مو لا نا محمد امجد خان
عشرہ ذوالحجہ سال کے بارہ مہینوں میں بڑی ممتاز حیثیت رکھتا ہے ،عشرہ ذوالحجہ کا خاص الخاص عمل حج ہے اور یہ صاحب استطا عت مسلمان پر زندگی میں صرف ایک ہی دفعہ فرض کیا گیا ہے ،لہذا اس کی خاص برکات صرف وہی لوگ حاصل کر سکتے ہیں جو بیت اللہ میں حاضر ہو کر حج کریں لیکن اللہ نے اپنے فضل کرم اور بے انتہا رحمت سے تمام اہل ایمان کو اس بات کاموقع عنایت فر ما دیا کہ وہ اپنے مقام پر رہ کر بھی حجاج کرام سے ایک طرح کی نسبت پیدا کر لیں اور ان کے کچھ اعمال میں شریک ہوجائیں۔
یوم عرفہ ماہ ذوالحجہ کی نو تاریخ کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے۔ حضرت عائشہؓ فر ماتی ہیں رسول کریمؐ نے فر مایا کہ : ایسا کوئی دن نہیں جس میں اللہ تعالی بندہ کو عرفہ کے دن سے زیاد ہ آگ سے آزاد کر تا ہے یعنی عر فہ کے دن اللہ تعالی سب دنوں سے زیادہ بندوں کو آگ سے نجات کا پروانہ عطا فر ماتے ہیں اور بلا شبہ اس دن اللہ تعالی اپنی رحمت ومغفرت کے ساتھ بندوں کے قریب ہوتا ہے پھر حج کر نے والوں کی طرف متوجہ ہو تے ہیں اور فر ماتے ہیں یہ لوگ کیا چاہتے ہیں جو کچھ بھی چاہتے ہیں میں انہیں دوں گا۔
ایک اور حدیث میں حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فر ما یا کہ : عرفہ کے دن اللہ تعالی شان اقدس کے مطابق آسمان دنیا پر نزول فر ماتے ہیں اور پھر فرشتوں کے سامنے حاجیوں پر فخر کرتے ہیں اور فر ماتے ہیں میرے بندوں کی طرف تو دیکھو ! یہ میر ے پاس لبیک کے ذکر کے ساتھ آوازیں بلند کرتے ہوئے دور دور سے آئے ہیں میں تمہیں اس بات پر گواہ بنا تا ہوں میں نے انہیں بخش دیا ، یہ سن کر فرشتے کہتے ہیں پروردگار ! ان میں فلاں شخص وہ بھی ہے جس طرف گناہ کی نسبت کی جاتی ہے اور فلاں شخص اور فلاں عورت وہ بھی ہیں جو گنہگار ہیں۔ آپؐنے فر ما یا کہ اللہ تعالی فر ماتے ہیں کہ میں نے انہیں بھی بخش دیا۔ پھر رسول اللہؐ نے فر ما یا کہ ایسا کوئی دن نہیں ہے جس میں یوم عرفہ کے برابر لو گوں کو نجات کا پروانہ عطا کیا جا تا ہو۔ اس طرح ایک حدیث میں رسول اللہؐ نے فر ما یا کہ : دعاؤںمیں بہترین دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے اور بہترین بات وہ ہے جو میں نے کہی اور مجھ سے پہلے انبیا ء نے کہی (اور وہ یہ ہے )
لا الہ الا اللہ وحد ہ لاشریک لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شیء قدیر۔
یوم عرفہ کا روزہ نبی کریمؐ فر مایا : یوم عرفہ یعنی نو ذوالحجہ کا روزہ ایک سال گذشتہ اورایک سال آئند ہ کے گناہوں کفارہ ہے۔ یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے جن احادیث میں کسی نیک عمل سے گناہ کے معاف ہو نے کا ذکر ہے ان سے صغیرہ گناہ مراد ہیں اور جہاں تک کبیرہ گناہوں کا تعلق ہے وہ بغیر توبہ و ندامت کے کسی عمل سے معاف نہیں ہوتے اور پھر توبہ سے بھی وہ گناہ معاف ہوتے ہیں جن تعلق حقوق اللہ سے ہو نہ کہ حقوق العباد سے۔
عشرہ ذوالحجہ کا تیسرا عمل تکبیر تشریق ہے جو یوم عرفہ یعنی نو یں ذوالحجہ کے دن نماز فجر سے شروع ہو کر تیرہ تاریخ کی عصر تک جاری رہتی ہے اور تکبیرات فرض نماز کے بعد ایک مر تبہ پڑھنا مفتی بہ قول کے مطابق واجب ہے ،تکبیر تشریق کے الفاظ یہ ہیں :اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد۔ اس تکبیر کو مردوں کے لیے متوسط بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے۔ تکبیرات تشریق مر د ،عورت،شہری ،دیہاتی ،مقیم ومسافر سب پر واجب ہے البتہ مر د متوسط بلند آواز اور عورت آہستہ آواز سے پڑھیں ،اللہ تعالی نے ان ایام کو منتخب فر مایا یعنی حج اور قر بانی کہ اللہ تعالی نے ان دو عبادتوں کے لیے وقت مقرر فر ما دیا ہے ان ایام و اوقات کے علاوہ دوسرے اوقات وایام میں اگر ان عبادتوں کو کیا جائے گا وہ عبادت ہی شمار نہ ہوگی لہذا امت محمدیہ کے لیے ماہ ذوالحجہ کے پہلے عشرہ میں یعنی صرف ذوالحجہ کی دس ،گیارہ ،بارہ تاریخ میں اپنے خلیل ابراہیمؑ اور ان کے لخت جگر حضرت اسماعیلؑ کی سنت کو جاری فر مادیا اور اس قر بانی کے عمل اور اپنے خلیل کے طریقے کو اس قدر پسند فر ما یا کہ اپنے پیا رے حبیب رحمت اللعا لمینؐکی زبان مبارک سے اس کی بے انتہا فضیلت جا ری فر ما دی اور انہیں بھی اس امر کے کرنے کا حکم دیا سو آپ اپنے پرودگار کی نماز پڑھیے اور اس کے نام کی قر بانی کیجیے ، حافظ ابن کثیر نے حضرت ابن عباس،حضرت عطاحضرت مجاہد.حضرت عکرمہ .حضرت حسن بصری حضرت قتادہ;230;،حضرت محمد بن کعب ;230; اور حضرت ضحاک وغیرہ ہم کا قول نقل کیا ہے کہ مشرکین عرب غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کیا کرتے تھے اس لیے رسول اللہؐ نے حکم دیا گیا کہ آپ اپنے رب کے نام پر جانور ذبح کریں۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسولؐ ارشاد فر ما یا کہ اللہ تعالی کے نزدیک قر بانی کے دن بندوں کے تمام اعمال میں پسند یدہ ترین عمل جانور کا خون بہاناہے اور بندہ قیامت کے دن اپنی قر بانی کے سینگوں کھروں اور با لوں سمیت حاضر ہو گا اور قر بانی کا خون زمین پر گر نے سے پہلے اللہ تعالٰی کی بار گاہ میں شرف قبولیت حاصل کر لیتا ہے لہذا تمہیں چاہیے کہ خوش دلی سے قر بانی کرو۔
ایک اور حدیث میں ہے حضرت ابوہریرہؓ سے راویت ہے کہ رسول اللہؐنے ارشاد فر ما یا کہ جو شخص استطا عت رکھنے کے باوجود قر بانی نہیں کر تا وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہؐنے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فر ما یا اور اس عرصہ قیام میں آپ مسلسل قر بانی فر ماتے رہے۔
قر بانی سے مقصد محض ناداروں کی مدد نہیں بلکہ قر بانی میں مقصود جانور کا خون بہاناہے اور یہ عبادت اسی خاص طریقے سے ادا ہو گی اور در حقیقت قر بانی حضرت ابراہیمؑ کے اس عظیم الشان عمل کی یاد گار ہے جس میں انہوں نے اپنے لخت جگر کو ذبح کر نے کے لیے زمین پر لٹا دیا تھا اور حضرت اسمعیلؑ نے حکم الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کرکے ذبح ہونے کے لیے گردن پیش کر دی تھی مگر اللہ تعالی نے اپنا فضل فر ما کر دنبہ کا فدیہ بنا دیا تھا۔ لہذا اس سنت ابراہیمؑ وحکم الہی پر ذبح کر کے ہی عمل ہو سکتا ہے۔
اگر کوئی شخص خود قر بانی نہ کر سکے تو دوسرا اس کی طرف قر بانی کر سکتا ہے اسی طرح جو لوگ اس دنیا سے جا چکے ہیں ان کی طرف سے بھی قر بانی کی جا سکتی ہے۔ قر بانی کے گوشت کی تین حصے کرنے چاہیں ایک حصہ اپنے اہل وعیال کے لیئے جبکہ دوسرا حصہ رشتے داروں کے لیئے تیسرا حصہ غریب اور نادار لوگوں کے لیئے ہوگا۔