وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا ہے کہ آئی پی پیز معاہدوں کو کسی صورت تبدیل نہیں کرینگے‘ معاہدے یکطرفہ طور پر ختم کرکے 900 ملین ڈالر کا جرمانہ ادا نہیں کر سکتے‘ بجلی کی قیمت میں کمی کے اقدامات کر رہے ہیں۔ دوسری جانب وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ سیاسی پارٹیاں، سیاست اور لانگ مارچ کے بجائے سر جوڑ کر ملکی مسائل کا حل نکالیں۔
عوامی حلقوں میں بجلی کے بلوں میں بے تحاشہ اضافے کا ذمہ دار انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو قرار دیا جا رہا ہے اور انکے ساتھ کئے گئے معاہدوں پر ان حلقوں اور سوشل میڈیا پر کڑی تنقید کی جارہی ہے جبکہ بجلی کے ہوشربا بلوں کیخلاف ملک گیر احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ بیشک کوئی بھی معاہدہ یکطرفہ طور پر منسوخ نہیں کیا جاسکتا مگر جومعاہدے قومی خزانے پر بوجھ بن رہے ہوں ان پر نظرثانی تو کی جاسکتی ہے۔ جو کمپنیاں بغیر بجلی فراہم کئے کھربوں روپے سے نوازی جا رہی ہوں ان سے اس لوٹ مار کی رقم واپس نکلوانی چاہیے چہ جائیکہ انہیں مزید لوٹ مار کی سہولت دی جائے۔ جنہوں نے ملک و قوم کے مفادات کے بجائے اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے ان کمپنیوں سے 2050ءتک کے معاہدے کئے اور اپنا کمیشن کھرا کیا۔ انکے کمیشن بند کرکے ان کمپنیوں کے ساتھ ہیٹ آڈٹ، ٹیکس اور فرانزک آڈٹس کئے جا سکتے ہیں۔ یہ افواہیں بھی گردش کررہی ہیں کہ جن آئی پی پیزکے معاہدوں کی مدت پوری ہونے والی ہے یا ہوچکی ہے ان میں توسیع کی گنجائش نکالی جائےگی۔ حالات کے تناظر میں سب سے پہلے حکومت یہ طے کرلے کہ کسی بھی آئی پی پی کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی مدت میں توسیع نہیں کی جائےگی۔ان پاور کمپنیوں کے ہاتھوں عوام کی جو درگت بن رہی ہے‘ وہ اتحادی حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے۔ عوام خودکشی کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ گزشتہ روز گوجرانوالہ میں علاج کے پیسوں سے بجلی بل دینے پر دلبرداشتہ ہو کر ایک معمر خاتون نے نالے میں کود کر خودکشی کرلی جبکہ غریب طبقہ اپنے گھروں کا سامان بیچ کر بجلی بل ادا کرنے پر مجبور ہے‘ ایسے میں وزیر توانائی کا بیان نہ صرف عوام میں مایوسی پھیلا سکتا ہے بلکہ انہیں حکومتی پالیسیوں کیخلاف سڑکوں پر بھی آنے پر مجبور کر سکتا ہے جس کا فائدہ اپوزیشن اور حکومت مخالف دوسری پارٹیاں اٹھا کر حالات کو مزید سنگین بنا سکتی ہیں۔ قوم کو مسائل سے نکالنا اقتدار میں موجود اتحادی پارٹیوں کی ذمہ داری ہے نہ کہ اپوزیشن کی۔ہر اپوزیشن جماعت اپنے وقت میں پوائنٹ سکورنگ کی سیاست کرتی ہے جو حکومت کے اچھے کاموں پر بھی تنقید کرتی نظر آتی ہے۔ اس لئے عوامی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے اتحادی حکومت کو آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات کرنے کی اشد ضرورت ہے‘ جب تک انکی اجارہ داری ختم نہیں کی جاتی ‘ بجلی کی قیمتوں میں کمی کے اقدامات کامیاب ہوسکتے ہیں اور نہ مہنگائی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔