ریاست پاکستان کا نظام چلانے کیلئے فیصلہ ساز قوتیں تجربات کرتی رہتی ہیں، کبھی سیاسی، کبھی نیم سیاسی تو کبھی فوجی سیٹ اپ بنادیا جاتا ہے، سیاسی اور نیم سیاسی سیٹ اپ کیلئے تھوڑے سے فرق سے ایک جیسی مشق کی جاتی ہے، عام انتخابات کا اعلان کر کے سیاسی جماعتوں کو جلسے جلوس کرنے اور عوام کو نعرے لگانے کاموقع دیا جاتا ہے، انتخابی مہم کے دوران سیاسی قیادت بھی خوب دل کی بھڑاس نکالتی ہے، ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے، سیاسی ورکرز کا جوش و خروش بھی دیدنی ہوتا ہے، پھر ووٹ ڈالے جاتے ہیں، نتیجہ آنے پر کچھ بھنگڑے ڈالتے ہیں تو کچھ منہ چھپاتے پھر رہے ہیں اور اپنی پسند کے امیدوار کی شکست کے جواز گھڑ رہے ہوتے ہیں سیاست قیادت بہرحال پہلے سے ہی تیار ہوتی ہے کہ اگر ہار گئے تو ہمارابیان کیا ہو گا، اگر فتح ملی تو کس طرح اپنی عقلمبندی، پلاننگ اورمقبولیت کا ڈھنڈورا پیٹنا ہو گا، اس سارے عمل کے دوران ہر پارٹی کے سینئرو جونیئر لوگ جانتے ہیں کہ ان کی پارٹی جیتنے کی صورت میں ملک کی حکمرانی کا تاج کس شخصیت کے سر پر رکھا جائے گا، صوبوں میں وزارت اعلیٰ کے کون کون سے امیدوار ہیں اور ان میں سے کس کی پوزیشن سب سے بہتر اور مضبوط ہے عموماً لوگوں کے اندازے درست ہی ہوتے ہیں، 2018ء کے انتخابات ہوئے تو مرکز اور پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف حکومت سازی کی پوزیشن میں آ گئی وزارت عظمیٰ کیلئے پارٹی چیئرمین عمران خان کے علاوہ کوئی دوسری آپشن زیرغور بھی نہیں تھی، مگر پاکستان کے سب سے بڑے اور اہم صوبہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر پہلی بار عجب سی بے یقینی پھیل گئی بہت سے امیدوار اپنے اپنے سی وی لئے بمع تجربہ کی اسناد کے وزارت اعلیٰ کیلئے انٹرویو دینے کیلئے لائن
میں کھڑے نظر آئے، بہت سوں کے پاس سفارشی خطوط بھی موجود تھے، مگر جب پنجاب کے وزیراعلیٰ کیلئے نام پکارا گیا تو سب حیران بلکہ ہکا بکا رہ گئے کہ یہ عثمان بزدار نامی شخص کہاں سے آ گیا، نہ کوئی سیاسی بیک گرائو نڈ، نہ وزارت اعلیٰ یا اہم وزارتوں کا تجربہ، حتیٰ کہ اسمبلی میں داخل ہونے کے آداب سے بھی شاید پوری طرح سے آگاہی نہ ہو عثمان بزدار کے پاس تو سفارش خط بھی شاید نہیں تھا، پھر وزارت اعلیٰ کیلئے کیسے منتخب کر لیا گیا، پارٹی کے اندر اور باہر سے سخت تنقید شروع ہوئی، خدشات کا اظہار کیا گیا کہ پنجاب جیسے اہم صوبے میں پی ٹی آئی کی لٹیا ڈوب جائے گی، پی ٹی آئی کے ہمدردوں کے خدشات درست بھی تھے کہ عثمان بزدار نے تو کبھی وزارت بھی نہیں چلائی وزارت اعلیٰ کیسے چلائیں گے، ناقدین نے فوری طور پر سابق وزیراعلیٰ شبہاز شریف سے تقابلی جائزے پیش کرنا شروع کر دیئے کہ کہاں شہباز شریف اور کہاں عثمان بزدار، ان کی تو کوئی افسر بات بھی نہیں سنے گا، ہوا بھی کچھ ایسا ہی کہ نومنتخب وزیراعلیٰ کیمرے کا سامنا کرتے ہوئے بھی گھبرائے گھبرائے سے لگنے لگے، بیوروکریسی نے انہیں چند ہفتوں کا مہمان وزیراعلیٰ قرار دے کر فائلیں سرخ فیتے کا شکار کرنا شروع کر دیں ان کیلئے جو کابینہ منتخب کی گئی اس کے بہت سے ارکان خود کو مکمل خود مختار اور آزاد سمجھتے تھے، وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو نااہل ثابت کرنے کیلئے خود وزراء نے ان کے خلاف مہم چلانا شروع کر دی، ہر روز نئی تاریخ آنے لگی کہ وزیراعظم کے اگلے دورہ لاہور میں نئے وزیراعلیٰ کے نام کا اعلان ہو جائے گا پارٹی کے اندر وزارت اعلیٰ کے حلقوں کی ایک دوڑ شروع ہو گئی ایک غیر معروف اور دور دراز علاقے سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے کو نہ جانے کیوں وزیراعلیٰ بنا دیا گیا، سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کی طرح نہ وہ بارش کے پانی میں کھڑا ہو کر تصویریں بنوا سکتا ہے نہ اسے افسروں کی سرزنش کرنا آتی ہے، صحافیوں کے سوالوں کے جوابات ڈھنگ سے دینے تو اسے آتے نہیں ہیں، اپنی جماعت کی ساکھ اپنے صوبے میں کیسے بہتر کرے گا اس کا پارٹی کے اندر کوئی اتنا مضبوط گروپ بھی موجود نہیں جو اس کی وزارت اعلیٰ کا تحفظ کر سکے وہ ایک مسافر کی طرح وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہے اسے جب کہا جائے گا وہ اپنا بوریا بستر باندھ کر ڈی جی خان چلا جائے گا، اگر اس کے پاس بھی 40 یا 50 ایم پی اے ہوتے تو کسی کو اس کے خلاف بات کرنے کی جرأت بھی شاید نہ ہوتی، اس کا کوئی بڑا ہائوسنگ پراجیکٹ چل رہا ہوتا یا کسی بڑے صنعتکار مافیا سے اس کا تعلق ہوتا تو وہ سب ہر وقت اس کی پشت پناہی کر رہے ہوتے، انہیں اپنے گروپ کے وزیراعلیٰ کو بچانے کے لیے ملک میں اشیائے خوردونوش کی قلت کرنا پڑتی تو وہ کرتے وہ خود بھی اپنی امیج پلاننگ کیلئے پیسہ پانی کی طرح بہاتا، میڈیا میں ہر جگہ اسے دنیا کا ذہین ترین اور پنجاب کا قابل ترین وزیراعلیٰ ثابت کرنے میں دن رات ایک کر دیا جاتا مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہو سکتا
(جاری)