گھوٹکی میں ڈاکوﺅں کا تھانے پر حملہ۔ 2 پولیس اہلکار جاں بحق۔
پولیس پر دہشت گردوں کے حملوں میں کیا کمی رہ گئی تھی کہ اب ڈاکوﺅں نے رہی سہی کسر پوری کرنے کے لیے پولیس تھانوں کو نشانے پر لے لیا ہے۔ یہ تو ظلم ہے بے چارے پولیس والوں پر جس کا بدلہ وہ اب غریب عوام سے ہی لیں گے کیوں کہ دہشت گرد اور ڈاکو تو پولیس والوں کی دسترس سے بہت دور ہیں۔ لے دے کر یہی بے چارے غریبوں کی گردن پر ہی ان کا ہاتھ پڑتا ہے جن کو پہلے ہی تمام سرکاری وردی والے اور بغیر وردی والے ادارے یوں پیستے ہیں جیسے چکی کے دو پاٹوں کے درمیان گہیوں پستا ہے۔ خیر بات کہاں سے کہاں جا پہنچی۔ واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ روز گھوٹکی میں ڈاکوﺅں نے پولیس سٹیشن پر حملہ کر کے خدا جانے کس بات کا بدلہ لیا۔ اس حملے میں دو پولیس اہلکار جاں بحق ہو گئے۔ گزشتہ چند روز میں ایک آدھ موٹی گردن والا ڈاکو پولیس نے پھڑکا دیا تھا۔ کہیں یہ اس کا جواب تو نہیں۔ پولیس سٹیشن پر حملے کے جواب میں اب پولیس والوں کو چاہیے کہ ڈاکوﺅں کے ٹھکانے کو تہس نہس کر کے نشانِ عبرت بنا دیں تاکہ دوبارہ کوئی ڈاکو بھائی اس طرح کسی پولیس سٹیشن پر حملہ آور نہ ہو۔ اب دو کے جواب میں کم از کم دو ڈاکو پھڑکانے کا تو حق بنتا ہے ورنہ کیا فائدہ کہ حساب برابر نہ کیا جائے۔ گھوٹکی کے ڈاکوﺅں کے ڈانڈے بھی کچے کے ڈاکوﺅں سے ہی ملتے ہیں۔ یہ بات سب کے علم میں ہے۔ کئی آپریشنز کے باوجود یہ ناسور ٹھیک ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اسی لیے کہتے ہیں چور سے پہلے چور کی ماں کو مارو۔ یعنی ڈاکو?ں کے سرپرستوں کو مرغ بسمل بنا کر چھوڑا جائے تو امید ہے اس مرض میں افاقہ بہت جلد نظر آنے لگے گا۔
الاﺅنس میں 15 روپے فی کلو میٹر اضافہ۔
کیوں بھائی یہ کیا بات ہوئی۔ ایک طرف عوام کے لیے سفری بندوبست مہنگے سے مہنگا ہو رہا ہے۔ ریل ہو یا بس ، رکشہ ہو چنگ چی ان سب کے کرایے اس تیزی سے بڑھ رہے ہیں کہ لوگوں کے لیے سفر کرنا خواہ شہر کے اندر ہو یا ایک شہر سے دوسرے شہر تک آنا جانا ہو۔ دشوار ہو گیا ہے۔ وہ بے چارے گھر والوں کے ساتھ تو کیا تنہا بھی سفر کرنے کے قابل نہیں رہے۔ دوسری طرف اندھا بانٹے ریوڑیاں والی مثال سامنے آ رہی ہے کہ جس حکومت کو غریبوں کی فکر نہیں اس نے اپنے غریب ارکان قومی اسمبلی کے سفری الاﺅنس میں اضافہ کر دیا ہے کیونکہ یہ بے چارے صرف غریب ہی نہیں نہایت ہی غریب بلکہ بدحال مفلس و کنگال ہیں۔ حالانکہ اگر حکومت ان سے سرکاری گاڑیاں اور سفری الاﺅنس واپس لے لے تو تب بھی یہ اپنی اپنی لینڈ کروزر وغیرہ جیسی بڑی لگژری گاڑیوں میں اپنی جیب سے پٹرول ڈلوا کر بھی ہر جگہ آ جا سکتے ہیں۔ جہاز کا کرایہ ادا کر سکتے ہیں۔
مگر کیا کریں کہتے ہیں ناں چھٹتی نہیں ہے منہ کو یہ کافر لگی ہوئی۔ مفت کا مال کھانے میں جو مزہ ہے وہ اپنا مال کے کھانے میں کہاں آ سکتا ہے۔ حکومت کی چالاکی بھی دیکھیں فی کلو میٹر 15 روپے کے اضافے کا اس لیے آرڈر جاری کیا ہے کہ عوام کو اس گورکھ دھندے کا پتہ نہ چلے کہ یہ رقم لاکھوں روپے بنتی ہے۔ رعایتی پٹرول کے مزے علیحدہ ہیں۔ اور کس کس سہولت کا رعایت کا ذکر کیا جائے۔ عوام کو 16 روپے میں سادہ روٹی ملتی ہے جبکہ قومی اسمبلی کے کیفے ٹیریا میں یہی روٹی ارکان اسمبلی کو 2 یا ایک روپے میں دستیاب ہے، اورباقی کھانا بھی تقریباً مفت ہے شاید یہ مفلوک الحال لوگ اس رعایت کے مستحق ہیں اور 24 کروڑ "امیر" عوام کو رعایت کی ضرورت نہیں۔
مسیحی اس بار مجھے ووٹ دیں۔ ٹرمپ۔
لیجئے جناب لگتا ہے بلّی تھیلے سے باہر آ گئی ہے۔ ٹرمپ میں بھی ہٹلر یا مودی کی انتہا پسند روح بیدار ہو گئی ہے۔ وہ بھی امریکی الیکشن میں اب مذہبی جذبات ابھار کر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا وہ نازی قوم پرستی اور بھارتی مذہبی منافرت کو بروئے کار لا کر امریکی عوام کو بھڑکارہے ہیں۔ آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا۔ وہاں تو گورے ہی نہیں کالے بھی صدر بن چکے ہیں۔ کسی نے رنگ و نسل کے نام پر لوگوں کے جذبات نہیں بھڑکائے حالانکہ یہ بھی ایک آسان طریقہ تھا۔ مگر دنیا جانتی ہے اور امریکہ کا دعویٰ ہے کہ وہ مذہب، قوم ، رنگ و نسل کی تفریق پر یقین نہیں رکھتا۔ مگر دیکھ لیں اب امریکی صدارتی امیدوار جو پہلے بھی صدر رہ چکے ہیں نجانے کیوں اس درجہ نیچے آ کر بات کر رہے ہیں۔ کیا انہوں نے امریکہ کو ایک مسیحی ریاست کا درجہ دلوانا ہے جیسے ہٹلر جرمن کو نازی سٹیٹ بنانا چاہتے تھے اور مودی بھارت کو ہندو ریاست بنانے کے چکروں میں ہے۔ کیا ٹرمپ کو خطرہ ہے کہ وہ جیت نہیں سکتے۔ حالانکہ گولی لگنے کے بعد ان کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے۔ مگر جس طرح انہوں نے امریکہ کے مسیحی ووٹروں کا نام لے کر ان سے کہا ہے کہ مجھے ووٹ دیں آئندہ کے تمام مسئلے حل ہوں گے وہ بھی 4 سالوں میں، تو کیا اب امریکہ میں جو لبرل، سیکولر اور دیگر عقائد کے ماننے والے آباد ہیں، ان کی ٹرمپ کی نظروں میں کوئی حیثیت نہیں؟۔ تو اب کیا امریکہ مسیحی سٹیٹ بن جائے گا۔ اس کے اثرات شاید زیادہ خطرناک ہوں گے۔ لوگ نازی ازم اور ہندوتوا کو بھول جائیں گے۔ کیا امریکہ کے باشعور ووٹر اس بات کی اجازت دیں گے۔
ٹریفک قوانین کی مسلسل خلاف ورزی پر بھاری جرمانے کا ریکارڈ۔
یہ تو ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں ٹیلنٹ کی قدر نہیں کی جاتی ، ورنہ ہمارے ہاں ایسے ایسے فنکار پائے جاتے ہیں کہ اگر انہیں موقع ملے تو وہ دنیا میں دھوم مچاتے پھریں۔ خطروں کے کھلاڑی ہوں یا کار و موٹر سائیکل کے۔ ریس میں ایسا نام کمائیں گے کہ لوگ دنگ رہ جائیں گے۔ اب لاہور کے اس کار والے ”مہا گرو“ کو ہی دیکھ لیں۔ اس کی مہارت کی داد د یں کہ کس طرح جس شہر کی سڑکوں پر قدم قدم پر ناکے لگے ہیں سیفٹی کیمرے لگے ہیں موٹر سائیکلوں اور کاروں میں پولیس، ڈولفن اور ٹریفک والے پھوں پھاں کرتے گشت کرتے پھرتے ہیں۔ اس شہر میں ٹریفک کے اڑدھام میں اس نے 200 سے زیادہ مرتبہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی اور پکڑا نہیں گیا۔ اس کے چالان بھی ہوئے تو اس کا مطلب صرف یہی نہیں کہ وہ عادی مجرم ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ کتنا شاطر اور ڈاج دینے والا کار ریسر ہے۔ اسے اگر عالمی ریس کے مقابلوں میں شرکت کا موقع ملے تو ہو سکتا ہے یہ وہاں بھی اپنے کمالات کا بھرپور مظاہرہ کر کے دنیا کو متاثر کرے۔ گزشتہ روز لاہور ٹریفک پولیس نے جس کار والے کو پکڑا وہ خیر سے 200 سے زائد مرتبہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر ”چالان یافتہ“ ہو چکا ہے۔ مگر وہی دیدہ دلیری کہ چالان جمع نہیں کرائے۔ اب پولیس کے قابو آیا تو اسے ایک لاکھ 9 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا جو ایک ریکارڈ ہے۔ اس کار والے نے جو بروقت ادا کر دئیے۔ ویسے اگر پولیس اسے نہ پکڑتی تو وہ جرمانوں کی ٹرپل سنچری بنا کر عالمی سطح پر اپنا نام روشن کر سکتا تھا۔ مگر ایسا نہ ہوا اور وہ اس اعزاز سے محروم رہ گیا۔ کیا ایسے سر پھروں کا علاج صرف جرمانہ ہے۔ ایسے لوگوں کے گاڑی چلانے پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی جو اپنے ساتھ دوسروں کی زندگیوں کو داﺅپر لگاتے ہیں اور قانون کا مذاق اڑاتے ہیں۔