بعض اوقات گھر کے سربراہ کا فیصلہ کئی نسلوں کو بھگتنا پڑ جاتا ہے۔ اسی طرح بڑوں کی محنت اور درست فیصلے آنے والی نسلوں کو کامیابی کی سیڑھی بھی فراہم کر جاتے ہیں۔ کئی بار ایسے بھی ہوتا ہے کہ کئی نسلوں کی کمائی کوئی ناہنجار دنوں میں برباد کر جاتا ہے۔ یہی حال قوموں کا ہوتا ہے۔ قومی قیادت کے فیصلے صدیوں تک اثرات رکھتے ہیں اور قومی قیادت کا ایک غلط فیصلہ قوم کو برباد کر جاتا ہے اور درست فیصلے قوموں کی قسمت سنوار دیتے ہیں۔ ہٹلر کے ایک غلط فیصلے نے جرمنی کو تباہ کر دیا۔ جاپان نے دوایٹم بم کھا کر بھی قوم کو کھڑا کر لیا۔ اسی طرح چین کی قوم نشے میں غرق تھی۔ چوائن لائی نے درست فیصلوں کے ذریعے قوم کو ایسی راہ دکھائی کہ آج چین دنیا کی سپر پاورز میں شمار ہوتا ہے۔ دوسری طرف اگر ہم اپنے گریبان میں جھانکیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری لیڈرشپ کو اپنی ناک سے آگے کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ بعض عاقبت نا اندیش فیصلوں کی وجہ سے پورا پاکستان گہری کھائی میں جاگرا ہے۔ اچھے بھلے ترقی کرتے ہوئے پاکستان کو ایسی بریکیں لگی ہیں کہ اب یہ ڈگر پر آنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں کوئی سسٹم نہیں، ہر صاحب اقتدار ملک کو اپنی خواہشات کے مطابق چلانا چاہتا ہے جس کے پاس اختیارات ہوتے ہیں وہ پورے ملک کے نظام پر اپنی خواہشات مسلط کر دیتا ہے۔ ریاست کے انتظامی بابو اسے راہ راست پر رکھنے کی بجائے صاحب کی خواہشات میں جت جاتے ہیں اور صاحب کی خواہش کی تکمیل کے لیے نت نئے راستے تلاش کرکے داد و تحسین وصول کرتے ہیں اور پھر اپنی خدمات کا انعام بھی وصول کرتے ہیں۔ پاکستان میں پالیسیوں کا کوئی تسلسل نہیں، پاکستان کو عرصہ دراز سے ڈنگ ٹپاو¿ پالیسی کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ ہر حکمران کہتا ہے کسی طرح میرا وقت گزر جائے آنے والے جائیں جہنم میں۔ بلکہ ہر جانے والا آنے والوں کے راستے میں ایسی بارودی سرنگیں بچھا جاتا ہے کہ اس کے لیے کچھ کرنا ممکن ہی نہیں رہتا۔ ہم ایک خاکہ بناتے ہیں، کچھ عرصہ بعد مٹا کر نیا بناتے ہیں۔ پھر کچھ عرصہ بعد کہتے ہیں نہیں پہلے والا صیح تھا۔ اس طرح ہم خاکے بنانے سے باہر نہیں نکل پا رہے۔ ہم ہر دوسرے دن ایک نیا سسٹم آزمانا شروع کر دیتے ہیں۔
جنرل ایوب خان کا مارشل لاءسازشوں کی ابتدا تھی لیکن پھر بھی اس دور میں پاکستان نے صنعتی ترقی شروع کی۔ پاکستان میں بنیادی انفراسٹرکچر کی بنیاد رکھی گئی اور ملک ترقی کے راستے پر چلنا شروع ہو گیا۔ پھر عوامی احتجاج شروع ہوا تو ایوب خان اقتدار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کرکے چلتا بنا۔ یہ ایک غلط فیصلہ تھا جو ملک دولخت کرنے پر منتج ہوا۔ پھر عام انتخابات میں اکثریتی پارٹی کو اقتدار منتقل نہ کرنا دوسری بڑی غلطی تھی جس نے ملک کے دوٹکڑے کر دیے۔ مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کر ترقی کر گیا ہم نے ملک کے دوٹکڑے ہونے سے بھی کوئی سبق نہ سیکھا۔ باقی ماندہ پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے پیچھے لگ کر بہت کچھ کر سکتا تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے لوگوں کو شعور دیا، بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی پہچان بنائی، پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کی بنیاد رکھی، اس ملک کو متفقہ آئین دیا۔ لیکن بھٹو کے ایک غلط فیصلہ کا خمیازہ قوم آج تک بھگت رہی ہے اور وہ صنعتی اداروں کو قومیانے کا فیصلہ تھا۔ اس کے بعد صنعتی ترقی کے حوالے سے پاکستان اپنے پاو¿ں پرکھڑا نہ ہوسکا۔ سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت کا ایسا بیج بو دیا گیا کہ جو نجی ادارے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہے تھے وہ جب سرکاری تحویل میں آگئے تو وہی مزدور جو دن رات محنت کر کے اس ادارے کو چار چاند لگا رہے تھے وہ سرکاری تحویل میں آنے کے بعد شتر بے مہار ہو گئے۔ ملازمین نے اپنے آپ کو سرکار کا داماد سمجھنا شروع کر دیا۔ سرکاری اداروں میں کام نہ کرنے اور لوٹ مار کا ایسا کلچر ایجاد ہوا کہ پھر سرکار سے سنبھالا نہ جاسکا۔ ریاست کی شناخت رکھنے والے بڑے بڑے ادارے بھی آج ریاست پر بوجھ بنے بیٹھے ہیں اور آج ہم ان اداروں کے سالانہ اخراجات کا بوجھ برداشت نہیں کر پا رہے۔ ہر سال اربوں روپے خسارہ برداشت کر رہے ہیں۔ اب چارو ناچار ان سے جان چھڑوانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان اداروں کی نجکاری کے لیے منتیں ترلے کر رہے ہیں کہ خدارا کوئی اونے پونے داموں ہم سے لے کر خسارے سے ہماری جان چھڑوائے۔ اسی طرح جنرل ضیاالحق کے جہاد افغانستان کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں اور 1985ءمیں جنرل ضیاالحق کے غیر جماعتی الیکشن کروانے کے غلط فیصلہ کے اثرات بھی آج تک زائل نہیں ہو سکے۔ 40سال گزرنے کے باوجود آج تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آسکا۔ اسی طرح ماضی قریب کی قیادتیں بجلی کے بحران سے نمٹتے نمٹتے پوری قوم کو توانائی کے بحران میں غرق کر گئی ہیں۔ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کے غلط فیصلوں نے قوم کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ پورے ملک کے وسائل آئی پی پیز کمپنیاں ہڑپ کیے جا رہی ہیں لیکن ہر گزرنے والے دن کے ساتھ پوری قوم آئی پی پیز کے معاہدوں کی دلدل میں غرق ہوتی جا رہی ہے۔ آئی پی پیز کمپنیاں ایسٹ انڈیا کمپنی سے زیادہ خطرناک ثابت ہو رہی ہیں۔ دنیا کی سیاست میں ایسا گورکھ دھندا آج تک نہیں دیکھا گیا کہ دنیا کی مہنگی ترین بجلی قوم پر مسلط کرنے والے قوم کے رہبر اور نجات دہندہ کے طور پر آج بھی سیاست کر رہے ہیں۔ جن لوگوں نے آئی پی پیز کمپنیوں کے ساتھ ملک وقوم کے ساتھ دشمنی والے ایسے خوفناک معاہدے کیے جن کی وجہ سے پاکستان کا بیڑہ غرق ہو گیا، ان کو نہ کوئی ادارہ بے نقاب کر رہا ہے نہ ان کے خلاف آج تک کوئی کارروائی ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان معاہدوں پر ریاست نے ساورن گارنٹیاں دی ہوئی ہیں اس لیے ان میں کوئی ردوبدل نہیں ہو سکتا۔ پوری قوم آج اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے اثاثے بیچ کر دنیا کی مہنگی ترین بجلی خرید کر کیپسٹی چارجز اور لاتعداد ایسے ٹیکسز کی مد میں رقم دے رہی ہے جس کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ یہ ایک قسم کا حکومتی جگا ٹیکس ہے جو ہر حال میں ادا کرنا ہے۔ دنیا میں شاید ہی کہیں اس نوعیت کے معاہدے ہوئے ہوں۔ دراصل یہ معاہدے کرنے والے ملک کے اصل دشمن ہیں جن کے خلاف ملک سے غداری کے مقدمے قائم ہونے چاہئیں اور ان کا ملک دشمنی کی پاداش میں ٹرائل کرنا چاہیے۔
گذشتہ کالم میں ہارون آباد ضلع بہاولنگر کے ایک پوزیشن ہولڈر طالبعلم کے حالات بیان کیے گئے تھےجو تعلیمی میدان میں ٹاپ کرنے کے باوجود بےروزگار ہے۔ وہ یتیم ہے اور اپنے ابنارمل بھائی ماں اور بہن کی مزدوری کرکے کفالت کر رہا ہے۔ اس کی ملازمت کے لیے درخواست کی گئی تھی جس میں اس کا فون نمبر غلط شائع ہو گیا تھا اگر کوئی اس کی مدد کرنا چاہے تو اس نمبر پر رابطہ کرسکتا ہے۔ 0306963910