معزز قارئین ! آج اہلِ پاکستان اور بیرون ملک فرزندان و دُخترانِ پاکستان ،اپنے اپنے انداز میں ، قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی ہمشیرہ ، محترمہ فاطمہ جناحؒ کی 120 ویں سالگرہ منا رہے ہیں ، جنہیں ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جناب مجید نظامیؒ نے ’’ مادرِ ملّت ‘‘ کا خطاب دِیا تھا۔ فروری 1964ء میں مَیں سرگودھا میں ’’ نوائے وقت ‘‘ کا نامہ نگار تھا اور مجھے فخر ہے کہ ’’ جب 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں ، فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان ( صدر پاکستان کنونشن مسلم لیگ) کے مقابلے میں مادرِ ملّتؒ ’’ پاکستان مسلم لیگ کونسل‘‘ کی امیدوار تھیں اور پھر متحدہ اپوزیشن کی تو صدارتی انتخاب سے چند روز پہلے ضلع سرگودھا میں مادرِ ملّتؒ کی انتخابی مہم کے انچارج ، تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن قاضی مُرید احمد مجھے اور میرے صحافی دوست تاج اُلدّین حقیقت ( مرحوم) کو ’’ پاکستان کونسل مسلم لیگ ‘‘ کے مندوبین کی حیثیت سے لاہور لے گئے تھے ۔ یوں اُنہوں نے پاکستان کونسل مسلم لیگ کے ایک لیڈر میاں منظر بشیر کے گھر ’’ المنظر‘‘ ہماری مادرِ ملّتؒ سے ملاقات کرائی تھی۔ اُسی دِن ، اُسی وقت تحریک پاکستان کے دو ( گولڈ میڈلسٹ) کارکنان لاہور کے مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری اور پاکپتن شریف کے چودھری محمد اکرم طورؔ کی بھی ملاقات ہُوئی۔ تحریک پاکستان کے دَوران میاں شجاع اُلدّین بیگ امرتسری کا آدھا سے زیادہ خاندان سِکھوں سے لڑتے ہُوئے شہید ہو گیا تھا اور قیام پاکستان کے بعد چودھری محمد اکرم طور ؔ نے بھارت سے آئے مہاجرین کی آباد کاری میں اہم کردار ادا کِیا تھا۔
فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے صدارتی انتخاب میں پاکستان کے ہر عاقل ، بالغ ( مرد اور عورت ) کے بجائے مشرقی اور مغربی پاکستان کے صرف 80 ہزار ’’منتخب ارکان بنیادی جمہوریت ‘‘ کو ووٹ کا حق دِیا تھا۔ اِس کے باوجود مادرِ ملّت ؒ مشرقی اور مغربی پاکستان میں اپنے جلسوں میں بے حد ’’ رش ‘‘ لے رہی تھیں ۔ بہر حال صدر ایوب خان نے 62 فی صد اور مادرِ ملّتؒ نے 36 فی صد ووٹ حاصل کئے اور مادرِ ملّت نے اپنی جدوجہد سے آمریت کا قلعہ ہلا کر رکھ دِیا۔ صدر ایوب خان کو خوف تھا کہ ’’کہیں اُنہیں ’’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘‘ ۔’’ سرکاری ملازم ‘‘ (Field Marshal") ہونے کے باعث صدارتی انتخاب سے نا اہل قرار نہ دے دے! ‘‘۔ چنانچہ اُنہوں نے صدارتی انتخاب سے پہلے ہی ’’ دھاندلی ‘‘ کا تناور درخت اُگا لِیا تھا ۔ وہ پچھلی تاریخوں سے فیلڈ مارشل کے عہدے سے ریٹائر ہوگئے۔ اِس کے باوجود اُنہوں نے اپنے دو قابل اعتماد وفاقی وزراء ، ذوالفقار علی بھٹو اور محمد شعیب کو اپنے "Covering Candidates" بنا لِیا تھا۔
’’ مولانا عبداُلستار خان نیازی ؒ! ‘‘
معزز قارئین ! قائداعظم ؒ کے ’’ جانباز سپاہی‘‘ تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن ’’ مجاہد ِ ملّت ‘‘ مولانا عبداُلستار خان نیازی ؒسے میرا تعارف قاضی مُرید احمد صاحب نے کرایا تھا ۔ مولانا صاحب جب بھی میانوالی سے لاہور اور لاہور سے میانوالی آتے جاتے تو، میری اُن سے ضرور ملاقات ہوتی۔ اُن دِنوں گورنر مغربی پاکستان نواب امیر محمد خان(آف کالا باغ ) کے بیٹے ملک مظفر خان سے بہت کم ووٹوں سے مولانا صاحب ہار گئے تھے لیکن اُنہوں نے تا حیات اپنا طُرّہ کبھی بھی جھکنے نہیں دِیا۔ مَیں نے اُن کی طرف سے ایک رُباعی لکھی ، ملاحظہ فرمائیں …
’’عِشق میں بیش و کم ، نہیں کرتے !
ہم ہیں درویش ، غم نہیں کرتے!
کجکُلا ہوں کے سامنے سجدے!
لوگ کرتے ہیں ، ہم نہیں کرتے!‘‘
’’مادرِ ملّت کے جلسہ ہائے عام !‘‘
مَیں نے سرگودھا کے علاوہ پنجاب کے کئی شہروں میں مادرِ ملّتؒ کے جلسہ ہائے عام میں شرکت کی ، جب سرگودھا میں ، مولانا عبداُلستار خان نیازیؒ نے بڑے ہی پُر جوش انداز میں خطاب کرتے ہُوئے کہا کہ’’ مادرِ ملّتؒ محترمہ فاطمہ جناحؒ کے خطابات سے سانحہ کربلا کے بعد اُسوۂ حضرت زینبؓ کی یاد تازہ ہو گئی ہے ۔ معزز قارئین ! اُس کے بعد ہر شہر میں مادرِملّت ؒ کے ہر جلسے میں ہر مقرر نے یہی انداز اختیار کِیا۔ پھر کیا ہُوا؟۔ مادرِ ملّت ؒ کی سالگرہ (30 جولائی) اور برسی (9 جولائی )کے موقع پر مَیں اپنے کالم میں ناظرین کو اُسوہ حضرت بی بی زینبؓ اور جدوجہد ، مادرِ ملّت ؒ کی ضرور یاد دِلاتا ہُوں ۔ آج بھی !۔
’علاّمہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ !‘‘
معزز قارئین ! علامہ اقبالؒ جب وکالت کرتے تھے تو اپنے اور اپنی گھر کی ضروریات کے مطابق مقدمات لیتے تھے اور فاضل مقدمات اپنے دوست ، وکلاء اور شاگردوں کو دے دیتے تھے ۔ علامہ صاحب نے ہر مسلمان حکمران کو ہدایت کی تھی کہ
’’ قوت عشق سے ، ہر پست کو بالا کردے!
دہر میں اسمِ محمدؐ سے اُجالا کر دے !
14 اگست 1947ء کو پاکستان قائم ہُوا تو، قائداعظم ؒ نے گورنر جنرل آف پاکستان کا عہدہ سنبھالتے ہی اپنی ساری جائیداد کا ایک ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام کردِیا تھا۔ قائداعظم ؒ نے توقیام پاکستان میں اپنے شانہ بشانہ جدوجہد کرنے والی اپنی عظیم بہن مادرِ ملّت کو بھی مسلم لیگ اور حکومت میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا۔ (جاری)