غلامی کا تسلسل

برطانوی نڑاد عالمی محقق مائیکل بھاسکر نے اپنی کتاب (Human Frontiers) میں لکھا ہے کہ اگرچہ دنیا کی تاریخ قریباً ایک جیسے تسلسل سے آگے بڑھتی رہی ہے تاہم 18 ویں صدی کے آخر میں یورپ کی امیر قوموں کی ترقی پَر لگاکر ایسی اڑی کہ فی کس جی ڈی پی میں 10 ہزار فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ انہوں نے اسکی وجہ تجارت اور دوسرے عوامل کے ساتھ ساتھ نو آبادیات کو بھی قرار دیا ہے۔ 
 تجارت تو دنیا میں کئی ہزار سال سے رائج ہے اس لئے اس ”کارکردگی“ کا زیادہ تر ذمہ دار بلکہ بہت زیادہ ذمہ دار نو آبادیات (دوسرے ملکوں اور وسائل پر قبضہ) کو ہی ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ 
 ایک اور فلسطینی محقق اور مغرب کے بہت بڑے نقاد ایڈورڈ سعید ہیں جو امریکہ میں پڑھاتے رہے اور جنہیں انکی مشہور زمانہ کتاب اورینٹل ازم (شرق شناسی) اور خم ٹھونک کر فلسطینی کاز کی حمایت کی وجہ سے دنیا جانتی ہے، نے بھی ایک کتاب کلچر اور امپریل ازم (Culture and Imperialism) لکھی جس میں انہوں نے بتایا کہ کس طرح آسٹریلیا سے لیکر ویسٹ انڈیز تک نو آبادیاتی طاقتوں کے ادیبوں نے اپنے”غلاموں“ سے بے تحاشا وسائل ملنے پر 19 ویں صدی کے آخر اور 20 ویں صدی کے شروع میں شاندار ادب تخلیق کیا۔ چونکہ بقول ساحر لدھیانوی ”بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی“ اس لئے غلاموں نے بھی جواباً مزاحمتی ادب توتشکیل دیا لیکن اس میں امیروں والے چونچلوں کی بجائے حقائق کی تلخیوں کو زیادہ دخل رہا۔ 
آج جو قومیں اظہار رائے، بنیادی حقوق، سائنس اور آرٹس کی ترقی کو لیکر آگے چل رہی ہیں اور بجا طور پر ان عوامل کی ترقی کی دعویدار ہیں ان سے کم از کم یہ تو پوچھا جا سکتا ہے کہ صرف برصغیر سے 45 ٹریلین امریکی ڈالر، افریقہ اور دیگر خطوں سے بھی کھربوں ڈالر سمیٹ کر آج وہ کیسا محسوس کر رہی ہیں؟ اور کیا وہ انسانی حقوق کے بیانیہ کے نیچے آج بھی اپنا یہ کھیل جاری رکھنا پسند کر رہی ہیں یا اب وہ واقعتاً سخن فہم ہو چکی ہیں اور محض "غالب" کی طرفدار نہیں رہیں۔ 
 بھارتی نژادامریکی صحافی فرید زکریا نے کئی برس گزرے ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام آزادی کا مستقبل (The Future of Freedom) رکھا۔ اس کتاب میں انہوں نے بتایا کہ خود کو جمہوری کہنے اور کہلوانے والے امیر ملکوں کے زیادہ گہرے تعلقات غیر جمہوری ملکوں سے ہیں۔
اس حوالے سے انہوں نے بڑھ چڑھ کر امریکہ وسطی ایشیائی اور مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کی مثال دی تھی۔ کیا آج بھی دنیا ایسی نہیں کہ امیر ملک اور ان کے کرتا دھرتا اپنے انسانی حقوق والے ہاتھ سے بڑی فیاضی کے ساتھ غریب قوموں کو قرض اور امداد دیتے ہیں اور اپنے دوسرے بنیا پن والے ہاتھ یعنی مالیاتی اداروں کے ذریعے سود سمیت وصول کر لیتے ہیں بات صرف قرض کی نہیں بلکہ کئی چھوٹی قوموں کے خون پیسنے اور قدرتی وسائل کی دولت کا بڑا حصہ ان ملکوں کے بنکوں میں پڑا ”سکھ کا سانس“ لے رہا ہے، غریب ملکوں سے لوٹی رقم الگ سے امیر ملکوں میں ڈیرے ڈالے پڑی ہے اور آئے روز اس کا حجم بڑھتا جا رہا ہے اور غریب ملکوں کے عوام پیسہ ہونے کے باوجود ”دکھ کی رسی پر چلنے کا تماشا دکھانے پر مجبور ہیں۔
جب تک انسانی حقوق کے علمبردار ایک ہاتھ سے بنیادی حقوق کا ڈرم بجانے اور دوسرے ہاتھ سے غریبوں سے چھینا ہوا مال سمیٹنے میں لگے رہیں گے، نہ انسانی حقوق کی صورتحال بہتر ہوگی اور نہ ہی غریب اپنے وسائل کے بل پر زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں گے۔ 
یہ تو مالیاتی رخ ہے۔ عالمی سیاست دیکھ لیں.... آج دنیا کے دو بڑے تنازعات، کشمیر اور فلسطین بھی اسی نو آبادیاتی نظام کی دین ہیں۔ یعنی کئی نو آبادیاتی نظام کے علمبرداروں کی رسی جل گئی لیکن بل نہیں گیا کیونکہ یہ ” بل“ اگلی سے اگلی طاقتوں کو منتقل ہوتا جا رہا ہے۔
ایک دانشور کواسی کوار ٹینگ نے تو اپنی کتاب (Ghosts of empire) میں اس سارے عمل کو برطانوی سلطنت (جہاں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور اب وہ اتنی چھوٹی ہو چکی ہے کہ ڈھونڈے سے نہیں ملتی) کی بدروح قرار دیکر خوب لتے لئے ہیں۔
 بڑے ملکوں نے نو آبادیاتی نظام کے ذریعے خوشحالی کی ریوڑیاں مڑ مڑ کر اپنے لوگوں اور بدحالی کے تازیانے غلاموں کے درمیان بانٹ دیئے۔ اس سے بھی بڑا ظلم یہ ہوا کہ جاتے ہوئے غلاموں کی رنگ و نسل والی اپنی باقیات چھوڑ گئے۔ کئی ملکوں کو کہنے کو آزادیاں مل گئیں جشن منائے گئے، حلوے مانڈے تقسیم ہوئے لیکن اصل میں نو آبادیاتی طاقتوں کے جانے کے بعد بھی انکے تربیت یافتہ لوگ ان ملکوں پر مسلط رہے اور”سلسلہ ٹوٹا نہیں ہے درد کی زنجیر کا“ والا معاملہ ہو گیا۔
اپنے چاروں طرف نظر دوڑائیں، مشاہدہ کریں تو کیا ایسا کچھ ہے جو بدلا ہوا محسوس ہوتا ہو۔ وہی جاگیرداریاں، وہی گھوڑی پال مربعے نما اراضیاں، وہی می لارڈ، می لارڈ کی صدائیں، وہی دھوپ، وہی چھاو¿ں.... کچھ بھی تو نہیں بدلا.... سب سے بڑھ کر معاشی استحصالی نظام بھی ویسا ہی ہے یعنی ٹیکس دینے، بل ادا کرنے کیلئے مجبور عوام اور عیاشیوں کیلئے اشرافیہ .... دکھ سہیں بی فاختہ اور کوئے انڈے کھائیں .... کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس نو آبادیاتی نما نظام میں عوام منگو تانگے والے بن کر رہ گئے ہیں اور بس.... تھوڑی دیر خوش فہمی کا جشن منانے کے بعد طویل عرصہ تک مار کھانا پڑتی ہے۔ جگہ جگہ باور کرایا جاتا ہے کہ غلطی عوام کی ہے کیونکہ قانون وہی پرانا ہے۔ 
ان نو آبادیات نما نظام کا شکار ہونے والے ملکوں میں جمہوریت آتی بھی ہے تو اس ڈھنگ سے کہ جمہوری گینگ مسلط ہو جاتے ہیں۔ اشرافیہ کے کچھ نمائندے ایک طرف تو کچھ دوسری طرف اور ”عوامی فلاح“ کیلئے جدوجہد کا کھیل وہیں سے دوبارہ شروع ہو جاتا ہے جہاں سے پہلے والے گینگ نے ختم کیا ہوتا ہے۔
 امید بہرحال نہیں ٹوٹنی چاہئے۔ سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنے کا عمل جاری رکھیں ذہنوں کی ورزش کو نہ روکیں پہچاننے کا عمل جاری رکھیں۔ آپ دیکھیں گے کہ ایک ایسی صبح آئے گی جب اندھیرے سچ مچ بھاگ جائیں گے، جب تیسری دنیا کے تیسرے درجہ کے محکوموں کی قربانیاں رنگ لائیں گی بقول ساحر 
ان کالی صدیوں کے سر سے جب رات کا آنچل ڈھلکے گا 
جب دکھ کے بادل پگھلیں گے جب سکھ کا ساگر چھلکے گا 
جب امبر جھوم کے ناچے گا جب دھرتی نغمے گائے گی 
وہ صبح کبھی تو آئے گی 

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...