سیاست عبادت ہو یا نہ ہو لیکن اس کا مقصدخدمت ضرور ہونا چاہیئے، اس لئے کہ خدمت عین عبادت کے درجے میں آتی ہے۔ عوام کو بے لوث خدمت اور بے خوف قیادت میسر آتی ہے تو پتہ چلتا ہے واقعی یہ قیادت بے خوف ہے کیونکہ نہ اللہ کا خوف اور نہ عوام کا ، اور بے لوث خدمت کا نعرہ تو بس عوام کا لہو گرمانے کا ایک حیلہ بن جاتا ہے۔ کھوکھلے نعرے اور دعوے محض اپنی سیاسی دوکان چمکانے کے لیئے استعمال ہوتے ہیں ورنہ یہ عبادت، خدمت اور قیادت کے الفاظ روح کے بغیر ہیں اور محض عوام کو نظریاتی طور پر گمراہ کرنے اور سبز باغ دکھانے کیلیئے استعمال ہوتے ہیں ۔ حالیہ سیاسی صورتحال کو لے لیجیئے جتنی سیاسی ابتری اس وقت ملک میں ہے شاید پہلے اس شدت کے ساتھ دیکھنے کو ملی ہو۔ماضی میں جب بھی سیاسی ابتری (political chaos) یا ریاستی انارکی کا سامنا ہوا تو یا عسکری قوت نے مداخلت کی اور اپنی دوکان بڑھانے کے مصداق حکمرانوں کی نشستوں پر آ بیٹھے یا پھر اگر سیاسی بصیرت سے کام لیا گیا تو ملک میں عام انتخابات کا انعقاد کیا گیا تاکہ حکومت کسے ملنی ہے اسکا فیصلہ عوام ہی کریں جو کہ طاقت کا سرچشمہ ہیں ۔موجودہ صورتحال میں غیر جمہوری قوتیں نیوٹرل ہونے کا اعلان کر کے یہ بھی فیصلہ کر چکی ہیں کہ سول حکمرانی میں کوئی بلا واسطہ مداخلت نہیں کی جائے گی ، اس کے بعد کی سیاسی صورتحال متقاضی ہے کہ یا تو سیاسی افہام و تفہیم کے ساتھ نہ صرف ملک و عوام کو مشکل سے نکالا جائے اور سویلین بالادستی کے دعوے کی لاج رکھی جائے۔لیکن ایسا نظر آتا ہے گویا سیاسی قوتوں نے عقل کے ناخن نہ لینے کی قسم کھائی ہوئی ہے یا پھر حوس اقتدار اتنی شدید ہے کہ اپنی حکمرانی اور کرسی کے لیئے ملک و قوم کی سلامتی اور عوام کی فلاح و بہبود کو بھی قربان کرنے پر تلے ہیں ۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس وقت ملک نازک دور سے گذر رہا ہے، روپے کے مقابلے میں ڈالر کا آج کا نرخ دو سو اڑتیس روپے ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں پہلے ہی آسمان سے باتیںکر رہی ہیں ،ادارہ شماریات کے مطابق مہنگائی کا گراف تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے ، بیرونی قرضہ کی قسط ادا کر نے کے لیئے پیسے نہیں اس لیے ڈیفالٹ کا خطرہ ہے اس دیوالیہ پن سے بچنے کے لیئے قرضہ ادا کرنے کے لیئے مزید قرضہ لیا جا رہا ہے، ملک کا وزیر اعظم خود کہتا ہے کہ میں دوست ممالک کے پاس مانگنے کے لیئے گیا کیونکہ ’’مجبوری ہے‘‘سربراہ حکومت کا ایسا بیان ملکی خود مختاری کا جنازہ نکالنے کے مترادف ہے۔ویسے بھی وزیر اعظم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہم فقیر ہیں اور فقیر کے پاس کوئی پسند یا نا پسند کا اختیار نہیں ہوتا (Beggras can't be choosers) ، سیاسی ابتری کا عالم یہ ہے کہ ایک دن ایک وزیر اعلیٰ منتخب ہوتا ہے تو دود ن بعد حکومت تبدیل ہو جاتی ہے، سیاسی معاملات پر عدلیہ کو گھسیٹا جا رہا ہے ، رات دو بجے حلف برداری کی تقریب ہوتی ہے کیونکہ آنے والے پل سے متعلق کوئی نہیں جانتا کہ کیا ہونے والا ہے۔ جو بڑھ کر تھام لے مینا اسی کا ہے۔سیاسی مقدمات عدالت میں لے جا کر فیصلے لیئے جا رہے ہیں اور پھر مخالفانہ فیصلہ آنے پر عدلیہ کے پر کاٹنے کی باتیںکی جاتی ہیں ۔اور عدلیہ کا باور کرایا جاتا ہے کہ ہر ادارے کی طرح یہ ادارہ بھی اپنے دائرہ اختیار میں رہے۔اس وقت نون لیگ کی وفاقی حکومت صرف اسلام آباد تک محدود ہے کیونکہ پنجاب اور کے پی میں تحریک انصاف براجمان ہے، سندھ اور بلوچستان میں بھی نون لیگ کی کوئی عملداری نہیں ۔موجودہ صورتحال نئے انتخابات کے نتیجے میں فریش عوامی مینڈیٹ کی متقاضی ہے ، خود نون لیگ میں سینیئر رہنما بھی نئے انتخابات کو ہی مسئلے کا حل قرار دیتے ہیں ، یہاں تک کہ پی ڈی ایم اتحاد میں شام جماعتیں اقتدار میں ہونے کے باوجود چاہتی ہیں کہ نئے انتخابات ہوں ، لیکن شہباز شریف جو کہ اپنے بڑے بھائی اور اپنی سیاسی طور پر فعال بھتیجی کے موجود ہوتے ہوئے پہلی بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر پہنچیں ہیں وہ اس پہلی باری سے بھر پور لطف اندوز ہونا چاہ رہے ہیں اور پنجاب میں بھی اپنے صاحبزادے حمزہ کے لیئے وزارت اعلیٰ کے ساتھ ساتھ اپنا سیاسی جانشین ہونے کا مستقبل محفوظ بنانا چاہتے ہیں ۔ انہیں معلوم ہے کہ آصف زرداری کا بیٹا اپنی پارٹی کا وارث ہے، مولانا فضل الرحمان کے صاحبزادے بھی موروثی سیاست کی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں ، نون لیگ کے دلوں کا وزیراعظم نواز شریف کی جان نشین انکی صاحبزادی مریم بھی اپنے پرستاروں سے اپنے حق میں مستقبل کی وزیر اعظم کے نعرے لگوا رہی ہیں ، اور تکنیکی اور قانونی بندشوں کے باوجود عملی سیاست میں مکمل طور پر فعال ہیں، اگر وہ ایوان فیلڈ ریفرنس میںسزا یافتہ نہ ہوتیں اور یہی قانونی بندشیں شہباز شریف پر ہوتیں تو آج کی صورتحال میں نواز شریف نے مریم بی بی کو ہی وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر سامنے لانا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف اس مشکل حالات میں ملنے والے وزارت عظمیٰ کو کسی صورت چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں ، سیاست اور حکومت بڑی بے وفا چیز یں ہیں ، آج ہیں کل نہ ہوں ، اس لیئے شہباز شریف یہ جانتے ہوئے بھی کہ موجودہ انداز میں ریاست تباہی کی طرف جا رہی ہے، معاشی اشاریئے سرخ ہوکر ٹمٹما رہے ہیں، ملکی خودمختاری تو پہلے ہی گروی ہے اب سلامتی کو بھی خطرہ لاحق ہے، عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، حکومتی زعماء خود کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس زہر کھانے کو پیسے نہیں ، آئی ایم ایف سے ملنے والا قرضہ سے متعلق خود وزیر داخلہ کہ چکے ہیں کہ چند ارب ڈالرز کے عوض آئی ایم ایف ہم سے ناک رگڑوا رہا ہے جبکہ وزیر خزانہ اس ناک رگڑنے کے بعد ملنے والے پیسوں کی قسط وصول ہونے پر قوم کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔اقتدار کے لیئے میوزیکل چیئرز کا کھیل جاری ہے، یہ کھیل کھیلنے والوں کی نظر اور توجہ صرف اور صرف کرسی پر ہے ، انہیں نہیں غرض کہ ملک ڈوب رہا ہے، عوام مر رہی ہے، ریاست کے وجود کا خطر لاحق ہے لیکن ان تمام تحفظات اور خطرات کے باوجود سیاسی تماشہ جاری ہے۔ان کا ماننا تو یہ ہے کہ اقتدار رہنا چاہیئے ملک تو بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں لیکن عوام کو طفل تسلی یہ دی جاتی ہے کہ جو ملک رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو بنا اسے کوئی ختم نہیں کر سکتا۔پھر پتہ نہیںیہ مملکت خداداد وجود میں آنے کے چوبیس سال بعد ہی دو لخت کیوں ہو گئی۔ایک بات جوہم بھول رہے ہیں اور ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہیئے کہ ہم تاریخ بھول سکتے ہیں لیکن تاریخ کبھی ہماری بھول کو معاف نہیں کرتی۔
میوزیکل چیئرز
Jul 30, 2022