لگتا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں، ان کی قیادتوں اور کارکنوں کا بس یہی ایک کام رہ گیا ہے۔ ایک دوسرے کی کمزوریاں ڈھونڈو اور ان پر پوائنٹ سکورنگ والی بیان بازی کر کے اپنی سیاست چمکائو ، اس میں کیا حکومتی اور کیا اپوزیشن جماعتیں ، کسر کوئی بھی نہیں چھوڑتا۔ سال دو سال قبل ہونہار بلاول بھٹو زرداری کا کراچی کے پانی کے حوالے سے ایک بیان ان کے گلے پڑ گیا تھا۔ کراچی کا نکاسئی آب کا سسٹم وہاں سالہا سال اقتدار کے مزے لُوٹنے والوں کے ’’حسنِ تدبر‘‘ کی چغلی کھاتا رہتا ہے۔ اہل اقتدار چاہے وفاق کی سطح کے ہوں یا صوبائی سطح کے ، انہیں بس اپنے اللّے تللّوں سے ہی غرض ہوتی ہے ، عوام الناس کے ساتھ ہمدردی کا اظہار اور ان کے بنیادی مسائل کے حل کے نعرے سیاسی دکانداری چمکانے کے عمل میں تو ضرور سنائی دے جاتے ہیں مگر حقیقتاً اقتدار کے مزے لوٹنے والے حکمران اشرافیہ طبقات کو راندۂ درگاہ عوام کے ساتھ کسی قسم کی ہمدردی ہوتی ہے اور نہ ہی فی الحقیقت انہیں عوام کے مسائل کا کوئی ادراک ہوتا ہے چنانچہ عوام کی فلاح کا کوئی منصوبہ طے کرتے وقت بھی اس میں اپنے کمشن اور مالی فائدے پر خصوصی نظر رکھی جاتی ہے۔ اگر عوامی فلاح کے کسی منصوبے میں مالی منفعت نظر نہ آئے تو اس منصوبے پر سیاست ضرور چمکتی رہے گی، پوائنٹ سکورنگ والی بیان بازی ضرور ہوتی رہے گی مگر اس منصوبے کی تکمیل تو کجا ، آغاز کی ہی نوبت نہیں آ پائے گی ، کراچی کے عوام نے بھی سالہا سال کے اقتدار والوں سے یہی فیض پایا کہ ان کے صفائی ستھرائی تک کے روزمرہ کے مسائل کے موثر حل کی جانب وہاں کی کسی مقتدر شخصیت کی کبھی توجہ نہیں گئی ۔ پانی کے نکاس کا مستقل اور موثر نظام نہ ہونے کے باعث کراچی کے کئی علاقے معمولی بارش میں بھی جوہڑ اور تالاب کی منظر کشی کرتے نظر آتے ہیں اور نشیبی علاقوں کے تو گھروں کے اندر پانی گھس کر وہاں کے مکینوں کا اپنی سیاسی قیادتوں کے ساتھ رومانٹسزم کا نشہ اُتارتا ہے۔
گزشتہ سال کی غیر معمولی بارشوں میں کراچی جوہڑ بنا تو بطور خاص بلاول بھٹو زرداری اپوزیشن اور کراچی کے شہریوں کی تنقید کی زد میں آئے۔ بلاول نے تنقید کے برستے ان نشتروں کے دوران میڈیا کے سامنے ایک فقرہ ادا کیا کہ جب بارش ہوتی ہے تو پانی آتا ہے اور جب زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے۔ یار لوگوں نے ان کے اس فقرے کو اچک لیا اور بلاول کی ذہانت کی خوب بھد اڑائی۔ اور تو اور‘ وزیر اعظم عمران خان نے بھی اپنی ایک تقریر کے دوران طنزاً بلاول کی نقل اتارتے ہوئے یہ فقرہ ادا کیا۔ اب گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت اور اس وطنِ عزیز کا جدید ترین شہر اسلام آباد اور بالخصوص اس کا سیکٹر ای الیون طوفانی بارش میں ڈوبا ہے تو اپوزیشن کو بھی حکومتی سیاسی اکابرین کو آئینہ دکھانے کا نادر موقع مل گیا ہے۔
اسلام آباد میں گزشتہ روز تسلسل کے ساتھ ہونے والی بارش نے جو تباہی مچائی وہ بذات خود کسی انسانی المیے سے کم نہیں۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز دیکھ کر عملاً رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ اسلام آباد کی رہائشی آبادیوں میں گلیوں، سڑکوں کا کہیں نام و نشان بھی نظر نہیں آتا تھا۔ بس ہر طرف پھنکارے مارتا پانی ہی پانی اور اس میں تنکوں کی طرح وحشی پانی کے تھپیڑے کھاتی ، تیرتی ، ڈوبتی ، ابھرتی گاڑیاں اس قدرتی آفت کے آگے انسانی بے بسی کو عیاں کرتی نظر آتی تھیں۔ مجبور و بے بس انسانوں کی چیخ و پکار مگر ان کی امداد و بحالی کے لئے کہیں سے بھی کوئی تردد نہیں ۔ اسلام آباد کے اس علاقے میں جن مکینوں نے اپنے گھروں کے اندر بیسمنٹ (تہہ خانے) بنا رکھے ہیں ، ان پر تو گویا قیامت ٹوٹ گئی۔ ایسے ہی ایک تہہ خانے میں بھرنے والا پانی ایک خاتون اور اس کے بیٹے کی ہلاکت کا باعث بنا۔
اسلام آباد کے شہری بالعموم آسودہ زندگی بسر کرتے ہیں جبکہ وفاقی دارالحکومت ہونے کے ناطے یہاں سکیورٹی اور صفائی ستھرائی کا سسٹم نسبتاً بہتر ہوتا ہے اس لئے انسانی زندگیوں کے لئے کسی بڑی افتاد اور کرب کا خطرہ نہیں ہوتا۔ مگر 330 ملی میٹر تک ہونے والی گزشتہ روز کی ریکارڈ بارش نے اسلام آباد کے سارے سسٹم اتھل پتھل کر دئیے جسے بھگتنے والے اسلام آباد کے شہریوں کے کرب کا اندازہ لگانا مشکل ہے مگر ہمارے پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اسلام آباد کے شہریوں کے ساتھ ہمدردی کے جذبات کم ہی دیکھنے میں آئے ۔ اس کے برعکس اپوزیشن کی جانب سے حکمران پی ٹی آئی پر پوائنٹ سکورنگ کی سیاست ضرور چمکتی رہی اور اس انسانی المیے پر بھی رونق میلہ لگانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ سندھ کے وزیر تعلیم سعید غنی نے ٹویٹ کیا کہ اب وزیر اعظم کو سمجھ آ گئی ہو گی ، جب زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے سوشل میڈیا ونگ نے طنزیہ اور تنقیدی نشتروں کی بوچھاڑ کر دی۔ ایک فقرہ گردش کرتا رہا۔ سندھ حکومت کی نااہلی سے اسلام آباد ڈوبا ہے کیونکہ اس نے کراچی میں نکاسیٔ آب کا بندوبست نہیں کیا تھا۔ ایسے ہی طنزیہ جملوں سے مسلم لیگ(ن) کی سوشل میڈیا ٹیم نے بھی رونق لگائے رکھی۔
تو جناب! یہ ہماری اجتماعی غیر سنجیدگی کا شاخسانہ ہے کہ ہم اپنے ہاتھوں سے خود کو تباہ کر لیتے ہیں مگر تعمیر کے کسی پہلو کی جانب ہماری توجہ نہیں جاتی۔ ایک تھپڑ ادھر سے آیا ہے تو جوابی تھپڑ دوسری جانب سے زیادہ شدت کے ساتھ آنے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ ہمارا یہ المیہ سالہا سال کا ہے ، اقتداری سیاست میں اپنے شیر خرما پر تو کوئی آنچ نہیں آنے دی جاتی مگر اقتداری دھکوں میں رگڑے کھاتے عوام کیلئے اس دھرتی کو لاینحل مسائل کی آماجگاہ بنا دیا گیا ہے۔ سو برق گرتی ہے تو بے چارے انہی عوام پر۔ اگر حکومت اور اس کے ماتحت انتظامی مشینری کی جانب سے ٹائون پلاننگ آنے والے پچاس ساٹھ سال کو مدنظر رکھ کر بہتر بنائی جائے تو نہ بارشوں اور سیلاب کے پانی سے شہریوں کے لئے کوئی مسئلہ پیدا ہوا ورنہ ہی بے ہنگم ٹریفک کے مسائل کا عوام کو سامنا کرنا پڑے۔
اگر دیکھا جائے تو بارشوں کا پانی بھی ہمارے لئے قدرت کا عظیم تحفہ ہے۔ ہمیں آج پانی کی قلت کے جن سنگین مسائل کا سامنا ہے ان سے بارشوں کا پانی سٹور کرکے خوش اسلوبی کے ساتھ عہدہ برا ہوا جاسکتا ہے اور پانی سٹور کرنے کے بہترین ذرائع ڈیمز ہوتے ہیں جن کے پونڈز میں سیلابی پانی سمو سکتا ہے مگر ہمارے کسی بھی حکمران کو ضرورت کے ڈیمز تعمیر کرنے کی دانستاً توفیق نہیں ہوئی کہ ان پر بھی سیاست چمک رہی ہے اور مفادات سمیٹے جارہے ہیں۔
ہم سیلاب کی زد میں آئیں گے تو اس پر بھی بھارت پر ملبہ ڈال کر ہمیں پوائنٹ سکورنگ کی سیاست چمکانے کا موقع مل جائے گا چاہے ملک اور عوام کا کباڑہ ہی کیوں نہ ہو جائے۔ آگے مون سون کی بارشوں نے ملک کے مزید علاقوں میں تباہ کاریوں کا اہتمام کرنا ہے جس کا ہمارے اداروں کو پیشگی علم بھی ہوتا ہے مگر اس کے سدباب کے مستقل بنیادوں پر منصوبے اس لئے نہیں بنائے جاتے کہ مسئلہ ہی نہ رہا تو بلیم گیم اور پوائنٹ سکورنگ کی سیاست کیسے اور کہاں پر کی جائے گی۔ بے شک قدرتی آفات کے چیلنجوں سے عہدہ برا ہونا اور شہریوں کے جان ومال کا تحفظ کرنا حکومت وقت کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے کہ سارے وسائل واختیارات اسی کے ہاتھ میں ہوتے ہیں مگر ہمارے سیاسی کلچر میں سدھار اور عوام کی بہتری کے اقدامات کی اب تک کوئی گنجائش ہی نہیں نکل پائی۔ اس لئے خاطرجمع رکھئے کہ آج ہی نہیں آئندہ بھی سب ایسے ہی چلتا رہے گا کیونکہ عہد ناپرساں میں’’آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک‘‘
اسلام آباد کی پانی پانی جبینوں پر تفنن، تمسخر
Jul 30, 2021