتھیوں میں سے ایک نے اس پر نظرثانی کی پیشکش کی ہے تاکہ کورنیل یونیورسٹی پریس اسے شائع کرسکے۔
1990 میں کیلی فورنیا یونیورسٹی، برکلے سے تدریسی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے آغاز سے قبل ہارورڈ میں پی ایچ ڈی کے دوران وہ ’ٹیچنگ فیلو‘ اور ’مقالہ جات کے لئے سینئر مشیر‘ کے فرائض بھی انجام دیتی رہیں۔ 2001 کی گرمیوں میں انہیں ترکی کے دارالحکومت استنبول میں آبنائے باسفورس کے یورپی حصے کی طرف واقع بڑی تحقیقی جامعہ ’بوگازیکی یونیورسٹی‘ کے شعبہ سیاسیات میں پڑھانے کا بھی موقع ملا۔ برکلے میں ان کی پسندیدہ کلاس ’فورڈازم کے بعدکا زمانہ‘‘ تھی، یہ مضمون بڑے صنعتی پیداواری یونٹس، اس سے جڑے نظریہ اور تاریخی احوال کے حوالے سے تھا۔ اپنے اس پسندیدہ مضمون کو انہوں نے 2005 میں پڑھانا شروع کیاتھا۔ انہوں نے لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز)، لاہور میں بھی پڑھایا۔
پروفیسر ڈاکٹر کرن عزیز چوہدری نے سوگواران میں صاحبزادی عدن، تین بھائی عادل، دانیال اور بلال کے علاوہ والدہ کیتھلین اور والد انور عزیز چوہدری چھوڑے ہیں۔ ان کا خاندان پاکستان اور امریکہ میں پھیلا ہوا ہے۔
پروفیسرڈاکٹرکن عزیز چوہدری عالمی سطح پر ایک بلندپایہ مستند محقق، مصنف اور ماہر معاشیات کے طورپر معروف تھیں۔ عالمی وعلمی لحاظ سے بلند رتبہ اس خاتون کو وطن کی مٹی سے اتنی محبت تھی کہ امریکہ میں وصیت فرمائی کہ مجھے نارووال ضلع شکرگڑھ میں سپردخاک کیاجائے۔ یہ ان کے والد کا آبائی گائوں ہے۔
25 جون2020 کو جب دل نے دھڑکنے سے انکار کردیا اور وہ موت کی آغوش میں سوگئیں تو کورونا وبا کے سبب ان کا جسد خاکی ان کی وصیت کے مطابق ان کے گائوں پہنچانا ایک امتحان بن گیا تھا لیکن بہرحال ہر رکاوٹ دور ہوئی اور علی پور شریف کے پیر سید ظفراقبال شاہ نے اس عالمہ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آنسوئوں کی برسات میں انور عزیز چوہدری کی ننھی پری مٹی کی چادر اوڑھ کر سوگئی۔
پروفیسر ڈاکٹر کرن عزیز چوہدری کا اصل حوالہ ان کا ماں دھرتی سے والہانہ پیار تھا۔ مادر وطن کی طرح ماں بولی، اپنی تہذیب وثقافت سے وہ بھی اسی قدر محبت رکھتی تھیں۔ (ختم شد)