ملک میں جاری سیاسی بحران ختم ہونے کی بجائے نت نئی کونپلیں نکال رہا ہے اور خوب پھل پھول رہا ہے، ایک بحران ختم ہونے کے آثار پیدا ہوتے ہی نیا بحران سر اٹھانے لگتا ہے۔ بڑا المیہ یہ ہے کہ سیاستدان ماضی سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں ماضی بعید کو تو چھوڑیں ماضی قریب میں اپنے ہی ہاتھوں پروان چڑھائے بحرانوں سے نمٹنے میں شدید ناکامی کے باوجود تحمل،برداشت، رواداری اور جہد مسلسل جیسے اخلاقی اسباق سے دور ہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور غیر جمہوری طریقے سے پچھاڑنے کے لیے ہر حربہ آزمانے کو تیار ہیں، جمہوری اور اخلاقی اقدار انتہائی انحطاط کا شکار ہیں، معاملہ زبان درازی سے ہوتا ہوا دست درازی تک پہنچ چکا ہے اب تو بد اخلاقی میں مرد و زن کا فرق بھی مٹ چکا ہے خواتین و حضرات کے ایک دوسرے پہ زبان کے نشتروں سے روحیں تک گھائل ہو چکی ہیں ،پارلیمان جیسے مقدس ادارے کے اندر کھڑے ہو کر انتہائی گھٹیا و فحشں اشارے اور ذومعنی جملے ایک معمول بن چکا ہے، متعدد بار ارکان باہم دست و گریباں ہو چکے ایک دوسرے کو زد و کوب کرنے کے واقعات میڈیا کی زینت بن چکی ہیں اس غیر سنجیدہ اور غلیظ ماحول میں عوام کی فلاح، ان کے حقوق کے تحفظ یا مثبت قانون سازی کے متعلق سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ پارلیمان کو یہ شاید یہ ادراک ہی نہیں کہ وہ انتظامی پہ دسترس کھونے کے بعد کے اب پارلیمانی امور پہ دسترس کھوتے جا رہے ہیں پارلیمان میں تو اب یہ صلاحیت بھی نظر نہیں آتی وہ باہمی مسائل کو پارلیمان کے اندر
حل کر سکیں آئینی طور پر پارلیمان سپریم کورٹ سے برتر ہے لیکن نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اپنے ہی بنائے گئے آئین کی خلاف ورزی اور غلط تشریح کرتے ہیں اور پھر خود ہی معاملہ سپریم کورٹ میں لے جاتے ہیں گویا خود ہی پارلیمانی معاملات میں عدلیہ کو دخل اندازی کی دعوت دیتے ہیں حکومت یا اپوزیشن جس کے خلاف بھی فیصلہ آئے وہی عدلیہ پہ عدم اعتماد اور جانبداری کا برملا اظہار کر کے کوسنا شروع کر دیتے ہیں۔پارلیمان کے نمائندے پہلے پارلیمان کا تقدس پامال کر چکے ہیں اب عدلیہ پہ الزامات بلکہ دھمکیوں کے ذریعے اس ادارے کا تقدس بھی پامال کیا جا رہا ہے گو عدلیہ کی غیر ضروری مداخلت کے آثار بھی نمایاں ہیں جن کا احاطہ علیحدہ تحریر میں ہوگا۔ پارلیمانی نظام میں اسمبلی کے تمام امور کو روانی سے چلانے کا ذمہ دار سپیکر بطور نگران custodian ہوتا ہے جس کے کلیدی کردار سے انکار ممکن نہیں سپیکر کا غیر جانبدار ہونا اشد ضروری ہوتا ہے مادر جمہوریت برطانیہ میں مقولہ ہے کہ once a speaker always speaker یعنی سپیکر اس قدر غیر جانبدار ہوتا ہے وہ عہدے سے برخواست ہونے کے بعد بھی غیر جانبدار رہتا ہے یعنی اصل 'نیوٹرل' سپیکر ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں آج تک یہ ممکن نہیں ہوسکا سپیکر صاحبان custodian of the house ہونے کی بجائے ہمیشہ اپنی سیاسی جماعت کے مفاد کے محافظ رہے ہیں میرے خیال میں تمام تر اشتعال غصے اور بدنظمی کی جڑ بھی یہی ہے سپیکر کا کردار قومی و صوبائی اسمبلیوں میں انتہائی مایوس کن رہا ہے وہ اپنے حلف سے عہدہ بر ہونے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں پارلیمان کی کھوئی ہوئی عظمت کو بحال کرنے میں سپیکرز کو کردار ادا کرنا ہوگا لیکن اس کیلیے ضروری ہے کہ حکومتی جماعتیں اس مسئلے کی نزاکت کا احساس کریں اور سپیکر کو غیر جانبداری سے کام کرنے دیں تاکہ جمود کا شکار نظام آگے بڑھ سکے عوام کے مسائل و مشکلات پہ توجہ دی سکے خطرناک ترین معاشی بحران سے نمٹا جاسکے اور عوام کا جمہوری نظام پہ اعتماد بحال ہو سکے اگر اب بھی ماضی سے سبق نہ سیکھا گیا تو یقین کریں کہ آپ کی بساط لپیٹ دینے کی صورت میں ماضی کی طرح ہی عوام آپ کے ساتھ کھڑی نہیں ہوگی آپ کی تباہی پہ آنسو بہانے والا بھی کوئی نہیں ہوگا خدا راہ گھمبیر اور الجھے ہوئے ہوئے ملکی مسائل جو شیطان کی آنت کی طرح بڑھتے ہی جا رہے ہیں پہ توجہ مرکوز کریں موجودہ ملکی معاشی مسائل کے پیش نظر تمام سٹیک ہولڈرز کو بیٹھ کر غور و خوض اور گفت و شنید کے ذریعے مشکلات سے نمٹنا ہوگا عوام کی آپ سے توقع بھی یہی ہے اور آپ کو پارلیمان میں اپنا نمائندہ بنا کر بھیجنے کا اصل مقصد بھی یہی ہے کہ ملکی، بین الاقوامی اور عوامی مسائل کو ملکر بیٹھ کر مشاورت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں آپ کو پارلیمان میں اس لیے نہیں بھیجا گیا کہ تمام مسائل سے چشم پوشی کر کے اور انھیں بالائے طاق رکھ کر تمام وقت ایک دوسری کی پگڑیاں اچھالنے لڑنے بھڑنے اور فحش گوئی میں گزار دیں مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ یہ تمام مسائل پارلیمان کی نااہلی اور بیاتفاقی کی پیداوار ہیں ان سے نمٹنا بھی ان کی ہی ذمہ داری ہے۔ ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے غیر جمہوری اقدامات کے ذریعے اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ منزل کی جانب بڑھ رہے تو یقین کیجیے آپ غلط فہمی کا شکار ہیں۔
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو