ارشاد باری تعالیٰ ہے :” اور جس نے میری یاد سے منہ پھیرا تو بیشک اس کے لیے تنگ زندگانی ہے اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے۔ کہے گا اے میرے رب مجھے تو نے اندھا کیوں اٹھایا میں تو دیکھتا تھا “۔ ( سورة طٰہٰ)۔
اس آیت مبارکہ میں ذکر سے مراد دین الہی ، کتاب اللہ کی تلاوت اور اس کے تقاضوں پر عمل کرنا ہے ایک قول کے مطابق ذکرسے مراد یہ ہے کہ اسلام کے دین حق ہونے پر جو دلائل نازل کیے گئے ہیں اور اس سے مراد ذکر مصطفی بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ذکرآپ سے ہی حاصل ہوتا ہے۔
”ضنکا“ ضنک کا مطلب ہے تنگی ہے۔ اور حضرت ابو عبیدہ فرماتے ہیں اس سے مراد تنگی میں بسر ہونے والی زندگی ہے۔ ہر زندگی جو تنگی میں بسر ہو یا تنگ جگہ ہو یا تنگ منزل ہو اسے ”ضنک“ کہتے ہیں۔ یعنی جو بندہ ذکر الہی کرنا چھوڑ دیتا ہے اس کی زندگی سے خوشحالی ختم ہو جاتی ہے اور قیامت کے دن بھی اسے اندھا اٹھایا جائے گا۔
دنیا میں تنگی : دنیا کی تنگی یہ ہے کہ بندہ ہدایت کی پیروی نہ کرے ، برے عمل اور حرام کاموں کی طرف راغب ہو ، قناعت سے محروم ہو کر حرص میں مبتلا ہو جائے اور مال کی کثرت کے باوجود کنجوسی کرے اور سکون میسر نہ ہو۔ دل ہر چیز کی طلب اور حرص میں مبتلاہو جائے، حال تاریک اور وقت خراب رہے اورتوکل کرنے والے مومن کی طرح اس کو سکون میسر نہ ہو۔
قبر میں تنگی : قبر کی تنگی یہ ہے کہ قبر میں عذاب دیا جائے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ معیشت ضنک کیا ہے ؟ صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ آپ ہی زیادہ جانتے ہیں ہمیں بتائیں یہ کیا ہوتی ہے۔ یہ قبر میں کافر کا عذاب ہے اور اس ذات کی قسم جس کے بضہ قدرت میں میری جان ہے کافر پر ننانوے تنین مسلط کیے جائیں گے۔ کیا تم جانتے ہو یہ تنین کیا ہے ؟ وہ ننانوے سانپ ہیں اور ہر سانپ کے پانچ پھن ہیں وہ اس کے جسم میں پھونکیں ماریں گے اور قیامت تک اس کو ڈستے اور نوچتے رہیں گے۔
آخرت میں تنگی : آخرت میں تنگ زندگی جہنم کے عذاب میں مبتلا ہونا ہے جہاں جہنمیوں کو کھولتا پانی اور خون اور ان کی پیپ کھانے کو دی جائے گی۔
دین میں تنگی : اس سے مراد یہ ہے کہ بندہ دین سے دور ہو جائے اور آدمی حرام کمانے میں مبتلا ہو جائے۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں بندے کو تھوڑا ملے یا زیادہ اگر اس میں خوف خدا نہیں تو اس میں کچھ بھلائی نہیں اور یہ تنگ زندگی ہے۔