ایک جملے نے بازی پلٹ دی 

Jul 30, 2021

مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کشمیری ہوں یا پاکستانی۔  آزاد کشمیر کے شہری ہوں یا اس پار مقبوضہ کشمیر کے کشمیری سب آزادی کے حوالے سے تین آپشن کی بات کرتے ہیں۔ ایک تو واضح اور سیدھا سادھا کشمیر کے پاکستان سے الحاق کا آپشن ہے۔ دوسرا بھارت سے الحاق کا تیسرا ایک آزاد و خودمختار کشمیر کا۔ اصل مقابلہ پہلے اور تیسرے نمبر والوں کے درمیان ہے۔ دوسرا بھارت والا آپشن صرف مذاق کی حد تک ہے۔ چند فیصد کشمیری بھارتی مال حلال کرنے کے لیے اس کا راگ الاپ رہے ہیں۔ مگر عملی طور پر ان نمک حرام کشمیریوں کے علاوہ کوئی بھی کشمیری اس طرف سوچنا بھی پسند نہیں کرتا۔ الحاق پاکستان کو بڑی تعداد میں کشمیریوں کی حمایت حاصل ہے۔ اس میں کوئی دو آرا نہیں۔ آزاد کشمیر ہو یا مقبوضہ کشمیر وہاں پاکستان سے محبت کرنے والے لاکھوں کشمیری ہمہ وقت پاکستان کی بقا و سلامتی کے لیے دعا گو رہتے ہیں۔ یہ لوگ رائے شماری ہوئی تو الحاق پاکستان کے آپشن کو ووٹ دیں گے۔ مگر یہ بات بھی یاد رکھنی ہو گی کہ اب جو نئی نسل پروان چڑھی ہے وہ اپنا ایک علیحدہ مزاج رکھتی ہے۔ پرانی نسل کی نسبت زیادہ جدید مواصلاتی دور میں رہتی ہے۔ اس لیے ان کا وژن بھی بہت وسیع ہے۔ تیسرا آپشن خودمختار کشمیر ان کے لیے ایک کشش رکھتا ہے۔ صرف مقبوضہ کشمیرمیں ہی نہیں خود آزاد کشمیر میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں پرانے بھی اور نئے کشمیری بھی جو خود مختار کشمیر کے نظریے کو پسند کرتے ہیں۔ اگر رائے شماری میں یہ آپشن موجود ہوا تو وہ ضرور اس کا انتخاب کریں گے۔ انہیں ہم قوم پرست یا نیشنلسٹ کہتے ہیں۔ 
آزاد کشمیر کے حالیہ 2021 ء کے الیکشن میں پہلی مرتبہ کسی پاکستانی حکمران نے 72 سالہ الحاق پاکستان کے ساتھ خودمختار کشمیر کی بات کی جو ایک بڑی تبدیلی ہے۔ اس نے ان لاکھوں کشمیریوں کو چونکا دیا جو اس خیال کے حامی ہیں۔ اس کا پاکستان کے بہت سے حلقوں نے بہت برا بھی منایا ہے۔ مگر بات وہی کہ نئی نسل کے نزدیک یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ کیونکہ آزادکشمیر کی طرح اگر سارا کشمیر ہی خودمختار ہوکر پاکستان کے ساتھ آن ملتا تو برائی کیا ہے۔ کشمیر اور کشمیریوں نے جانا کہاں ہے ان کی کون سی کوئی بندرگاہ ہے یا علیحدہ وسیع سرزمین ہے۔ اب تو گلگت بلتستان بھی علیحدہ ہوگئے۔لداخ بھی بھارت لے گیا مقبوضہ جموں کشمیر رہ گیا جو آزادکشمیر کے ساتھ مل کر اگر آزاد جموں کشمیر کہلائے گا تو کیا ہوگا۔ ویسے بھی تو اس وقت بھی آزادکشمیر کا پرچم علیحدہ ہے۔ صدر اور وزیراعظم بھی ہے۔ اپنی سپریم کورٹ بھی ہے یہی کچھ اگر بعد میں ہو تو کیا فرق پڑتا ہے۔ الحاق پاکستان ہو یا خودمختار کشمیر دونوں  صورتوں میں پاکستان کا ہی ہوگا۔ اقوام متحدہ کی رائے شماری کی قرارداد کے مطابق پوری ریاست جموں وکشمیر لداخ گلگت بلتستان میں رائے شماری کرانی ہوگی جو اب عملاً ممکن نہیں۔ 72 سال سے جو کام نہ ہو اب کیا ہوگا مگر حالات بدلنے کے ساتھ اگر صرف جموں کشمیر میں رائے شماری ہو اور اس میں 3 آپشن ہوں تو یہ صدیوں کی غلامی سے لاکھ درجہ بہتر ہے ورنہ بھارت کی سفاک افواج کشمیر اور کشمیریوں کا وجود تک مٹا دے گی اب بھی کشمیریوں کی نسل کشی تیزی سے جاری ہے روزانہ کی بنیاد پر 3 سے چار مسلمان نوجوان مارے جارہے ہیں۔ لاکھوں ہندو جموں میں لاکر آباد کئے جارہے ہیں اب اور کس چیز کا انتظار ہے۔ جب بھارت آبادی کا تناسب بدل دے گا تب کیا ہوگا اس لئے بہتر یہ ہے کہ فوری حل کے طور پر کچھ ایسا کیا جائے جس سے کشمیر اور کشمیری بچ سکیں۔ وزیراعظم عمران خان نے آزادکشمیر کی الیکشن مہم میں آخری وقت میں شرکت کی بہت کم جلسے کئے مگر ان کی ایک جملے کشمیری ہمارے ساتھ رہیں یا خودمختار نے ساری سیاسی بازی پلٹ دی۔ مریم کے بڑے بڑے جلسے بلاول کے جلسے سب ٹھس ہوگئے۔ ہزاروں ہی سہی مگر قوم پرستوں نے اپنا ووٹ پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈال کر اسے آزادکشمیر کے راج سنگھاسن پر بٹھا دیا۔ یہ ایسا جملہ تھا جس نے قوم پرست ووٹروں کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔  عمران کو بہرحال یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے دنیا کے سامنے کھل کر کشمیر کے مسئلے کے حل کیلئے ہر طرح کا راستہ کھول دیا ہے تاکہ دنیا اس مسئلہ کے حل کیلئے سنجیدہ ہو۔ اقوام متحدہ خود تو اب تک کچھ نہیں کرسکی مگر اب آئندہ اسے کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا تاکہ دو ایٹمی ممالک کے درمیان حالات بہتر ہوں اور ہولناک تباہی سے بچا جا سکے۔ 

مزیدخبریں