بچوں کا جنسی استحصال… آخر کب تک؟

وزیرِ اعظم  عمران نے امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان میں جنسی جرائم میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف خواتین نہیں بچے بھی جنسی جرائم کا شکار ہیں‘‘۔ اس خبر کے بعد تقریباً تیسری خبر میں بچوں کے جنسی استحصال سے متعلق ایسا دلخراش واقعہ پیش آیا کہ جس نے دل کو رنج و الم سے معمور کرتے ہوئے بے حد اُداس کر دیا۔ خبر یہ تھی کہ کراچی کے علاقے کورنگی میں 6 سالہ بچی کو قتل سے قبل زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔  بچی گزشتہ شب 9 بجے غائب تھی۔ بچی کی لاش 28 جولائی کی صبح 6 بجے کچرا کنڈی سے ملی۔ عینی شاہدین کے مطابق رکشہ سوار ملزمان لاش کچرا کنڈی میں پھینک گئے۔ جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے کیسز اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ جنسی مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 10 میں سے 6 لڑکیاں اور 10 میں سے 5 لڑکے اس قبیح فعل کا شکار ہیں لیکن اصل شرح، رپورٹ ہونے والے واقعات سے بھی کہیں زیادہ ہے کیونکہ گلی محلوں میں کئی ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اور متاثرہ خاندان سماجی رویوں کی خاطر چپ سادھنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ’’لوگ کیا کہیں گے، ہمارے ہاں پولیس آئے گی‘‘ وغیرہ۔ ریپ کے ذریعے کوئی بھی انسان اپنی طاقت کا اظہار کرتا ہے اور ایسے درندوں کو تقویت ملک کے ناقص قانون سے ملتی ہے۔ اس وقت پاکستان میں زینب الرٹ بل اور ریپ کے مختلف قوانین موجود ہیں لیکن اس کے باوجود جنسی تشدد کے واقعات میں گُونا گُوں اضافہ ہو رہا ہے۔ پیش آنے والا ہر واقعہ اتنا المناک ہوتا ہے کہ ہم ماضی کو بھلاتے ہوئے نئے واقعہ پر کف افسوس مل رہے ہوتے ہیں۔ وطن عزیز کو قائم ہوئے 72 سے زائد سال گزر چکے ہیں لیکن ہمارے ہاں انگریز دور کا خارج العہد نظام آج بھی رائج ہے اگر ہمارے وزراء کے پاس اس مسئلے کو بنیادی طور پر حل کرنے اور انسان کو اہم ترین جان کر اس سماجی اور اخلاقی مسئلہ کو سمجھنے اور سمجھانے کی تربیت دینے کا فہم و ادراک ہوتا تو زینب اور دیگر بچیوں کو بچایا جا سکتا تھا۔ زینب الرٹ مسودہ قانون میں  تو یہ کہا گیا ہے کہ کسی بھی بچے کے اغواء یا اس کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعہ کا مقدمہ درج ہونے کے تین ماہ کے اندر اندر اس مقدمے کی سماعت مکمل کرنا ہوگی۔ مگر عوام کا سوال ہے کہ بہتری کہاں نظر آ رہی ہے۔؟؟؟اور کب آئے گی…! غریب اور سفید پوش لوگوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دے کر چپ کروا دیا جاتا ہے۔ قارئین! ہمارے معاشرے میں جنسی گھٹن اس قدر بڑھ چکی ہے کہ معاملات آؤٹ آف کنٹرول ہو چکے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کو یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو کس حفاظتی نگری میں لے جائیں۔ لہذا وقت کی پکار ہے کہ ہم ہراسانی اور جنسی تشدد کی روک تھام کے لیے صف آرا ہو جائیں۔ ہماری انفرادی ذمہ داری ہے کہ ہم بچوں کی ٹریننگ اور تربیت اس ڈھنگ سے کریں کہ انہیں بتائیں ’’گڈ ٹچ، بیڈ ٹچ‘‘ کیا ہوتا ہے۔ یہ سوچ کرگھبرائیے نہیں کہ کیا ہم چھوٹے بچوں کو یہ سکھا کر ان کی معصومیت ختم کر دیں۔ یاد رکھیے! درندگی اس وقت دندناتی پھر رہی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کا خاندان خبروں کی زد میں آ جائے۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بیٹا یا بیٹی بھی جنسی تشدد کا نشانہ بنے۔ ہرگز نہیں۔! اس لیے لڑکا ہو یا لڑکی سب بچوں کو اپنی حفاظت آنی چاہئے۔ سب سے بڑی ذمہ داری ماؤں پر عائد ہوتی ہے کہ بچوں کو ویڈیوز یا سنسنی سے بھرپور خبریں نہ سنائیں بلکہ کہانیوں کی صورت میں ان سے کھل کر بات کریں،سارا دن کیا سرگرمیاں ہوئیں ان سے دریافت کریں۔ سوشل میڈیا پر وقت ضائع کرنے کی بجائے جو قدرت نے انہیں بچوں کی تربیت کا ایک عظیم الشان پروجیکٹ دیاہے اس کو احسن طریقے سے نبھائیں۔دن بھر کی تفتیش کے حوالے سے ڈانٹ ڈپٹ، مارپیٹ یا سخت لہجے سے گریز کریں۔ بچوں کی حرکات و سکنات کابہ غور مشاہدہ کریں مثلاً مزاج میں یکدم شدید غصہ، الگ تھلگ رہنا،سونے میں دشواری، مخصوص افراد کے سامنے آنے سے پرہیز و ڈرنا وغیرہ۔ اگر ان میں سے کوئی بھی علامت دیکھیں تو ہوشیار ہو جائیے۔  بچوں کو ٹریننگ دیں کہ اپنی باڈی کے چار مقامات پر سوائے والدین، نانی، دادی، خاتون ملازمہ/آیا کے علاوہ کسی کو ہاتھ لگانے نہ دیں۔ کسی انجان سے کوئی چیز لیکر نہ کھائیں۔ اگر کوئی اجنبی انکل یوں کہے کہ آپ کی امی یا ابو بلا رہے ہیں تو ہرگز ساتھ مت جائیں۔ کوئی زبردستی گود میں بٹھائے یا پرائیوٹ ایریا کو ٹچ کرے تو زور زور سے چلانا ہے اور فوراً بھاگ کر جس پر آپ  اعتماد کرتے ہوں اسے بتائیں۔ سکول میں اکیلے ہیں تو سٹاف روم بھاگ جائیں۔ گھر میں کچھ برا ہو رہا ہے تو امی ابو کو بتائیں۔ اگرخاندان کا کوئی رشتہ دار یہ کہے کہ ہم تو کھیل رہے ہیں، بچوں کو بتائیں ’’بیڈ ٹچ‘‘ کھیل نہیں ہے اس بات کو پختہ کریں کہ وہ گلی محلے میں بچوں کے جھرمٹ میں رہیں۔ بچوں کو فون نمبر سکھائیں۔ آپ کو 12 سال کے بڑے بچوں کو  یہ سمجھانا ہے کہ انٹرنیٹ سیفٹی ازحد ضروری ہے کسی کی باتوں میں آ کر برہنہ ویڈیو یا تصاویر کسی کے ساتھ شیئر نہیں کرنی کیونکہ مستقبل میں وہ آپ کو بلیک میل کرتے ہوئے غلط کاموں پر مجبور کر سکتا ہے۔ بس تھوڑی سی توجہ اور ٹریننگ سے آپ 50 فیصد تک محفوظ ہو جائیں گے۔ آئیے اپنے بچوں کو سکھائیے مثبت آواز اٹھائیے کیونکہ جنسی تشدد کے استحصال کا خاتمہ شعور سے جڑا ہے۔ دوسری جانب سخت سے سخت ترین قانون سازی کی جائے تاکہ مجرم عبرت کا نشان بن جائیں۔

ای پیپر دی نیشن