اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) جوڈیشل کمشن کا اجلاس موخر کیے جانے کے حوالے سے سپریم کورٹ کی طرف سے ایک اور اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے۔ چیف جسٹس کی ہدایات پر ترجمان سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے کے ساتھ آڈیو کلپ کا لنک بھی دیا گیا ہے جو ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔ بیان کے مطابق اعلامیے کو سپریم کورٹ کے دو معزز جج صاحبان نے متنازع بنایا‘ سپریم کورٹ کے بیان کے مطابق آڈیو ریکارڈنگ میں اٹارنی جنرل کا وہ بیان بھی شامل ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ رولز بنانے تک معاملہ موخر کیا جائے۔ چیف جسٹس کے بیان کے مطابق اٹارنی جنرل نے ہائی کورٹس کے ججوں کی نامزدگی کو مسترد نہیں کیا۔ اس طرح جوڈیشل کمیشن کے پانچ اراکین نے اجلاس موخر کرنے پر رائے دی ہے۔ جوڈیشل کمشن اجلاس کی کارروائی کے حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بعد سپریم کورٹ کے جج جسٹس طارق مسعود نے جوڈیشل کمشن کے اجلاس پر ارکان کو خط لکھ دیا ہے۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے خط میں کہا کہ جوڈیشل کمشن کا اجلاس شروع ہوا تو چیف جسٹس نے اپنے نامزد ججز کے کوائف کے بارے میں بتایا۔ پھر جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی نے چار ججز کی تقرری کے حق میں جبکہ ایک کے خلاف رائے دی۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے خط میں کہا کہ میں نے بھی اپنی باری پر رائے دی اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی سپریم کورٹ میں تقرری کی رائے دی، کیونکہ وہ سینئر ترین جج ہیں۔ جسٹس طارق مسعود نے اپنے خط میں کہا ہے کہ میں نے سندھ ہائی کورٹ کے تین اور لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج کی نامزدگی کو نامنظور کیا۔ پھر اٹارنی جنرل ، وزیر قانون اور بار کونسل کے نمائندے نے مجھ سے اتفاق کرتے ہوئے چار نامزد ججز کی تقرری کو نامنظور کیا۔ خط میں کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے میری رائے سے اتفاق کیا۔ جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ کمشن کے پانچ ارکان نے نامزدگیوں کو نامنظور کر دیا تھا، تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال رائے سننے کے بعد فیصلہ سنانے کی بجائے اچانک میٹنگ سے اٹھ گئے۔ جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ سپریم کورٹ ترجمان کی طرف سے جاری کردہ اعلامیہ حقائق کے برعکس ہے، سپریم کورٹ ترجمان جوڈیشل کمشن کا ممبر ہے نہ سیکریٹری، سپریم کورٹ کے اعلامیے میں کہا گیا کہ اجلاس موخر کردیا گیا مگر فیصلہ جاری کردیا گیا۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے مزید کہا کہ اجلاس میں ارکان نے پانچ اور چار کے تناسب سے پانچوں نام مسترد کئے، چیف جسٹس صاحب فوری طور پر جوڈیشل کمشن اجلاس کے درست منٹس جاری کریں تاکہ جوڈیشل کمشن کے تفصیلی منٹس پبلک کرنے سے افواہوں کا خاتمہ ہوگا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ کے سینیئر جج اور ممبر جوڈیشل کمشن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی جوڈیشل کمشن کے سربراہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور ممبران جوڈیشل کمشن کو بھی خط میں جوڈیشل کمشن کی کارروائی پبلک کرنے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتیوں کے معاملہ پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان بار کونسل سمیت مختلف بار ایسوسی ایشنز نے مشترکہ اعلامیے میں کہا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں پانچ جج صاحبان کی نامزدگی مسترد ہونے کے اکثریتی فیصلے کے ساتھ کھڑے ہیں، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے وزیراعظم کی ہدایت پر جوڈیشل کمشن میں اصولی موقف اختیار کیا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا سینیارٹی اصول کے تحت رائے دینا قابل ستائش ہے، اعلیٰ عدلیہ میں جج صاحبان کی تعیناتیاں سنیارٹی اصول کے مطابق کی جائیں، سینیارٹی اصول کے بر خلاف مسلسل تعیناتیوں کے سبب عدلیہ کی ساکھ متاثر ہوگی۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا ہے کہ اس جوڈیشل کمشن کو قومی فریضہ دیا گیا ہے۔ میری رائے میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اﷲ کے نام پر بھی غور کرنا چاہئے۔ اس حوالے سے بار کیا سوچتی ہے وہ ضروری ہے۔ ججز کی تقرری کے حوالے سے شفافیت ہونی چاہئے۔ جسٹس طارق مسعود نے جو کہا وہ درست کہا۔ ہم اپنے آپ کو موجودہ خالی آسامیوں تک محدود کریں۔
جوڈیشل کمشن
جوڈیشل کمشن اجلاس سپریم کورٹ کا اعلامیہ آڈیو جاری جسٹس طارق مسعود کا بھی اختلافی خط
Jul 30, 2022